زیادہ غذا جب ہی کھاتا ہے ہاتھی
کہ بچوں کو دن بھر گھماتا ہے ہاتھی
وہ مزدوری کرتا ہے چڑیا کے گھر میں
یوں ہی اپنی روزی کماتا ہے ہاتھی
تو بچے بھی لگتے ہیں ہاتھی کے ساتھی
انہیں پیٹھ پر جب بٹھاتا ہے ہاتھی
جو انسان ہوتے ہیں ہاتھی کی مانند
انہیں دیکھ کر مسکراتا ہے ہاتھی
یہ اس کی تواضع نہیں ہے تو کیا ہے
کہ چوہے کو ساتھی بناتا ہے ہاتھی
کئی ٹینکر اس کو ہوتے ہیں درکار
کبھی بھول کر جب نہاتا ہے ہاتھی
وہ ملتا ہے ہر جانور سے اکڑ کر
مگر شیر سے کپکپاتا ہے ہاتھی
مگر جب کبھی آئے غیظ و غضب میں
اسے سونڈ میں پھر اٹھاتا ہے ہاتھی
اثرؔ بھول جاتا ہے شیر اپنی شاہی
کہ پٹخنیہ ایسی لگاتا ہے ہاتھی
اثرؔ اس کی قوت کا کیا حال ہو گا
جو لاکھوں کروڑوں بناتا ہے ہاتھی