بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں ۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کہا تھا کہ ہائے ری، اس چھوکری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں ! اس وقت میں نے بھی درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں پر دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں مسکرا کر تمھارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے۔
اگلی رات جب تمھارے بابا نے موقع پا کر تمھیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا اور میں نے کہا تھا: ’’تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے، پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے۔‘‘ اور اس نے کہا تھا: ’’تو نہیں جانتی نا بھولی عورت، تو ماں ہے نا۔ تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوب صورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔‘‘ اس وقت میرا جی چاہا تھا کہ میں تمھارے بابا کی آنکھیں اس کی کھوپڑی میں سے نکال کر باداموں کی طرح توڑ دوں کیوں کہ میری جان، وہ تو تمھیں اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے چڑیا سانپ کو دیکھتی ہے، وہ تمھاری خوب صورتی دیکھ کر ڈر گیا تھا اور پھر اس نے اپنی عمر کے سولہ سترہ سال تم سے ڈرتے ڈرتے گزار دیے۔ وہ اب بھی ڈرا اور سہما ہوا، باہر گلی میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر لوگوں میں گھرا بیٹھا ہے اور آسمانوں کو یوں دیکھ رہا ہے جیسے کوئی اس کی طرف آ رہا ہے۔
تم مجھ پر تو نہیں گئی تھیں میری بچی، میں تو گاؤں کی ایک عام لڑکی تھی۔ میرا ناک نقشہ بالکل سیدھا سادا تھا۔ ہاں تم اپنے بابا پر گئی تھیں جو بہت خوب صورت تھا۔ وہ تو اب بھی خوب صورت ہے پر اب اس کی خوب صورتی سولہ سترہ سال کی گرد سے اَٹ گئی ہے۔ اب بھی اس کی بڑی بڑی چیرویں بادامی آنکھیں ہیں اور اب بھی اس کے چہرے اور مونچھوں کے رنگ میں سونا ہے پر جب تم پیدا ہوئی تھیں نا تو وہ بالکل مورت تھا۔ تم آئیں تو وہ ڈر گیا تھا مگر اس ڈر نے اس کی شکل نہیں بدلی۔ بس ذرا سی بجھا دی۔ تمھارے آنے کے بعد میں نے اس کے موتیوں کے سے دانت بہت کم دیکھے۔ اس کے پنکھڑی ہونٹ ہمیشہ یوں بھنچے رہے جیسے کھلے تو کچھ ہو جائے گا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ آیا اور اس نے تمھیں دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی بہت بڑے محل کی بنیادیں بیٹھ رہی ہیں ۔ وہ یہاں کھڑے کھڑے ہی ایک دم اندر سے بوڑھا ہو گیا۔ جب وہ پلٹا تو میں ڈری کہ وہ گلی تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈھیر ہو جائے گا مگر ابھی ابھی میں نے دیوار پر سے جھانکا ہے تو وہ گلی میں بیٹھا ہے اور جمع ہوتے ہوئے لوگوں کو یوں ڈر ڈر کر، چونک چونک کر دیکھ رہا ہے جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔
تم جب تین چار سال کی ہو کر بھاگنے دوڑنے لگیں تو دیکھنے والوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مٹی کا بنا ہوا انسان اتنا خوب صورت بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار تم گر پڑیں اور تمھارے ماتھے پر چوٹ آئی تو میں تو روتے روتے نڈھال ہو گئی پر تمھارے بابا نے چہک کر کہا تھا ’’خدا جو بھی کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ ہماری رانو بیٹی کے ماتھے پر چوٹ کے نشان نے اس کی خوب صورتی کو داغ دار کر دیا ہے۔‘‘ پر خدا کو تو کچھ اور منظور تھا۔ چوٹ کا نشان تو باقی رہ گیا مگر یہ نشان بالکل نئے نئے چاند کا سا تھا۔ لال لال سا بھی اور سنہرا سنہرا سا بھی، جو اَب میری جان، پیلا پیلا سا لگ رہا ہے۔
پھر جب تم پانچ سال کی ہوئیں تو میں نے قرآن شریف پڑھانے کے لیے تمھیں بی بی جی کے پاس بٹھا دیا۔ تب پتا چلا کہ تمھاری آواز بھی تمھاری طرح خوب صورت ہے۔ بی بی جی کے گھر کی دیواروں کے اندر سے قرآن شریف پڑھنے والی بچیوں کی آوازیں آتی تھیں تو ان میں سے میری رانو بیٹی کی آواز صاف پہچانی جاتی تھی۔ تمھاری آواز میں چاندی کی کٹوریاں بجتی تھیں ۔ ایسی کھنک کہ تم چپ بھی ہو جاتی تھیں تو جب بھی چار طرف سے جھنکار سی اٹھتی رہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ پہلے تم آیت پڑھتی تھیں اور تمھارے بعد تمھاری ہم سبقوں کی آوازیں آتی تھیں ۔ یوں جب تم اکیلی پڑھ رہی ہوتی تھیں تو گلی میں سے گزرنے والوں کے قدم رک جاتے تھے اور چڑیوں کے غول منڈیروں پر اتر آتے تھے۔ ایک بار مزار سائیں دولھے شاہ جی کے مجاور سائیں حضرت شاہ ادھر سے گزرے تھے اور تمھاری آواز سن کر انھوں نے کہا تھا ’’یہ کون لڑکی ہے جس کی آواز میں ہم فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن رہے ہیں ۔‘‘ اور جب تمھیں معلوم ہوا تھا کہ سائیں حضرت شاہ نے تمھارے بارے میں یہ کہا ہے تو تم اتنی خوش ہوئی تھیں کہ رونے لگی تھیں ۔
تب یوں ہوا کہ عورتیں پانی سے بھرے ہوئے برتن لاتیں اور تمھاری تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتیں ۔ تم قرآن پاک بند کر کے اٹھتیں اور ’’طفیل سائیں دولھے شاہ جی‘‘ کہتی ہوئی ان برتنوں پر ’چھوہ‘ کرتیں اور عورتیں یہ پانی اپنے عزیزوں کو پلاتیں تو بیمار اچھے ہو جاتے، برے نیک ہو جاتے، بے نمازی نمازی ہو جاتے۔
ان دنوں مجھے یوں لگنے لگا جیسے تم نور کی بنی ہوئی تو خیر ہمیشہ سے ہو پر اب تم بی بی جی کے ہاں سے واپس گھر میں آتیں تو تمھارے چہرے پر میری نظریں نہ جم پاتیں ، جیسے سورج پر نظر نہیں جمتی۔
خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تم سائیں دولھے شاہ جی کا نام جپتی رہتی تھیں ۔ اسی لیے تو تمھارا بابا ایک بار تمھیں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار پر سلام بھی کرا لایا تھا۔
قرآن شریف تم نے اتنا پڑھا میرے جگر کی ٹکڑی، کہ اب بھی جب چارا طرف سناٹا اور صرف ادھر ادھر سے سسکی کی آواز آتی ہے، میں تمھارے آس پاس، تمھاری ہی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت سن رہی ہوں ۔ تمھارے ہونٹ تو نہیں ہل رہے، پر میں اپنے دودھ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ آواز تمھاری ہے۔ زمین پر ایسی نورانی آواز میری رانوں کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔
ایک دن جب تمھارے چاچا دین محمد کی بیوی اپنے بیٹے کے لیے تمھارا رشتہ پوچھنے آئی تو تب مجھے معلوم ہوا کہ تم شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہو۔ مائیں تو بیٹی کے سر پر چنی لیتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ وقت آ رہا ہے پر تمھارے بارے میں تو میں سوچ ہی نہ سکی۔ تم نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ میں نے تمھارے بابا سے اپنی اس بے خبری کی بات کی تو وہ بولا ’’تو تو سدا کی بے خبر ہے پر میں ایسا بے خبر نہیں ہوں ۔ بس یہ ہے کہ مجھے لڑکی سے ڈر لگتا ہے اس سے بھی تو بات کرو۔ اس نے تو جیسے اپنا سب کچھ مولا کی راہ میں تج دیا ہے۔‘‘
تب پہلی بار مجھے بھی تم سے خوف آیا۔ میں نے سوچا اگر میں نے تم سے رشتے کی بات کی تو کہیں تم جلال میں نہ آ جاؤ، مگر پھر اسی شام کو سائیں حضرت شاہ کا ایک خادم آیا اور اس نے بتایا کہ کل سے سائیں دولھے شاہ کا عرس ہے جو تین دن تک چلے گا اور سائیں حضرت شاہ نے خواب میں سائیں دولھے شاہ جی کو دیکھا ہے اور یہ فرماتے سنا ہے کہ میری چیلی رانو کو بلا کر تین دن تک اس سے میرے مزار پر قرآن شریف کی تلاوت کراؤ ورنہ سب کو بھسم کر دوں گا۔ تم جانتی تھیں بیٹی کہ سائیں دولھے شاہ جی بڑے جلال والے سائیں تھے۔ زندگی میں جس نے بھی ان کے خلاف کوئی بات کی اسے بس ایک نظر بھر کر دیکھا اور راکھ کر ڈالا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی درگاہ میں یا اس کے آس پاس کوئی برا کام یا بری بات ہو جائے تو ان کا مزار شریف سرہانے کی طرف سے کھل جاتا ہے اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک بلند ہوتا ہے۔ برا کام یا بری بات کرنے والا جہاں بھی ہو کھنچا چلا آتاہے۔ اپنی گردن سائیں جی کے دستِ مبارک میں دے دیتا ہے اور پھر وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ سائیں جی کا دستِ مبارک واپس مزار شریف میں چلا جاتا ہے اور مزار شریف کی دراڑیں یوں جاتی ہیں جیسے کبھی کھلی ہی نہیں تھیں ۔
کس کی مجال تھی کہ سائیں دولھے شاہ جی کا حکم ٹالتا۔ دوسرے دن صبح کو ہم تینوں ایک اونٹ پر کجاوے میں بیٹھے تھے اور درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کی طرف جا رہے تھے۔ میں کجاوے کے ایک طرف تھی اور تم میری جان، دوسری طرف تھیں اور درمیان میں اونٹ کے پالان پر تمھارا بابا بیٹھا تھا۔ اونٹ جونہی اٹھا تھا اور چلنے لگا تھا تو تم نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دی تھی اور میری پاک اور نیک بچی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ ہمارا اونٹ جہاں سے بھی گزرتا تھا، لوگ دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور رو رہے تھے اور سبحان اللہ کہہ رہے تھے اور کجاوے کے اوپر چڑیوں اور ابابیلوں اور کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے تھے اور غوطہ لگا کر جیسے میری بچی کی آواز کا شربت پی کر ناچتے تیرتے ہوئے دور نکل جاتے تھے اور میں سوچتی تھی کہ یہ ہم گنہگاروں کی کس نیکی کا بدلہ ہے کہ خدا نے ہمیں ایسی بیٹی بخشی ہے جو زمین پر قرآن شریف کی تلاوت کرتی ہے تو اس کی آواز آسمان تک جاتی ہے۔ آسمان کا خیال مجھے یوں آیا تھا کہ ایک بار تمھارے بابا نے پالان پر سے جھک کر کے میرے کان میں ہولے سے کہا ’’اوپر دیکھو، یہ کیسے نورانی پرندے ہیں جو ہمارے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں ۔ میں نے ان علاقوں میں ایسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا کہ ان کے پروں میں ستارے چمکتے ہوں ۔ یہ تو آسمانوں سے اتر کر آنے والے فرشتے معلوم ہوتے ہیں ‘‘ اور میری آنکھوں کا نور بچی، میں تمھاری جاہل ماں بھی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ فرشتے ہی تھے۔ کچھ ایسے جیسے ننھے منے بچوں کے پر لگ گئے ہوں اور وہ ہوا میں ہمکتے پھرتے ہوں ۔ وہ میری پہنچی ہوئی بیٹی سے تلاوت سننے آئے تھے۔
پھر جب درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کے پاس ہمارا اونٹ بیٹھا تھا تو جیسے تم بھول گئی تھیں کہ تمھارے ساتھ تمھارے ماں باپ بھی ہیں تم مزار شریف کی طرف یوں کھنچی چلی گئی تھیں جیسے سائیں دولھے شاہ جی تمھاری انگلی پکڑ کر تمھیں اپنے گھر لیے جا رہے ہوں ۔ مزار شریف کو بوسہ دے کر اور اس کے ایک طرف بیٹھ کر تم نے قرآن شریف کی تلاوت کر دی تھی اور تمھاری آواز کی مٹھاس چکھنے کے لیے عرس پر آنے والے لوگ مزار شریف پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم دونوں نے مزار شریف کو اپنی پوروں سے چھوا اور پھر اپنی پوریں چوم لیں ۔ پھر ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں ان کے زانوؤں کو چھونے اور دستِ مبارک کو چومنے پہنچے تھے اور انھوں نے فرمایا تھا ’’اپنی بیٹی کو سائیں جی کے قدموں میں بٹھا کر تم نے اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کرا لیے ہیں ۔ تم انشاء اللہ جنّتی ہو۔‘‘ یہ سن کر خوشی سے ہماری سانسیں پھول گئی تھیں ۔ پھر میں نے اندر جا کر بیبیوں کو سلام کیا تھا اور تمھیں ۔۔۔میری جان۔۔۔سائیں دولھے شاہ جی اور سائیں حضرت شاہ اور ان کے گھرانے کی بیبیوں کی امانت میں دے کر ہم دونوں یہ کہہ کر واپس گاؤں آ گئے تھے کہ عرس کے تین دن گزرنے کے بعد اگلے روز ہم اپنی اس نعمت کو لینے حاضر ہو جائیں گے جو خدا نے اور اس کے حبیب پاک نے ہم غریبوں ، گنہگاروں کو ہماری کسی سیدھی سادی نیکی سے خوش ہو کر بخشی ہے۔
اے میری بچی، اے میری جگر کی ٹکڑی، اے میری صاف ستھری رانو بیٹی! پھر جب تین دنوں کے بعد ہم دونوں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار شریف پر گئے تھے تو تم وہیں بیٹھی تھیں جہاں ہم تمھیں بٹھا گئے تھے، مگر کیا یہ تم ہی تھیں ، تمھاری آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں ، تمھارے ہونٹوں پر جمے ہوئے خون کی پپڑیاں تھیں ، تمھارے بال الجھ رہے تھے۔ چادر تمھارے سر سے اتر گئی تھی مگر اپنے بابا کو دیکھ کر بھی تمھیں اپنا سر ڈھانپنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ تمھارا رنگ مٹی مٹی ہو رہا تھا اور ہمیں دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں ’’مجھ سے دور رہو بابا، میرے پاس نہ آنا اماں ۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولھا شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہو گا میں یہیں رہوں گی اور مزار شریف کھلے گا۔ آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد، ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آؤں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ پر اب میں نہیں آؤں گی، اب میں نہیں آ سکتی۔ میں بندھ گئی ہوں ۔ میں مر گئی ہوں ۔‘‘ پھر تمھیں ایک دم بہت سا رونا آ گیا تھا مگر تم نے ایک دم اپنے آنسو روک لیے تھے اور تم بھیگی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھیں ۔ آس پاس کھڑے ہوئے بیسیوں لوگ ہمارے ساتھ زار زار رونے لگے تھے اور کہنے لگے تھے ’’اثر ہو گیا ہے، دن رات مزار شریف پر رہنے سے اس پر اثر ہو گیا ہے۔‘‘
تمھارے بابا نے فریاد کی تھی۔ اثر ہو گیا ہے؟ دن رات قرآن شریف کی تلاوت کرنے والی لڑکی پر کوئی اثر کیسے ہو سکتا ہے اور اگر تم کہتے ہو کہ اثر ہو گیا ہے تو سائیں حضرت شاہ کہاں ہیں ؟ وہ روتا ہوا سائیں حضرت شاہ کی طرف چل پڑا تھا اور میں بلکتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی، مگر ہمیں خادموں نے بتایا تھا کہ سائیں جی تو عرس کے فوراً بعد ایک حجرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی دنوں تک وظیفہ فرماتے ہیں اور کسی سے نہیں ملتے پھر میں نے اندر بیبیوں کے پاس جانا چاہا تھا مگر بڑے دروازے پر خادماؤں نے بتایا تھا کہ رانو کی حالت سے بی بیاں پہلے ہی بہت پریشان ہیں اور انھیں زیادہ پریشان کرنا گناہ ہے۔
ہم اجڑے پجڑے ماں باپ، مزار شریف سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئے تھے اور رو رہے تھے اور لوگ ہمیں روتا دیکھ کر رو رہے تھے کہ سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ سائیں جی کو بہت رانو کی اس حالت کا بڑا دکھ تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکی اچانک جن بھوت کے قبضے میں چلی گئی ہے اور سائیں حضرت شاہ ایک خاص وظیفہ فرما رہے ہیں کہ یہ جن اُترے تو اس امانت کو اس کے ماں باپ تک پہنچایا جائے۔ پھر حکم ہوا تھا کہ تم جاؤ اور رانو کو درگاہ شریف کی نگرانی میں رہنے دو۔
’’اب تم جاؤ۔‘‘ ہمارے سروں پر تمھاری آواز آئی تھی اور ہم نے سر اٹھا کر دیکھا تھا کہ تمھاری آنکھیں تالابوں کی طرح بھری ہوئی تھیں ۔ ’’اب تم جاؤ میرے بابا، جاؤ میری اماں ۔ اب تم جاؤ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ فیصلہ ہو جائے تو میں سیدھی تمھارے پاس پہنچوں گی۔ سائیں دولھے شاہ جی خود مجھے تمھارے پاس چھوڑ جائیں گے۔ اب تم جاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ کہہ کر تم مزار شریف کی طرف پلٹ گئی تھیں اور تم چلتے ہوئے یوں ڈول رہی تھیں جیسے کٹی ہوئی پتنگ ڈولتی ہے۔
میں تم پر سے صدقے جاؤں میری بیٹی۔ ہم تمھارے ماں باپ اس کے بعد بھی بار بار تمھارے پاس پہنچے مگر اب تو تم ہمیں پہچانتی بھی نہیں تھیں ۔ ہم تمھیں پکارتے تھے تو تم ہماری طرف یوں خالی خالی آنکھوں سے دیکھتی تھیں جیسے حیران ہو رہی ہو کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے۔ تمھارا رنگ خاکستری ہو گیا تھا۔ تمھارے ہونٹ اکڑ کر پھٹ گئے تھے۔ تمھارے بالوں میں گرد تھا اور تنکے تھے اور ٹوٹے ہوئے خشک پتے تھے۔ ایک بار جب ہم تمھارے لیے کپڑوں کا نیا جوڑا لے کر گئے اور ہم نے یہ کپڑے تمھارے سامنے رکھ دیے تو تم یہ کپڑے ہاتھ میں لے کر اٹھیں اور ایک طرف چل پڑیں ۔ تمھارا ایک بھی قدم سیدھا نہیں اٹھتا تھا۔ پھر تم غائب ہو گئی تھیں اور ہم خوش ہوئے تھے کہ تم کہیں کپڑے بدلنے گئی ہو، مگر پھر ایک دم ایک طرف سے شور اٹھا تھا۔ تم اسی رفتار سے واپس آ رہی تھیں اور تمھارے پیچھے درگاہ شریف کے چند خادم تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ تم نے نئے کپڑوں کا یہ جوڑا اور درگاہ شریف کے لنگر کی دیگ کے نیچے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا تھا۔
تلاوت تو تم اب بھی کر رہی تھیں مگر آواز میں چاندی کی کٹوریاں نہیں بجتی تھیں ۔ پھر تم پڑھتے پڑھتے مزار شریف کے سرہانے کی طرف جھک جاتی تھیں جیسے کوئی جھری، کوئی دراڑ ڈھونڈنے کی کوشش میں ہو پھر تم ٹوٹ کر رو دیتی تھیں اور تلاوت کو روک کر ہولے ہولے جیسے خود کو سمجھاتی تھیں ۔ ۔ ۔ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ انصاف ضرور ہو گا۔ پھر تم آنکھیں بند کر لیتی تھیں اور تلاوت میں مصروف ہو جاتی تھیں ۔
ایک بار ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا کہ جن بھوت کلامِ پاک پڑھنے والوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ دور سے بیٹھے ہنستے رہتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں اور اگر ہماری ہیرا بیٹی پر ایسے کافر جن آ گئے ہیں جو قرآن شریف کی تلاوت کا بھی لحاظ نہیں کرتے، تو یہ آپ کی درگاہ شریف ہی کے جن ہیں ۔ آپ کے حکم سے اتر جائیں گے۔ خدا کے نام پر، رسولؐ پاک کے نام پر، پیر دستگیر کے نام پر، سائیں دولھے شاہ جی کے نام پر ہمارے ساتھ مزار شریف پر چلیے اور یہ جن اتاریے اور سائیں حضرت شاہ نے فرمایا تھا کہ ہم جن تو اتار دیتے مگر تم نے ٹھیک کہا۔ یہ کوئی بڑا کافر جن ہے اور کافر جن ہمارے قبضے میں نہیں ہیں ۔ ہم یہاں دعا کر رہے ہیں ، تم گھر جا کر دعا کرو۔ ہمارا وظیفہ جاری رہے گا۔
جب ہم ٹوٹے پھوٹے واپس آ رہے تھے تو بیبیوں کی ایک بوڑھی خادمہ نے مجھے ایک طرف لے جا کر بتایا تھا کہ عرس کے تیسرے دن سائیں حضرت شاہ مزار کی طرف آئے تھے تو تمھاری بدنصیب بیٹی نے مزار شریف پر سے گول گول لہریے پتھر اٹھا کر جھولی میں بھر لیے تھے اور چیخ چیخ کر کہا تھا کہ سائیں ! مزار شریف سے دستِ مبارک تو جب نکلے گا، نکلے گا اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں سائیں دولھے شاہ جی کے دیے ہوئے ان پتھروں سے تمھارا ناس کر دوں گی۔ خادم تمھاری بیٹی کو پکڑ کر مارنے پیٹنے کے لیے آگے بڑھے تھے تو سائیں جی نے انھیں روک کر کہا تھا کہ نادانو یہ لڑکی نہیں بول رہی ہے اس کے اندر کا کافر جن بول رہا ہے۔ جب تک یہ مزار شریف پر قابض ہے ہمیں اور ہمارے خاندان کے کسی مرد عورت کو ادھر نہیں آنا چاہیے ورنہ کیا خبر یہ جن کیا کر بیٹھے۔
پھر رات درگاہ شریف کا ایک خادم آیا کہ تمھاری بیٹی تمھیں بلا رہی ہے۔ پر راتوں رات گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو تم مزار شریف کی پائنتی لیٹی ہوئی تھیں ۔ چراغ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ تمھاری نظر ٹک گئی تھیں اور تمھارے ہونٹ ذرا ذرا سے ہل رہے تھے۔ ظاہر ہے تم اس وقت بھی تلاوت ہی کر رہی تھیں ۔ پھر جب میں نے تمھارا سر اپنی گود میں رکھا اور تمھارے بابا نے تمھارا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر رونا شروع کر دیا تو نہایت ہی کمزور آواز میں تم نے کہا تھا ’’میری اماں ، میرے ابا کون جانے مزار شریف کیوں نہیں کھلا۔ انصاف تو یہیں ہوا پر چلو فیصلہ تو ہو گیا۔ چلو میں ہی گنہگار سہی۔ سائیں دولھے شاہ جی، آپ نے تو بڑا انتظار کرایا۔ اب قیامت کے دن جب ہم سب خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ جب ہم خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ خدا کے سامنے۔ ۔ ۔ خدا۔ ۔ ۔ ‘‘! اس کے بعد تم چپ ہو گئی تھیں اور تب سے چپ ہو۔
پھر ہم تمھیں یہاں گھر میں اٹھا لائے اور جب ابھی ابھی سویرے سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم سائیں جی کی طرف سے تمھارے لیے کفن لایا تو تم پر سے اترا ہوا جن جیسے تمھارے بابا پر آ گیا۔ ۔ ۔ اس نے کفن ہاتھ میں لیا اور اسے اس چولھے میں جھونک دیا جس پر تمھیں غسل دینے کے لیے پانی گرم کیا جا رہا تھا۔
اب میرے جگر کی ٹکڑی، میرے نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی! آؤ میں تمھارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں ۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریاں تنے سے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور چار طرف تمھاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے میں پھیل رہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہو گیا ہے جیسے تمھیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔