01:36    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید - نثر

2061 0 0 00

شکیل الرّحمٰن

اپنی بات

(پہلے ایڈیشن سے )

گزشتہ سال آج ہی کے  دن اختر الایمان نے  اس آباد خرابے  میں  اپنی زندگی کے  دن مکمل کر لیے۔  اور  اُردو شاعری خصوصاً اُردو نظم ایک رومانی لیجنڈ سے  محروم ہو گئی۔ مجھے  برسوں  اس کا قلق رہے  گا۔

 

            اس جانکاہ حادثے  پر اندرون و بیرون ملک کے  اخبار و جرائد  اور  فلم و ادب کے  پڑھے  لکھے  طبقوں  نے  اپنی اپنی سطح سے  تعزیتی رپورٹیں اور تجاویز پیش کیں۔

 

            بہار قانون ساز کاؤنسل بلیٹن ’ساکشیہ‘  کے  ۱۹!مارچ ۱۹۹۶ء کے  شمارے  میں، میں  نے  اُردو شاعری کے  اس اہم دستخط کے  لیے  تعزیتی نوٹ لکھا  اور  کاؤنسل اجلاس میں  بھی تعزیتی تجویز پیش کی۔ اجلاس میں  حزب مخالف  اور  موافق کے  رہنماؤں  نے  بھی اختر الایمان کے  انتقال کو فلم و ادب کا ناقابل تلافی نقصان بتایا ہے۔

 

            میں  نے  کاؤنسل میں  اپنی ذمہ داری سنبھالتے  ہی اس آئینی ادارے  میں  اُردو ہندی کے  معتبر شاعروں، ادیبوں  کے  انتقال پر تعزیتی تجویز کا سلسلہ شروع کیا۔ اختر الایمان کے  سلسلے  میں  تعزیت پیش کرتے  ہوئے  یہ پہلا موقع تھا جب قانون ساز کاؤنسل میں  مختلف پارٹیوں  کے  سربراہ  اور  دہ رہنماؤں  نے  دوران اجلاس اپنے  شدید پُر سوز تعزیتی کلمات پیش کیے۔

 

            اُردو مرکز، عظیم آباد کی ایک تعزیتی نشست میں  اختر الایمان کی پہلی برسی کے  موقع سے  خراجِ عقیدت کے  بطور ان کی کسی کتاب یا ان سے  متعلق کسی اہم کتاب کی اشاعت کا فیصلہ لیا گیا۔  اور  اس سلسلے  میں، میں  نے  پروفیسر شکیل الرحمن سے  گزارش کی۔ پروفیسر شکیل الرحمن نے  مصروفیات کے  باوجود میری گزارش کا پاس رکھا، اس کے  لیے  میں  خصوصی طور پر ان کا شکر گزار ہوں۔

 

            شکیل الرحمن جمالیاتی تنقید کے  حوالے  سے  اپنی علیحدہ شناخت رکھتے  ہیں۔ اختر الایمان سے  متعلق ان کی یہ کتاب اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔ ضخامت کے  باوجود شکیل الرحمن کا تنقیدی اسلوب کہیں  اُکتاہٹ یا بوجھل پن کا احساس نہیں  دلاتا ہے۔

 

            مجھے  شکیل الرحمن کی تنقید میں  بھی شعریت  اور  مٹھاس ملتی ہے۔ غالباً ان کی تحریر کا یہی پہلو ان کی تنقید کو بھی تخلیق کا درجہ عطا کرتا ہے۔

 

            اختر الایمان جدید اُردو نظم کی ایک معتبر آواز ہیں۔ ان کی نظموں  میں  حسن کی مختلف کیفیتوں  کا اظہار جمالیاتی حس کے  ساتھ اُبھرا ہے۔ ان کے  مخصوص اندازِ بیان و اظہار نے  ان کی نظموں  کو جمالیاتی وجدان بخشا ہے،  اور  ان کی شعوری کوششوں  نے  حسن کو نیرنگ صورت سے  آشنا کیا ہے:

نہیں  گر سر و برگ ادراک معنی

تماشائے  نیرنگ صورت سلامت

            تماشائے  نیرنگ صورت کے  لیے  اصول و قوانین تنقید وضع کرتی ہے اور سرو برگ ادراک معنی کے  لیے  جمالیات راہ ہموار کرتی ہے۔ اس طرح جمالیاتی تنقید کی اہمیت مسلم ہو جاتی ہے۔ نیرنگ صورت کو دیکھنے  کے  لیے  آنکھ کافی نہیں، بصیرت بھی چاہیے اور بصیرت کے  لیے  حواس، ادراک  اور  وجدان کی ضرورت ہے۔ کسی بھی فن یا فنکار کی معرفت ادھوری ہو گی،  اگر  ہم نیرنگ صورت کے  تماشے  میں  گم ہو جائیں۔

 

            اختر الایمان کی نظموں  کی معرفت کے  لیے  شکیل الرحمن کی یہ کتاب اس لیے  اہم ہے  کہ شکیل الرحمن نے  نیرنگ صورت کے  پیچھے  ادراک معنی کی لہروں  کو گرفت میں  لانے  کی کوشش کی ہے۔

 

            شکیل الرحمن کی یہ کتاب اُردو مرکز، عظیم آباد کے  اشاعتی سلسلے  کی تازہ فخر یہ پیشکش ہے۔ یہ کتاب بجا طور پر اختر الایمان کے  ساتھ انصاف کرتی ہے۔  اور  شکیل الرحمن کو اُردو تنقید میں  ایک اعلیٰ منصب بھی دلاتی ہے۔

 

            اُردو مرکز کے  تحت اس کتاب کو شائع کرتے  ہوئے  مجھے  مسرت محسوس ہو رہی ہے۔

 

۹!مارچ ۱۹۹۷ء     جابر حسین

رومانیت

اختر الایمان جدید اُردو شاعری کے  ایک منفرد رومانی شاعر ہیں۔ ان کے  شعری تجربوں اور ان کی نظموں  کی تکنیک نے  ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے، بلاشبہ وہ جدید اُردو شاعری میں  ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے  ہیں۔

            اختر الایمان کے  تجربوں   کے  بعض رنگوں  کی پہچان عرصے  تک نہ ہو سکی اس لیے  کہ ان کی تخلیقی فکر مختلف ہے، وہ روایات سے  متاثر ضرور ہیں  لیکن ان کی شاعری روایتی نہیں  ہے، نظموں  کی عام کیفیتوں  سے  بھی گریز کیا ہے۔ تہذیب  اور  معاشرے  میں  سماجی  اور  نفسیاتی اقدار کی کشمکش  اور  تصادم کو منفرد انداز سے  دیکھا ہے، ذہن کی تنہائی میں  جیتے  ہوئے  بھی معاشرے  کے  مسائل  اور  ہیجانات سے  قریب ہیں۔ ان کی نظموں  سے  ایک نئی رومانیت کی تشکیل ہوتی ہے۔

            یہ نئی رومانیت تلخ حقیقتوں  کے  بہتر شعور کے  ساتھ ان حقیقتوں  سے  فنکارانہ گریز کرتی ہے اور نئی تخلیق کرتی ہے۔ شکست و ریخت  اور  خارجی  اور  داخلی ہیجانات کے  اس عہد میں  یہ نئی رومانیت تصادم  اور  کشمکش، ذہنی دباؤ اور  جذباتی تنہائی کے  تجربوں  کو شعری پیکروں  میں  ڈھالتی ہے، ایک جانب شخصیت کے  کرب کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری جانب تازہ شعری تجربے  حاصل ہوتے  ہیں۔

            اختر الایمان کی رومانیت کی بنیاد ’ہیومنزم‘  کے  جذبے  پر ہے۔ ایک المناک صدی کا شاعر انسان کے  مستقبل کے  تعلّق سے  فکر مند ہے۔ غیر یقینیت  اور  غیر محفوظیت کا شعور اس عہد کا شعور ہے  کہ جو تخلیقی فنکاروں  کو ملا ہے۔ تمنّا یہ ہے  کہ دنیا خوبصورت بنے، انسان دوستی کا جذبہ  اور  گہرا  اور  وسیع رہے، رومانی شاعر نے  معاشرے  کے  کرب کو اپنے  وجود کا کرب بنا لیا ہے، رومانی فکر و نظر نے  المیہ کے  ساتھ المیہ کے  حسن کو بھی نمایاں  کر دیا ہے:

نہ وہ زمیں  ہے، نہ وہ آسماں، نہ وہ شب و روز

کبھی سمٹتی کبھی پھیلتی ہیں  غم کی حدود

ٹھہر گئی ہے  اِک ایسے  مقام پر دنیا

جہاں  نہ رات نہ دن ہے  نہ بے  کلی نہ جمود

پکارتے  ہیں  ستارے  سنبھالتی ہے  زمیں

ہر ایک شئے  سے  گریزاں  ابھی ہے  میرا وجود

میں  سوچتا ہوں  کہیں  زندگی نہ بن جائے

خزاں  بدوش بہاریں، خمار زہر آلود!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں  اسی طور سے  گرداں  ہوں  زمانے  میں، وہی

صبح ہے، شام ہے، گہنائی ہوئی راتیں  ہیں

کوئی آغاز، نہ انجام، نہ منزل نہ سفر

سب وہی دوست ہیں، دہرائی ہوئی باتیں  ہیں

چہرے  اُترے  ہوئے  دن رات کی محنت کے  سبب

سب وہی بغض و حسد، رشک و رقابت، شکوے

دام تزویر ہے، اُلجھاؤ کی سو گھاتیں  ہیں

سب گلی کوچے  وہی، لوگ وہی، موڑ وہی

یہ وہی سردی ہے، یہ گرمی، یہ برساتیں  ہیں

زلف کی بات ہے  یا زہر کہ سب ڈرتے  ہیں

کوئی دل دار، نہ دل بر، نہ ملاقاتیں  ہیں

کوئی بشاش ہنسی، جینے  کی نوخیز اُمنگ

کچھ نہیں  بس غم و اندوہ کی باراتیں  ہیں

تنگ دامانی کا شکوہ ہے  خدا سے  ہر وقت

ہر مرض کے  لیے  نسخے  میں  مناجاتیں  ہیں

جی اُلٹ جاتا ہے  اس حبس مسلسل سے  مرا

ذہن جاتا ہے  کسی نازش خوبی کی طرف

یعنی وہ پرتو گل خانہ بر انداز چمن

ایک پروائی کا جھونکا سا گھنی بدلی سی

شاہد نکہت و انوار سحر، راحت من

رسم دلداری ہے  اس سیم بدن کے  دم سے

 اور  مرے  دم سے  ہے  عشاق کا بے  داغ چلن

۔۔۔۔۔۔۔

کس کے  قدموں  کی ہے  یہ چاپ یقیناً ہے  وہی

یہ یقیناً ہے  وہی سرو چمن، بنت بہار

کوئی رُت آئے  زمانہ نہیں  بدلے  گا اسے

جان من تم ہو؟ نہیں ! وہ لب و عارض وہ نکھار؟

نغمگی جسم کی، وہ لوچ سا نشہ سا مدام

ایک چلتا ہوا جادو سا نگاہوں  کا قرار؟

سچ کہو تم ہی ہو؟ آتا نہیں  آنکھوں  کو یقیں؟

(یہ دور)

نہ زہر خند لبوں  پر، نہ آنکھ میں  آنسو

نہ زخم ہائے  دروں  کو ہے  جستجوئے  مآل

نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل رنگ و نور

نہ خار زار تمنّا نہ گمرہی کا خیال

نہ آتش گل و لالہ کا داغ سینے  میں

نہ شورش غم پنہاں، نہ آرزوئے  وصال

نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ اضطراب، نہ سوگ

سکوت شام میں  کھوئی ہوئی کہانی کا

طویل رات کی تنہائیاں  نہیں  ہے  رنگ

ابھی ہوا نہیں  شاید لہو جوانی کا

حیات و موت کی حد میں  ہیں  ولولے  چپ چاپ

گزر رہے  ہیں  دبے  پاؤں  قافلے  چپ چاپ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            شاعر ہراساں  سا ہے، خوف یہ ہے  کہ بہاریں  خزاں  بدوش نہ بن جائیں اور خمار زہر آلود نہ ہو جائے، رومانی ذہن نے  ایک عجیب فضا  اور  ماحول کو شدّت سے  محسوس کیا ہے، عجیب نقش ہے، عجیب و غریب تصویر اُبھری ہے، وہ زمیں، وہ آسماں، وہ شب و روز کہاں  گئے؟ غم و الم کا دائرہ ہے  کہ جو کبھی سمٹتا ہے،  اور  کبھی پھیلتا ہے، ’وژن‘  نے  ایک ایسی تصویر کو نقش کیا ہے، جو فن مصوری کو نصیب نہیں  ہو سکتا، دنیا ایک ایسے  مقام پر ٹھہری ہوئی ہے  کہ جہاں  رات ہے اور نہ دن، بے  کلی ہے اور نہ جمود! رومانی فکر و نظر  اور  ’وژن‘  ہی اس کا جمالیاتی تاثر پیش کر سکتی ہے  کہ ستارے  پکار رہے  ہیں، زمین سنبھالنے  کی کوشش کر رہی ہے اور وجود دونوں  سے  گریزاں  ہے!

            اختر الایمان کی رومانیت کی ایک بڑی خصوصیت ’فنٹاسی‘  (Fantasy) ہے۔ اچھے اور بڑے  شاعروں  کی رومانیت نے  خوبصورت، دلکش  اور  المناک ’فنٹاسی‘  خلق کی ہیں۔ پہلی نظم کا شاعر انسان دوست ہے، انسان کے  مستقبل کی طرف سے  فکر مند ہے، زندگی کے  المیے  کو اس کا ذہن شدّت سے  محسوس کر رہا ہے، وسوسوں  میں  گرفتار ہے، جس طرح بعض حقیقتوں  کے  رد عمل کے  خواب جھنجھوڑ دیتے  ہیں  اسی طرح رومانی ذہن  اور  ’وژن‘  کی خلق کی ہوئی ’فنٹاسی‘  وسوسوں  کو لیے  خوابوں  کی مانند اُتری ہے،  اور  اس کے  تاثرات دیر تک اُلجھائے  رہتے  ہیں، دیر تک المیہ کا احساس دیتے  رہتے  ہیں، دیر تک احساسات کو گرفت میں  لیے  رہتے  ہیں، رومانیت نوع انسانی کی مادری زبان ہے، تخلیقی فن کار وہ شاعر ہو یا سنگ تراش یا مصور، مجسمہ ساز ہویا رقاص یا موسیقار مادری زبان کا تخلیقی استعمال کرتا ہے۔ تخلیقی استعمال میں  تمثیل، استعارہ، پیکر  اور  فنٹاسی کی ایک دنیا خلق ہو جاتی ہے۔

            دوسری نظم ’یہ دور‘  بھی ایک خوبصورت رومانی نظم ہے۔ ذہن یکسانیت سے  اُکتا گیا ہے، صبح سے  شام تک  اور  شام سے  رات  اور  صبح تک زندگی خود کو بس دُہراتی جا رہی ہے۔ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں  ہوتی، وہی ’’صبح ہے  شام ہے، گہنائی ہوئی راتیں  ہیں!‘‘  یکسانیت کا عالم یہ ہے  کہ دن رات کی محنت سے  سب کے  چہرے  اُترے  ہوئے  ہیں، وہی قضیے، وہی شکایتیں، وہی مداراتیں، وہی بغض و حسد، وہی رشک و رقابت، وہی شکوے، وہی گلی کوچے، وہی جانے  پہچانے  چہرے، الجھاؤ کی وہی گھاتیں۔ کل بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کا کوئی آغاز ہے  نہ انجام نہ منزل نہ سفر  اور  آج بھی یہی محسوس ہو رہا ہے۔ کل بھی یہی محسوس ہو گا، زندگی بار بار خود کو بس دہراتی جائے  گی، کوئی ہنسی بھی سنائی دیتی ہے  تو وہ بشاش نہیں  ہوتی، جینے  کی کوئی نوخیز اُمنگ بھی کہیں  نہیں  ملتی، یہ کیسی یکسانیت ہے، یہ خود کو بار بار دہرانے  کا کیسا عمل ہے، یہ کون سی زندگی ہوئی کہ جہاں  ایک ہی منظر ہر بار سامنے  آ رہا ہے۔ عجب وقت ہے، عجب دور ہے، عجب عہد ہے، ’بورڈم‘  سے  بس طبیعت ہی اُکتا گئی ہے، شاعر نے  اسے  حبس مسلسل کہا ہے، رومانی ذہن اس یکسانیت سے  گریز کرتا ہے، کسی کا خوبصورت چہرہ اُبھرتا ہے، یہ چہرہ محبوب کا بھی ہے اور زندگی کا بھی، اس حبس مسلسل میں  ایک خوبصورت کردار کے  اُبھر نے  سے  فضا تبدیل ہونے  لگتی ہے، اس کردار کے  ذریعہ ایک ’فنٹاسی‘  خلق ہو جاتی ہے، یہ وہ حسین محبوب بھی ہے  جو کل اپنے  وجود کی خوشبو سے  فرد کے  رومان انگیز تصورات کو معطر کیے  ہوئے  تھا، وہ زندگی بھی ہے  کہ جو کل اپنی تبدیل ہوتی، بدلتی ہوئی شعاعوں  سے  ہر دم متاثر کر رہی تھی  اور  وہ زندگی  اور  محبوب بھی ہے  جو خوابوں  سے  نکل کر آیا ہے، حبس مسلسل کو توڑنے  اچانک نمودار ہوا ہے۔  اور  اس سے  فضا ہی تبدیل ہو گئی ہے، یہ تخیل کا کرشمہ ہے، ’وژن‘  کے  تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے، یکسانیت سے  گریز رومانیت ہے، یہاں  جو گریز ہے  اس سے  رومانیت بلاشبہ تخلیقی مادری زبان بن گئی ہے، ’حبس مسلسل‘  سے  گریز اس طرح شروع ہوتا ہے:

ذہن جاتا ہے  کسی نازش خوبی کی طرف

جو ایک پروائی کا جھونکا سا ہے، گھنی بدلی سی ہے، جس سیم بدن کے  دم سے  رسم دل داری ہے، آہستہ آہستہ یہ ’الیوژن‘  حقیقت کی صورت اختیار کر لیتا ہے، حبس دوام  اور  حبس مسلسل پر ایک مخملی پردہ پڑ جاتا ہے، ایک کردار متحرک ہو جاتا ہے، ’فنٹاسی‘  کا عمل شروع ہو جاتا ہے:

کس کے  قدموں  کی ہے  یہ چاپ یقیناً ہے  وہی

یہ یقیناً ہے  وہی سرو چمن، بنت بہار

’حبس مسلسل‘  کے  مارے  ہوئے  شخص کو یقین نہیں  آتا کہ یہ وہی ہے:

جانِ من تم ہو؟ نہیں ! وہ لب و عارض وہ نکھار؟

نغمگی جسم کی، وہ لوچ سا، نشہ سا مدام

ایک چلتا ہوا جادو سا نگاہوں  کا قرار؟

سچ کہو تم ہی ہو؟ آتا نہیں، آنکھوں  کو یقیں؟

یہ جو حسن کا تصور ہے، یہ جو خوبصورت تخیل ہے، یہ جو حسین زندگی کی تخلیق کی آرزو  اور  اس آرزو کی علامت ہے، یہ جو حسین ترین تمثیل ہے اور پرکشش تمثیلی پیکر ہے، یہ سب تحت الشعور میں  موجود ہیں۔ یہ سب رومانیت کی تخلیق ہیں، اختر الایمان کی اکثر نظموں  میں  خوبصورت آرزو  اور  حسن و عشق زندگی کی تمثیل بن جاتے  ہیں۔ زمانہ جتنا بھی سخت ہو، وقت کا حبس مسلسل جتنا بھی دباؤ ڈالے  یہ تصور تبدیل نہ ہو گا، اس پیکر کا نقش نہیں  مٹے  گا، زندگی کو خوبصورت دیکھنے  کی آرزو نے  اس تصور  اور  پیکر کو خلق کیا ہے، ذوق و شوق نے  حبس مسلسل کی دنیا کے  مقابلے  میں  اس جمال کی تخلیق کی ہے:

کوئی رُت آئے  زمانہ نہیں  بدلے  گا اُسے!

شاعر چپ چاپ دبے  پاؤں  گزرتے  کارواں  کو دیکھ رہا ہے، حیات و موت کی حد میں  ولولے  بھی چپ چاپ ہیں، عجیب کیفیت ہے  زندگی کی، تیرگی کا تلاطم ہوتا پھر بھی محسوس ہوتا کہ زندگی متحرک ہے، وہ بھی نہیں  ہے، کل یہ موجود تھا آج نہیں  ہے، اس کی جگہ رنگ و نور کے  سیل نے  بھی نہیں  لی یا اس کے  ساتھ رنگ و نور کی موجیں  بھی موجود نہیں  ہیں، فرد کی یہ کیفیت ہے  نہ زہر خند ہے  لبوں  پر  اور  نہ آنسو ہیں  آنکھوں  میں، زخم ہائے  دروں  کو جستجوئے  مآل بھی نہیں  ہے، اس المناک کیفیت  اور  منظر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے  کہ نہ شورش غم پنہاں  ہے اور نہ آرزوئے  وصال ہے، نہ اشتیاق ہے  نہ حیرت نہ اضطراب نہ سوگ، طویل رات کی تنہائیاں  بھی بے  رنگ ہیں۔ ایک عجیب سنّاٹے  کا احساس ملتا ہے۔ یہ تینوں  تجربے  اختر الایمان کے  جمالیاتی اندازِ فکر کے  عمدہ نمونے  ہیں، رومانیت کا اضطراب  اور  اس کا سکون دونوں  توجہ طلب ہیں۔ دروں  بینی نے  ہر لفظ کو بلیغ بنا دیا ہے، سوز و گداز نے  ایک پرکشش آہنگ کو خلق کر دیا ہے، یہ آہنگ اختر الایمان کا بنیادی آہنگ ہے۔ جب تک کسی شئے  کے  کھو دینے  کا احساس نہیں  ہوتا اس وقت تک اچھا ادب پیدا نہیں  ہوتا۔ یہاں  تو پوری زندگی جیسے  کھو گئی ہو یا کھو جانے  کو تیار ہو۔ اختر الایمان کی رومانیت کی یہ بہت بڑی خوبی ہے  کہ وہ تجربے  کو خوابوں  جیسی ساخت عطا کرتی رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            اختر الایمان کی رومانیت سے  جذبہ، احساس و شعور سب بیدار ہوتے  ہیں، اپنے  عہد کی کیفیات کی جذباتی  اور  نفسیاتی ترجمانی کرتے  ہوئے اور ان کی تعبیریں  پیش کرتے  ہوئے  اختر الایمان کا رومانی مزاج اچھی طرح واضح ہوا ہے۔ حزن، افسردگی، احساس شکست  اور  افسردہ لب و لہجے  میں  ان کی رومانیت کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ اس عہد کی رومانیت کی کئی جہتیں  ہیں، ان میں  ایک جہت کی نمائندگی  اور  ترجمانی اختر الایمان کی شاعری کرتی ہے۔

            اختر الایمان نے  رومانیت  اور  غزل کی مخالفت کی ہے۔ میں  نے  ان سے  دریافت کیا تھا ’رومانیت کا مفہوم آپ کے  ذہن میں  کیا ہے؟ آپ کے  خیالات سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ آپ اختر شیرانی کی رومانیت ہی کو رومانیت سمجھتے  ہیں، کیا رومانیت کا دائرہ اتنا محدود ہے؟ جواب میں  انھوں  نے  تحریر کیا:

 ’’رومانیت سے  میری مراد ایک طرح کا فرار ہے، بات کی اصلیت کو ایک طرح دھوئیں  میں  لپیٹ لینا  اور  حقیقت سے  پہلو تہی کرنا، اس کا شکار آج کی بیشتر جدید شاعری ہے  جس میں  ترقی پسند شاعری بھی شامل ہے، احتر شیرانی کی شاعری تو عاشقانہ شاعری ہے، رومان کا لفظ میں  خالص لغوی معنوں  میں  استعمال نہیں  کر رہا ہوں۔‘‘  

 (راقم الحروف کے  نام ایک خط سے )

            صاف ظاہر ہے، اختر الایمان کے  ذہن میں  رومانیت کا ایک محدود تصور ہے، عاشقانہ شاعری کو بھی وہ پسند نہیں  کرتے۔ کسی بھی شاعر کے  لیے  یہ ممکن نہیں  کہ وہ خود کو اپنی تمام روایات سے  بچا کر نکال لے  جائے، روایات تو مزاج میں  رچی بسی ہوتی ہیں، تغزل کی روایات سے  بھلا کوئی اُردو شاعر کبھی خود کو بچا سکا؟ اختر الایمان غزل کی مخالفت کریں  یا رومانیت کی، ان کی روایات ان کی ہڈی میں  ہیں، عاشقانہ تجربوں  کا ایک میلان ان کے  کلام میں  بھی موجود ہے۔ اختر الایمان کو اس بات کا غالباً احساس نہیں  کہ انھوں  نے  اپنے  رومانی مزاج  اور  ’وژن‘  کا کھل کر اظہار کیا ہے، رومانیت ان کے  کلام کا بنیادی جوہر ہے اور انھوں  نے  گریز کے  پورے  عمل میں  اپنی رومانیت کو نمایاں  کیا ہے۔ ان کی شاعری سے  جدید اُردو شاعری کو رومانیت کا ایک گہرا  اور  جہت دار تصور ملا ہے۔ ایک جانب ان کی رومانیت گریز کے  خوبصورت عمل میں  ظاہر ہوتی ہے  دوسری جانب ماضی کے  تجربوں  کی پیشکش  اور  یادوں  کے  سلسلے  میں، ایک جانب لاشعور کی عکس ریزی میں  رومانی وژن کے  کرشمے  ملتے  ہیں  دوسری جانب علامتوں اور استعاروں  کی تخلیق  اور  استعمال میں۔ معاملہ یہ ہے  کہ اس دور میں  رومانیت کا مفہوم بس اس حد تک رہا کہ جو شعراء عشق و  محبت کے  نغمے  الاپتے  ہیں  وہ رومانی ہیں، اس دور کی نمائندگی اختر شیرانی کرتے  ہیں، دراصل اختر الایمان رسمی، عاشقانہ شاعری کے  مخالف ہیں اور اس شاعری کے  مخالف جو فراری رجحان سے  پیدا ہوتی ہے، انھوں  نے  فخر کیا ہے  کہ انھوں  نے  کچھ ’غیر رومانی‘  نظمیں  کہی ہیں۔ مثلاً ’میر ناصر حسین‘ ، ’میرا نام‘ ، ’عہد وفا‘   اور  ’آگہی‘ ، ’آگہی‘  میں  ایک سچائی سے  دوسری سچائی کے  احساس کی جانب گریز ہی میں  رومانی ذہن کی کارفرمائی موجود ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یکا یک ہوا کیا یہ مجھ کو

یہ محسوس ہوتا ہے  سوتے  سے  اُٹھا ہوں، ہلنے  سے  قاصر

کسی بحر کے   سونے  ساحل پہ بیٹھا ہوں  گردن جھکائے

سر شام آتی ہے  دیکھو تو ہے  آگہی کتنی شاعر!

(آگہی)

بہت سی نظموں  کو آپ رومانی نہ کہیے  لیکن اس حقیقت سے  انکار ممکن نہیں  کہ رومانی ذہن کی کار فرمائیاں  موجود ہیں، رومانی رجحان  اور  رومانی رویہ کہیں  گہرا ہے اور کہیں  ’وژن‘  سے  رومانی تاثرات اُبھرتے  ہیں  رومانیت کو اس کے  وسیع تر مفہوم میں  استعمال کرنا چاہیے، میں  نے  عرض کیا ہے  کہ رومانیت انسان کی مادری زبان ہے اور شاعر کا تخیل مادری زبان کا تخلیقی استعمال خوب جانتا ہے۔

            اختر الایمان کے  خیال کی وضاحت اس طرح بھی ہوتی ہے:

 ’’جب سے  شاعری پر سنجیدگی سے  سوچنا شروع کیا ہے  مجھے  یہ احساس ہوا ہماری شاعری چند چیزوں  کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، ان میں  سے  ایک رومانیت ہے، دوسری غزل، یا غالباً رومانیت پوری شاعری پر حاوی ہے  ایسا ہے  کہ ہم غزل سے  نکل کر نہیں  جا سکتے، غزل کا میدان بہت محدود ہے، کسی بھی موضوع کو واضح طور پر بیان کر نے  کے  لیے  دو مصرعے  کافی نہیں  ہوتے، اس حد بندی سے  نقصان یہ ہوا نئے  نئے  موضوعات  اور  ہیئت کے  تجربے  نہیں  کیے  جا سکے اور شاعری میں  وہ پھیلاؤ نہیں  آ سکا جو زندگی میں  ہے، غزل کسی موضوع پر کھل کر کچھ نہیں  کہہ سکتی صرف اس کی طرف اشارے  کر سکتی ہے اور کسی موضوع کی طرف اشارہ کافی نہیں  ہوتا۔ اسی چیز کو ذہن میں  رکھ کر میں  نے  اکثر یہ کوشش کی ہے، نظموں  سے  وہ رسمی رومانیت نہ آئے  بلکہ بعض جگہ جان بوجھ کر نظموں  میں  روکھاپن  اور  کھراپن رکھا۔‘‘  (یادیں، دیباچہ ص۱۱۔ ۱۰)

میرے  ایک سوال کے  جواب میں  انھوں  نے  لکھا ہے:

 ’’غزل کے  پاس اُردو شاعری کو دینے  کے  لیے  کچھ نہیں  ہے  بلکہ اس نے  نئی فکر کے  دروازے  بند کیے  ہیں۔‘‘  (راقم الحروف کے  نام ایک خط سے )

            اختر الایمان کی اس بات کو کوئی کیسے  قبول کرے۔ نظم کے  لیے اور نظم میں  کھردرے  پن کی گنجائش پیدا کر نے  کے  لیے  کوئی ضروری نہیں  کہ غزل کی مخالفت کی جائے۔ اختر الایمان جس رسمی رومانیت کی مخالفت کر رہے  ہیں اور غزل کے  جن روایتی تجربوں  سے  گریز کرنا چاہتے  ہیں  ہم انھیں  بخوبی جانتے  پہچانتے  ہیں۔ ان کی تنقید اس حد تک جائز ہے  لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا پڑتا ہے  کہ  اگر  انھوں  نے  غزل کے  موضوعات  اور  اس کے  تجربوں اور انسانی نفسیات کے  رشتے  پر بھی غور کر لیا ہوتا تو اچھا تھا۔ بات یہ بھی ہے  کہ وہ جس ہیئت و اسلوب کی نظمیں  پیش کرنا چاہتے  تھے  اس کے  لیے  جواز ڈھونڈ رہے  تھے۔ ان کی اس بات کو بھی ذہن میں  رکھنا چاہیے۔ ’’بعض جگہ جان بوجھ کر نظموں  میں  روکھا پن رکھا‘‘  ان کی بعض نظموں  میں  تجربے  تو ہیں، تجربوں  کا حسن نہیں  ہے، مثلاً:

کہیں  قومیت ہے  کہیں  ملک و ملّت کی زنجیر ہے

کہیں  مذہبیت، کہیں  حریت، ہر قدم پر عناں  گیر ہے

اگر میں  یہ پردہ ہٹا دوں  جسے  لفظ ماضی سے  تعبیر کرتے  رہے  ہیں

اگر میں  حدود زماں  و مکاں  سب مٹا دوں

اگر میں  یہ دیواریں  جتنی کھڑی ہیں  گرا دوں

تو ہر قید اُٹھ جائے، یہ زندگی جو قفس ہے

یوں ہی دیکھتے  دیکھتے  تیلیاں  سب بکھیر جائیں  اس کی

 اور  انسان اپنے  صحیح رُوپ میں  ہر جگہ دے  دکھائی

کسی غار کے  منہ پہ بیٹھا، کسی سخت اُلجھن میں  غلطاں

کہیں  شعلہ دریافت کر نے  کی خواہش میں  پیچاں

کہیں  زندگی کو نظام و تسلسل میں  لانے  کا خواہاں

جہاں  کو حسیں  دیکھنے  کی تمنّا میں  کوشاں

زمیں  دور تک ایسے  پھیلی ہوئی ہے

کشادہ کوئی خوانِ نعمت ہے  جیسے

جہاں  کوئی پہرہ نہیں  کوئی تخصیص و تفریق انساں

یہ سب کی ہے  سب کے  لیے  ہے  یہاں  سب ہیں  مدعو!

میں  اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں  جو بانیِ شر ہے

جو رشیوں، رسولوں  کی محنت کو برباد کرتا رہا ہے

میں  اس شخص کو ڈھونڈتا ہوں  جو ہر دور میں  بے  محابا

نئے  بھیس میں  سامری بن کے  آتا ہے اور موہتا ہے  دلوں  کو

اسے  ڈھونڈتا ہوں  میں  جس نے  ہر اِک خوان نعمت یہ پہرے  لگائے

زمیں  کو زمیں  سے  الگ کر دیا سیکڑوں  نام دے  کر

اجارہ کی بنیاد ڈالی، کیا جاری پروانۂ راہ داری

بجائے  حسیں  اعلیٰ قدروں  کے  تاسیس عالم

رکھی مصلحت پر، مفادات پر، خود پرستی پہ ساری

 اور  انسان کو خام اشیا میں  تبدیل کر کے

بہت پہلے  اس سے  کہ انسان انسان بنتا

اسے  ایک شطرنج کا چوبی مہرہ بنا کر

مقابل کھڑا کر دیا ایک کو دوسرے  کے

 

کہاں  ہے  وہ قوت وہ ہستی جو یوں  عصر کی روح بن کر

فضاؤں  کو مسموم کرتی ہے  لاشوں  سے  بھر دیتی ہے  خندقوں  کو

میں  للکارتا ہوں  اسے  وہ  اگر  اتنا ہی جادو گر ہے

تو سورج کو مشرق کے  بدلے  نکالے  کبھی آ کے  مغرب سے  اِک لمحہ بھر کو

ہواؤں  کی تاثیر بدلے  پہاڑوں  کو لاوے  میں  تبدیل کر دے

سمندر سکھا دے، ہر اِک جلتے  صحرا کو زرخیز میداں  بنا دے

اصول مشیت بدل دے، زمین آسمانوں  کے  سب سلسلے  توڑ ڈالے

مگر میں  اسے  کیسے  للکار سکتا ہوں، یہ تو خدا ہے

حیات و نمو کی وہ قوت، تغیر جو خود سامری ہے

یہ وہ کوزہ گر ہے  جو خود مسخ کرتا ہے  چہرے  بنا کر

یہ وہ کوزہ گر ہے  اسی ایک مٹّی کو ہر بار متھ کر

بنا کر نئے  ظرف رکھتا ہے  کچھ دیر شیشیوں  کے  پیچھے  سجا کر

انھیں  خود ہی پھر توڑ دیتا ہے  سب ظرف کوزے  قوانین اخلاق سارے

جہاں  اتنی شکلیں  بنائی بگاڑی ہیں  یہ زندگی کا نیا بت بھی اِک دن

فراموش گاری کے  اس ڈھیر میں  پھینک دے  گا جہاں  ایسی کتنی ہی چیزیں  پڑی ہیں

 کہ یہ چاک تو چل رہا ہے  یوں ہی آفرینش سے  گردش میں  ہے اور رہے  گا!

(کوزہ گر)

            اچھا احتجاج ہے، اس احتجاج میں  ایک چیلنج بھی ہے، طنز ہے، تیکھے  انداز سے  مذاق اُڑانے  کی کوشش بھی ہے، ناراضگی بھی ہے، حالات کی یکسانیت سے  اُکتاہٹ بھی ہے، باتیں  سنانے  کے  لیے  کھردری زبان بھی استعمال کی گئی ہے، فرسٹریشن، (Frustration) کا اظہار کھل کر ہوا ہے، ’فرسٹریشن‘  آرٹ کی تخلیق کی بنیاد تو ہو سکتی ہے  لیکن صرف ’فرسٹریشن‘  شاعری نہیں  ہو سکتی، زندگی ایک اسرار ہے  جب بھی اسے  ایک مسئلہ بنایا جائے  گا دکھ بڑھے  گا، شاعری ایک پراسرار تخلیقی عمل کا نتیجہ ہے، یہ بھی ایک اسرار ہے، مسائل کے  تاثرات تو عطا کرتی ہے  مسائل پیش نہیں  کرتی، صرف مسئلے  یا مسئلوں  کو اُبھار نے  سے  اچھی شاعری وجود میں  نہیں  آتی، اختر الایمان کی شاعری جب مسئلوں  میں  اُلجھتی ہے  تو جمالیاتی تاثر نہیں  دے  پاتی، المیہ کا حسن بھی دکھائی نہیں  دیتا، کوئی تحریر مسئلہ ہے  یا کوئی تحریر صرف کسی نہ کسی مسئلے  ہی کو اُبھارتی ہے  تو وہ یقیناً اسرار کھو چکی ہوتی ہے، اسرار یا ’مسٹر ی‘  (Mystery) کو جب بھی مسئلے  میں  اُلجھائیں  گے  فن و ادب میں  ناکامی ہو گی، اسرار یا مسٹر ی، پر جہاں  سوالیہ نشان لگایا عمر بھر جواب نہیں  ملے  گا  اور  ’فرسٹریشن‘  بڑھتی جائے  گی۔ مسئلے  کو پا کر خوشی تو ہوتی ہے  لیکن جمالیاتی آسودگی حاصل نہیں  ہوتی، جمالیاتی انبساط نہیں  ملتا، تلخیوں  کے  احساس کے  ساتھ اٹھتے  ہیں۔ شاعری کے  اسرار سے  بلاشبہ بے  پناہ جمالیاتی انبساط حاصل ہونا چاہیے، المیہ کو صرف المیہ رہنے  دینا  اور  اس کا حسن پیش نہ کرنا شاعری کے  عمل میں  شامل نہیں۔ اختر الایمان جب یہ کہتے  ہیں  کہ انھوں  نے  ’’جان بوجھ کر نظموں  میں  روکھا پن رکھا ہے‘‘  تو اندازہ ہو جاتا ہے  کہ بعض نظموں  کی ’تخلیق‘  میں  شعور کا کتنا عمل دخل ہے اور وہ شعوری طور پر اپنے  لہجے  کے  تعلق سے  کتنے  چوکنے اور محتاط ہیں۔ اس طرح دیکھئے  تو ان کی کئی نظمیں  سوز و گداز  اور  بلاغت سے  عاری نظر آئیں  گی۔

            اختر الایمان کی اس نظم میں  ’شعریت‘  کا فقدان ہے، بظاہر شخصیت جتنی بے  چین نظر آ رہی ہے، داخلی طور پر اتنی بے  چین  اور  مضطرب نہیں  ہے، باطنی کرب کی پہچان نہیں  ہوتی۔ الفاظ بوجھل ہیں، تجربوں  کا اظہار سپاٹ طریقے  سے  ہوا ہے۔ عام لفظوں اور اصطلاحوں  میں  ایک تقریر سی ہے۔ شاعر کا ذہن تو ملتا ہے  اس کی وجدانی کیفیت نہیں  ملتی، یہ سب شعوری طور ’کھراپن‘  رکھنے  کی وجہ سے  ہے۔ شعری روایات سے  رشتہ توڑنے  کی شعوری کوشش کا نتیجہ سامنے  ہے۔ انسانی تہذیب کی یہ مختصر کہانی جتنی بھی اہم ہو، قوت نمو کی بازیگری پر جتنا بھی گہرا طنز ہو، لہجے  میں  جتنی بھی حرارت پیدا کی گئی ہو، انسان کو خیر و شر اور  حیات و نمو کی قوت کی غلامی کے  پس منظر میں  جس قدر بھی اُبھار نے  کی کوشش کی گئی ہو، شاعری کوئی عمدہ معیار قائم نہیں  کرتی۔ لب و لہجے  میں  ایسی کرختگی نہیں  ہوتی، قومیت، ملک و ملت کی زنجیر، مذہب، حریت زندگی کے  نظام و تسلسل تخصیص و تفریق، انسان  اور  مصلحت  اور  مفادات کی طرف خوبصورت اشارے  ہوتے، علامتی  اور  حسی پیکروں  سے  ان سچائیوں  کا اظہار ہوتا تو ممکن ہے  یہ ایک اہم نظم ہوتی۔ اس کا موضوع اہم ہے  لیکن ’وژن‘  کا کرشمہ نہیں  ملتا۔ اسلوب ’وژن‘  نہیں  بن سکا ہے، کھردری  اور  تلخ حقیقتوں اور معاشرتی  اور  نفسیاتی ہیجانوں  کو اپنے  جذبہ  اور  احساس  اور  وجدان سے  ہم آہنگ کر کے  اختر الایمان نے  بعض خوبصورت نظمیں  لکھی ہیں۔ ڈبلو. ایچ.اوڈن (W.H.Auden) کی ایک نظم ’کلچر‘  یاد آ رہی ہے۔ اس نظم میں  اس نے  سیاسی سماجی گناہ، حکمراں  طبقے  کی اُلجھن، نیچر کے  جمال  اور  اپنے  علوم سے  خود اپنی ذات کو محفوظ رکھنے  کی کوشش  اور  بعض دوسرے  حقائق کو پیش کیا ہے۔ تاثرات متاثر کرتے  ہیں، اس نظم میں  تجربوں  کا سپاٹ اظہار نہیں  ہے۔

            نورمین کمیرون (Norman Cameron) کی نظم ’سینٹرل یورپ‘  پڑھیے  تو محسوس ہو گا کہ ایک خارجی حقیقت داخلیت میں  کس طرح جذب ہو گئی ہے اور تخئیلی فکر  اور  احساس  اور  جذبے  کے  ساتھ اس حقیقت کا اظہار کتنی خوبصورتی سے  ہوا ہے۔ موضوع یہ ہے  کہ سنٹرل یورپ کے  لوگ سمندر سے  بہت دور رہتے  ہیں، شاعر اس موضوع پر سوچتے  ہوئے  عجیب کیفیت میں  گرفتار ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے  داخلی زندگی میں  پُر اسرار تاریکی پھیلی ہوئی ہے، جنگلوں  میں  عجیب و غریب پُر اسرار آوازیں  سن رہا ہے، قدیم تاریخ کے  کھنڈروں  میں  سانس چل رہی ہے، صاف مہکتی خوش بو بھری ہواؤں  (نئے  خیالات، نئے  غیر ملکی اثرات) کی ضرورت ہے، نئی روشنی کی ضرورت ہے، نظم کا تاثر گہرا ہے، لفظوں  کے  آہنگ کا تاثر ملتا ہے۔ باتیں  اشاروں  میں  کہی گئی ہیں، ایک رومانی ماحول بنتا ہے، شاعر کا جمالیاتی رجحان متاثر کرتا ہے اور نظم کے  ختم ہوتے  ہی بنیادی خیال کا احساس مل جاتا ہے۔

            اختر الایمان  اور  ای.ای.کمنگس (E.E.Cummings) کے  مزاج  اور  رویے  میں  مماثلت ہے۔ دونوں  کا اسلوب ’پرسنل اسٹائل‘  ہے۔ دونوں  لمحوں  کی کیفیتوں  کے  شاعر ہیں، لمحوں  کا ذاتی مشاہدہ دونوں  کے  کلام کی خصوصیت ہے۔ زندگی،  محبت، سماج، لوگ دونوں  کے  محبوب موضوعات ہیں۔ نظریہ زندگی میں  بھی مماثلت ہے۔ ای.ای.کمنگس کے  تکنیکی تجربوں  نے  ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے۔ اس کی علامتیں اور تشبیہیں  غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ ایک نظم میں  انسان کی تخلیقی صلاحیت کا احساس دلاتے  ہوئے  اس نے  اپنے  باطنی اضطراب کو نمایاں  کر دیا ہے، وہ انسانی زندگی  اور  اس کی حرارت کو روح کائنات تصور کرتا ہے، اس نظم میں  اس نے  یہ کہا ہے  کہ دنیا تباہ ہوتی رہے  انسان زندہ ہے، تباہی کے  بعد انسان کی زندگی میں  پھر بہار آئے  گی۔ مستقبل جتنا تاریک نظر آئے  یہ سمجھو تاریکی کے  پیچھے  روشنی ہی روشنی ہے، خوفناک مستقبل جس قدر بھی تباہ کرے  مستقبل کی روشنی میں  سانس لینے  والا انسان ہی تو ہو گا۔ وہی بار بار اپنی زندگی کو بہار میں  تبدیل کرتا رہا تھا۔ کمنگس کی شاعری میں   محبت  اور  انسان دوستی کا تصور ایسا ہے  کہ مکاں  پھیلتا محسوس ہوتا ہے۔ دراصل کہنا یہ چاہتا ہوں  کہ ’حقائق زندگی‘  کی تصویر کشی یا فوٹو گرافی فن نہیں  ہے، فن جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے، المیہ حالات  اور  المیہ تجربات پر طنز کرنا یقیناً بڑی بات ہے  لیکن ساتھ ہی المیہ تجربات  اور  المناک حالات کے  حسن و جمال کو پیش کرنا ضروری ہے، یہی سب سے  بڑی بات ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            جب بھی جدیدیت کی روح بیدار ہوتی ہے  روایت شکنی ہوتی ہے، تجربوں  کے  اظہار میں  جب مشکلات پیش آئی ہیں  داخلی اضطراب بڑھ گیا ہے، اکثر روایتی  اور  کلاسیکی موضوعات  اور  اسالیب سے  بھی مایوسی ہوئی ہے، گیٹے  نے  بھی رومانی ادیبوں اور فنکاروں  کی انتہا پسندی کو دیکھتے  ہوئے  رومانیت کو ایک ’مرض‘  کہا تھا۔ اس کا فیصلہ بھی جذباتی ہی تھا۔ اس کے  ذہن میں  کلاسیکی فکر  اور  کلاسیکی اقدار کا اعلیٰ تصوّر تھا۔ گیٹے  تو خود ایک بڑا رومانی فنکار تھا۔ ’فاؤسٹ‘   اور  ’ورتھر‘  کی رومانیت ہی متاثر کرتی ہے۔ اس کے  آرٹ کے  رومانی کردار کو آج کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔ اختر الایمان جس چیز کو ‘ فرار‘   اور  ’دھواں ‘  کہہ رہے  ہیں  وہی رومانی گریز ہے۔ اسی عمل سے  اچھے  ادب کی تخلیق ہوتی ہے۔ حقیقت کی عکاسی  اور  حقیقت کے  جمالیاتی تاثرات میں  بہت فرق ہے۔ ’رومانیت‘   اور  ’فراریت‘  کی اصطلاحوں  کا مفہوم  اگر  ایک ہو گیا ہے  تو اس کی ایک بڑی وجہ میکانکی فکر کا غلبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے  کہ رومانی کردار کے  بغیر تخلیق  اور  عمدہ  اور  اعلیٰ تخلیق کا تصور ہی پیدا نہیں  ہوتا۔ احساس، جذبہ، تخیل، داخلی ہیجان، جبلی دباؤ، خارجی اقدار کے  تاثرات۔۔۔ یہ سب مل کر رومانی کردار پیدا کرتے  ہیں۔ علامتوں  کی تخلیق  اور  حسی پیکروں  کی پیشکش سب سے  بڑا رومانی عمل ہے۔ داخلی نقطۂ نگاہ کا پیدا ہو جانا ہی رومانیت ہے۔ سائیکی، (Psyche) کو فکر کا مرکز سمجھنا  اور  بنا لینا رومانی رویہ  اور  رجحان ہے، حقیقت کے  تاثرات کو استعاروں  میں  سمجھنا  اور  سمجھانا رومانی عمل ہے۔ میکانیت کو توڑنا، کشمکش  اور  تصادم میں  لذت حاصل کرنا داخلی اضطراب  اور  داخلی ہیجانات میں  پورے  معاشرے  کے  اضطراب  اور  ہیجانات کو جذب کر لینا  اور  تڑپتے  رہنا، اپنی ذات کو پورے  سماج کا آئینہ بنا لینا، اپنے  شعور و احساس میں  سفر کرنا  اور  کائنات کو اپنے  وجود میں  پالینا رومانیت ہے۔ ایک رومانی جذبات کا پیکر ہوتا ہے  اس لیے  کہ وہ میکانکی خیالات  اور  تصورات سے  گریز کرتا ہے، وہ نرگسی ہوتا ہے، اس حد تک کہ خود اپنے  پیکر سے  دوسرا پیکر تخلیق کرتا ہے  اپنا آئینہ بنا لیتا ہے، ماضی کے  لمحوں  کو دیکھتا ہے، ماضی کو حال میں  محسوس کرتا ہے، لامحدودیت کا تصور پیدا کرتا ہے، اس کی انفرادیت پسندی، آزادی، فطرت پسندی  اور   محبت  اور  تمام اقدار کے  پیچھے  انسان کی اہمیت کو سمجھتے  ہوئے  انسان سے  عقیدت  اور  فکر کا جذبہ ہے۔ رومانیت زندگی کے  بندھے  ٹکے  اصولوں  سے  ٹکراتی ہے، کیٹس  اور  شیلے  کی جذباتی المیت، ورڈس ورتھ کی فطرت یا نیچر سے  دلچسپی  اور  کھوئے  ہوئے  لمحوں  کی تلاش، اس کی شدید داخلیت، ماضی کے  لمحوں  میں  اس کا سفر، برف کی طرح ٹھنڈے  چاند کا احساس، بلیک کی دروں  بینی، اقبال کی انفرادیت پسندی، فیض کی محسوسیت، اختر الایمان کی علامت پسندی  اور  یادوں  کی دنیا، مختار صدیقی کی ماضی پسندی  اور  ویرانی  اور  تباہی کے  حسن کو دیکھنے  کی کوشش، عبدالعزیز خالد کی اسطور پسندی، ان سے  رومانی فکر، رومانی ذہن  اور  رومانی رویوں اور رجحانوں  کی پہچان ہوتی ہے۔ مادی  اور  خارجی تجربوں  کا جذباتی  اور  حسی اظہار، پیکروں اور علامتوں  کی تخلیق، لمحوں  کی خوشبو، آواز  اور  رنگ کے  احساس، زندگی کو لمحوں  میں  محسوس کر نے  کا رویہ، داخلی نظر ایک خارجی حقیقت کو محسوس کرتے  ہوئے  حسی تجربوں اور تخیل فکر کا انوکھا سلسلہ، لاشعوری، کیفیات کے  ساتھ سفر لاشعور کے  اندھیرے  سے  تمنّاؤں  کا بھیس بدل بدل کر باہر آنا، معاشرے  کے  المیہ کو اپنی ذات  اور  اپنے  وجود کا المیہ بنا لینا، انتشار  اور  شکست و ریخت میں  حسن کی پہچان۔۔۔ یہی تو رومانیت ہے!

            اسی عہد میں  جدید شاعروں  نے  ’زندگی  اور  آدم‘  کو اس طرح دیکھا ہے  کہ خوبصورت قدریں  شکستہ ہو رہی ہیں، ہر جگہ انتشار  اور  اضطراب ہے، کہیں  اتنا ہنگامہ ہے  کہ آواز کی شیرینی گم ہو رہی ہے اور کہیں  ہمہ گیر اُداسی ہے  جس سے  احساس و شعور بھی متاثر ہو رہے  ہیں، شدید تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، جبر و استحصال  اور  میکانکی خیالات کے  درمیان انسان کا دم گھٹ کر رہ گیا ہے۔  اور  اس طرح بھی دیکھا ہے  کہ آدم نے  زماں  و مکاں  کی زنجیریں  توڑ دی ہیں اور حال میں  بھی وہ ایک ایسی دنیا میں  ہے  جہاں  وقت لمحوں  میں  تقسیم نہیں  ہے، حال میں  کھڑا وہ ایسے  مستقبل کو بھی دیکھ رہا ہے  جہاں  زماں  و مکاں  کا کوئی میکانکی تصور نہیں۔ وہ حقیقت  اور  سچائی کی تلاش میں  ہے، وہ جنت سے  بھی اسی لیے  نکلا تھا، وہ سفر کر رہا ہے  خارجی زندگی میں  بھی  اور  داخلیت کی بے  پناہ گہرائیوں  میں  بھی۔ یہ سفر روشنی  اور  اندھیرے  کا سفر ہے۔

             اور  ۔۔۔ یہ دونوں  انداز فکر خالص رومانی  اور  جمالیاتی ہیں، اختر الایمان کی شاعری بھی اسی رومانی شعور،  اور  اسی انداز فکر سے  پہچانی جاتی ہے۔ ان کی رومانیت سے  انتشار میں  سکون  اور  سکون میں  انتشار ہے۔ خود کلامی، شدید تنہائی کا احساس، ماضی کی یادیں۔ ان سے  رومانی ذہن کی پہچان ہوتی ہے۔ اختر الایمان اضطراب  اور  بے  چینی میں  لذت محسوس کر رہے  ہیں، معاشرے  کا المیہ ان کے  وجود کا المیہ بن گیا ہے۔ قدروں  کی ویرانی کو انھوں  نے  وجود کے  اندر پہچاننے  کی کوشش کی ہے۔ ماضی کے  لمحوں  میں  ان کا سفر اندھیرے اور اُجالے  کا سفر ہے، محسوسیت کا یہ عالم ہے  کہ ماضی، حال میں  جذب ہو گیا ہے۔ حقیقت  اور  سچائی کو پیکروں اور حسیاتی علامتوں  میں  سمجھانے  کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی تو رومانیت ہے!

            اختر الایمان نے  رومانی فکر  اور  تخلیقی عمل کو اس طرح سمجھایا ہے اور اپنے  رومانی تجربوں  پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

 ’’یادیں  تلخ  اور  شیریں، یادیں  ماضی قریب کی  اور  ماضی بعید کی یادیں  ان کی جنھیں  میں  نے  عزیز رکھا  اور  ان کی جنھوں  نے  مجھے  عزیر نہیں  رکھا، یادیں  ان مذہبی  اور  سیاسی عقیدوں  کی جنھوں  نے  انسان کو پر کاہ سے  زیادہ نہیں  سمجھا، یادیں  اس معاشرے  سے  وابستہ جہاں  اخلاقی قدروں  میں  ٹکراؤ ہے اور اعلیٰ قدریں  ایک دوسرے  کی ضد ہیں، یہ  اور  ایسی بہت سی یادیں  میری زندگی ہیں اور میری زندگی میں  ان اخلاقی  اور  معاشی قدروں  کا عمل رد عمل میری شاعری ہے۔‘‘  (دیباچہ یادیں  ص۶)

            اُردو کے  بعض نقاد جسے  اختر الایمان کی گہری افسردگی، گریز  اور  قنوطیت سے  تعبیر کر رہے  تھے  وہ ان کی رومانیت ہی تو تھی۔ اخلاقی  اور  معاشرتی قدروں  کے  ٹکراؤ  اور  تصادم  اور  سیاسی عقیدوں اور اصولوں  کی کشمکش میں  سچائی کی تلاش و جستجو کے  لیے  فنکار خارجی حقیقتوں  سے  بہت سے  تاثرات لے  کر گریز کرتا ہے، ماضی کی یادیں  سہارا دیتی ہیں۔ اختر الایمان کی شاعری اس رومانی گریز کی عمدہ مثال ہے، شکست و ریخت کے  اس عہد کے  شعراء نے  بڑے  رومانی شاعروں  سے  ایک ذہنی رشتہ قائم کر لیا ہے اور یہ اہم بات ہے، یہ فطری  اور  نفسیاتی رد عمل ہے۔ نئے  شاعروں  نے  ماضی کو پسند کیا، ماضی کو سہارا بھی بنایا  اور  اسے  رومانی افکار و خیالات کا سرچشمہ بھی سمجھا، ماضی کے  حسن سے  آسودگی حاصل ہوئی ان کی علامتوں اور پیکروں  میں  گہری معنویت بھی اسی ماضی پسندی سے  آئی ہے۔ نئے  شاعروں  نے  جان بوجھ کر  اور  شعوری طور پر اس عہد کے  تیور  اور  انداز کو دیکھتے  ہوئے  نئے  اندازِ فکر کو پیدا نہیں  کیا بلکہ مخصوص تاریخی لہروں اور اس عہد کے  انتشار  اور  ارتقا نے  اس رومانیت کو جنم دیا ہے۔ شعراء کے  محسوس کر نے  کے  انداز  اور  ان کے  تاثرات  اور  جذبات کو سمجھنا چاہیے، نفسی کیفیات پر ہمدردی سے  غور کر نے  کی ضرورت ہے۔

            تنہائی میں  برسوں  رہنے  کے  بعد ’رابنسن کروسو‘  انسان کے  پاؤں  کے  نشان کو دیکھ گھبرا گیا تھا تو اس کی وجہ سمجھ میں  آتی ہے، لیکن نئی شاعری میں  انسان کے  جذبات  اور  احساسات  اور  اس کی اُلجھنوں اور ہیجانوں، شعوری  اور  لاشعوری کیفیات دیکھ کر کچھ لوگ گھبرا جاتے  ہیں  تو حیرت ہوتی ہے، اس لیے  بھی کہ وہ خود اسی عہد میں  سانس لے  رہے  ہیں۔

            جب اختر الایمان کا پہلا مجموعہ ’گرداب‘  شائع ہوا تو بعض ہمعصر شاعروں اور نقادوں  نے  یہ کہا کہ ’گرداب‘  کی شاعری میں  یاس انگیزی ہے، قنوطیت ہے، بعض نظموں  میں  گھٹن ہے، شاعر اپنی تخئیلی دنیا میں  رہ رہا ہے، سماجی حقیقت پسندی نہیں  ہے، حزن، افسردگی  اور  شکست کی آواز ہے۔ جب ’آب جو‘  شائع ہوا تو اختر الایمان نے  پیش لفظ میں  لکھا:

 ’’کتاب شائع ہونے  کے  بعد احباب کے  ایک حلقے  میں  یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ گرداب کی شاعری قنوطی، یاس انگیز  اور  گھٹن لیے  ہوئے  ہے۔‘‘  

آگے  لکھتے  ہیں:

 ’’گرداب کی جن نظموں  سے  زیادہ غلط فہمی ہوئی وہ مسجد، موت، قلوبطرہ، پگڈنڈی، جواری  اور  تنہائی میں  وغیرہ ہیں، میں  ان نظموں  کی تشریح کے  سلسلے  میں  بہت تفصیل میں  نہیں  جاؤں  گا البتہ چند اشارے  کیے  دیتا ہوں، جن سے  ان نظموں  کے  سمجھنے  میں  آسانی ہو گی۔ ساتھ ہی شاید یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے  کہ یہ نظمیں  قنوطی ہیں۔

            نظم ’مسجد‘  جس بند پر ختم ہوتی ہے  وہ یہ ہے:

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش

چیخ اٹھتی ہے  وہیں  دور سے  فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے  توڑ کے  ساحل کی قیود

 اور  پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!

 اور  نظم ’موت‘  ان اشعار پر ختم ہوتی ہے:

اُف یہ مغموم فضاؤں  کا المناک سکوت

کون آیا ہے  ذرا ایک نظر دیکھ تو لوں

توڑ ڈالے  گا یہ کم بخت مکاں  کی دیوار

 اور  میں  دَب کے  اسی ڈھیر میں  رہ جاؤں  گا

            ان دونوں  نظموں  کا ماحول مغموم، گھٹا ہوا،  اور  موت کا احساس لیے  ہوئے  ہے۔ یہ دونوں  نظمیں  ایسی ہیں  جن کے   اگر  علامیہ کو نظر انداز کر دیا جائے  تو صحیح بھی ہیں، مسجد، ایک ویران مسجد کا خاکہ ہے  موت ایک چھوٹا سا منظوم ڈراما ہے  جس میں  تین کردار ہیں: مرد، عورت، دستک، مرد بیمار ہے، بستر مرگ پر ہے،  اور  نزع کے  عالم میں  ہے، عورت اس کی محبوبہ ہے اور مرد کے  ذہن کو موت کے  اس خیال سے  باز رکھنا چاہتی ہے  جو اس پر حاوی  اور  مسلط ہو گیا ہے اور دستک ایک ایسی آواز ہے  جو مسلسل دروازہ پر سنائی دے  رہی ہے اور ماحول کی ہیبت میں  اضافہ کر رہی ہے۔ ان نظموں  کے  جس ماحول  اور  فضا نے  سرسری پڑھنے  والوں  کے  ذہن میں  یہ خیال پیدا کیا ہے  کہ یہ نظمیں  قنوطی ہیں  وہی دراصل ان کا حسن ہے۔ اس لیے  کہ میرا مقصد نظمیں  کہنے  سے  نہ کسی ویران مسجد کا خاکہ کھینچنا تھا  اور  نہ کسی دم توڑتے  ہوئے  آدمی کی کہانی لکھنا تھا، یہ دونوں  نظمیں  علامتی نظمیں  ہیں  جن کا رواج ہماری شاعری میں  اٹھارہ سال پہلے  بھی بہت نہیں  تھا  اور  آج بھی نہیں  ہے۔

            ’مسجد‘  مذہب کا علامیہ ہے اور اس کی ویرانی عام آدمی کی مذہب سے  دوری کا مظاہرہ ہے۔ رعشہ زدہ ہاتھ مذہب کے  آخری نمائندہ ہیں اور وہ ندی جو مسجد کے  قریب سے  گزرتی ہے  وقت کا دھارا ہے  جو عدم کو وجود  اور  وجود کو عدم سے  تبدیل کرتا رہتا ہے۔  اور  اپنے  ساتھ ہر اس چیز کو بہا لے  جاتا ہے  جو کسی زندگی کو ضرورت نہیں  رہتی۔ اسی طرح نظم ’موت‘  میں  بھی جو آدمی بستر مرگ پر ہے  وہ ان پرانی قدروں  کا علامیہ ہے  جو اب مر رہی ہیں۔ محبوبہ جھوٹی تسلیاں  ہیں اور مسلسل دستک وقت کی وہ آواز ہے  جو کبھی بند نہیں  ہوتی، ہمیشہ زندگی کے  دروازے  کو کھٹکھٹاتی رہتی ہے اور مکین  اگر  اس آواز کو نہیں  سنتا تو وہ اس مکان کو توڑ ڈالتی ہے اور اس کی جگہ نیا مکان تعمیر کر ڈالتی ہے۔ وہ احباب جن کا ذکر اوپر ہوا ہے   اگر  ان نظموں  کے  اس علامیہ کو سمجھ لیتے  یا سمجھنے  کی کوشش کرتے  تو اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے  جس کا ہوئے  ہیں۔‘‘  (پیش لفظ ’آب جو‘ )

            ان نظموں  پر گفتگو ہو گی، یہاں  صرف یہ کہنا چا ہوں  گا کہ اختر الایمان کی رومانیت کا حسن علامتیت سے  واضح ہوتا ہے۔ علامت ان کی رومانیت کا ایک اہم پہلو ہے، اس پہلو یا جہت کے  مطالعے  کے  بغیر ان کی رومانیت کا مطالعہ بھی مکمل نہ ہو سکے  گا۔ اختر الایمان نے  اپنے  طور پر جواب دے  دیا ہے، ان نظموں  کے  مفاہیم کی وضاحت کی ہے  کہ جن پر بعض حضرات نے  اعتراض کیا تھا۔ بلاشبہ شاعر کی ماضی پسندی  اور  گھٹن  اور  حسی حقیقت پسندی کو معاشرتی ہیجانات، بدلتی ہوئی اقدار زندگی  اور  قدروں  کی کشمکش  اور  المناک پہلوؤں  کے  ساتھ المیہ رجحان کے  پیش نظر دیکھنا چاہیے۔ شاعر نے  یقیناً زندگی کے  بہاؤ  اور  زندگی کے  زہر کو جانا پہچانا ہے۔ اختر الایمان کی رومانیت نے  ماضی کے  لمحوں  کی نئی دریافت بھی کی ہے، انھیں  زندہ  اور  متحرک بھی بنایا ہے اور حال کے  پیشِ نظر اندرونی طور پر جاگرتی بھی پیدا کی ہے۔

            اختر الایمان نے  ’یادیں ‘  کے  دیباچہ میں  اپنے  رومانی ذہن کو اس طرح واضح کیا ہے:

 ’’۔۔۔ عام طور پر پہلے  ایک موضوع ذہن میں  آتا ہے، یہ موضوع اکثر اتنا مبہم ہوتا ہے، میں  اس کی شکل بھی نہیں  پہچان سکتا۔ دراصل اس کی کوئی شکل ہوتی بھی نہیں، میری شاعری احساس کی شاعری ہے، میں  اس موضوع کو محسوس کر نے  کی کوشش کرتا ہوں   اگر  یہ موضوع اپنا احساس میرے  ذہن  اور  میرے  رگ و پے  میں  نہیں  چھوڑتا، نظم کی صورت اختیار نہیں  کرتا لیکن  اگر  احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے  یا احساس بن جاتا ہے  تو پھر اسے  نظم کی صورت دینے  کے  لیے  مناسب الفاظ  اور  موزوں  بحر کی تلاش ہوتی ہے۔ اس تلاش میں  نہ کوئی وقت کا تعین ہوتا ہے اور نہ اس کی کوئی جامد شکل ہوتی ہے، یہ تخلیقی عمل ایک بکھری ہوئی چیز ہوتی ہے۔ میرے  ذہن میں  اس کی مثال قوس قزح کی سی ہے، جس طرح قوس قزح تھوڑی دیر کے  لیے  نمایاں  ہوتی ہے  اس میں  بہت سے  رنگ ہوتے  ہیں اور یہ رنگ ایک دوسرے  سے  اتنے  گھلے  ملے  ہوتے  ہیں  انھیں  ایک دوسرے  سے  جدا نہیں  کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نظم جب تخلیقی منزل میں  ہوتی ہے  اس کی مثال بھی قوس قزح کی سی ہوتی ہے۔ کبھی نظم کا مرکزی خیال اُجاگر ہوتا ہے  کبھی محض ایک تصور کبھی اس تصور کی کوئی حرکت کبھی نظم کا ہیولیٰ۔‘‘  

(دیباچہ یادیں  ص۱۴۔ ۱۳)

            یہ کیفیت رومانی ہے، تخلیقی عمل بنیادی طور پر رومانی عمل ہے۔ موضوع احساس کی صورت اختیار کرتا ہے اور اس عمل میں  رومانی ذہن رنگوں  سے  آشنا ہوتا ہے، کئی رنگ شامل ہوتے  ہیں اور پھر کوئی بنیادی رنگ اُبھر آتا ہے۔ خارجی تجربوں  کو تحلیل کرنا  اور  باطن میں  اُتارنا  اور  احساس  اور  جذبے  کے  رنگ و آہنگ سے  آشنا کرنا رومانی فکر و نظر ہی کا کرشمہ ہے۔ موضوع احساس بن جاتا ہے، داخلی تجربہ بن جاتا ہے  پھر شاعری جنم لیتی ہے۔ موضوع کے  رومانی تاثرات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ حقیقت کے  تاثرات احساس  اور  جذبے  سے  ہم آہنگ ہو جاتے  ہیں۔ داخلی کشمکش  اور  تصادم کے  بعد جو چیز سامنے  آتی ہے  وہ اپنے  عہد کی کسی نہ کسی سچائی  اور  اس سچائی کی معنویت کو پیش کرتی ہے۔

            ڈائی لین تھامس (Dylan Thomas) جس کا انتقال چالیس سال کی عمر میں  ۱۹۵۳ء میں  ہوا، انتہائی ذہین شاعر تھا۔ اس نے  بھی اختر الایمان کی طرح ایک بار تخلیق کے  پیچیدہ داخلی عمل کو اس طرح سمجھایا تھا:

 ’’مجھ میں  جذباتی ہیجان پیدا ہوتا ہے، پہلے  ایک جذباتی پیکر بنتا ہے، میں  اس ہیجان میں  اس جذباتی پیکر کو بنتے  دیکھتا ہوں  جب یہ پیکر بن جاتا ہے  تو میری فکر کی لہریں  اس سے  ٹکراتی ہیں اور اس تصادم سے  ایک دوسرا پیکر پیدا ہوتا ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے  کہ جذباتی پیکر  اور  فکر کے  تضاد سے  دو جذباتی پیکر جنم لیتے  ہیں اور ان دونوں  کے  تصادم  اور  ہم آہنگی سے  تیسرا جذباتی حسیاتی پیکر اُبھرتا ہے۔‘‘  

            تخلیق کا عمل پیچیدہ  اور  پُر اسرار ہے، تصادم  اور  تضاد  اور  ٹوٹتی  اور  مسخ ہوتی  اور  مٹتی  اور  بنتی ہوئی صورتوں اور پیکروں  کے  عمل پر غور کیا جائے  تو تخلیق کے  رموز سے  کچھ آشنائی ہو سکتی ہے۔ کوئی جمالیاتی پیکر سامنے  ہوتا ہے  تو یہ جان لینا ممکن نہیں  کہ تخلیق سے  قبل فنکار داخلی طور پر کتنا مضطرب  اور  بے  چین رہتا ہے۔ کتنے  جذباتی پیکر ٹوٹے  ہیں، کتنے  حسی پیکروں  کی تخلیق ہوتی رہی ہے، کتنے  جذبوں  کے  رنگ شامل ہوئے  ہیں۔ تصادم  اور  تضاد میں  پیکروں  کی صورتیں  کس طرح بدلتی رہی ہیں۔ ہوتا یہ ہے  کہ حقیقتوں  کے  تاثرات لے  کر فنکار جب رومانی گریز کرتا ہے  تو اس کی رومانیت تخلیق کے  پُر اسرار عمل کو زیادہ متحرک کرتی ہے۔ جذباتی پیکروں اور ا4 کی تخلیق  اور  تضاد، تصادم  اور  کشمکش کے  پیچھے  سب سے  بڑی قوت رومانیت ہے۔ کسی خارجی حقیقت سے  کوئی جذبہ اُبھرتا ہے، بیدار ہوتا ہے  تو رومانی فکر اسے اور اُبھار نے  کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں  شدت پیدا ہوتی ہے، خارجی حقیقت  اور  اس کے  رد عمل سے  پیدا ہونے  والے  جذبے  میں  تضاد ہے  تو رومانی فکر سے  اس میں  کشمکش شروع ہو جاتی ہے،  اور  جلد ہی جذباتی  اور  حسیاتی تاثرات اصل خارجی حقیقت سے  دور ہو جاتے  ہیں، اسی گریز سے  تخلیقی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی روشنی میں  مختلف رنگوں  کی پہچان ہوتی ہے، نئے  تصورات پیدا ہوتے  ہیں، پیکروں اور علامتوں  کی معنویت گہری باتوں  تک لے  جاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے  کہ رومانی فکر بیدار ہوئے  جذبے اور خارجی حقیقت میں  تضاد نہ دیکھ کر جذبے  کو اس قدر ابھارتی ہے، اس میں  اتنی شدّت پیدا کرتی ہے  کہ جذبہ رومانی صورت اختیار کر کے  حقیقت کو اپنا آئینہ سمجھ لیتا ہے اور اس آئینے  پر اپنے  ہونٹ رکھ دیتا ہے۔ ہم فنکار کے  تجربے  کو بہت قریب سے  دیکھنے  لگتے  ہیں۔ شاعری میں  عشق و  محبت کے  جذباتی تجربوں  کو اسی روشنی میں  دیکھنا چاہیے۔ محبوب کی  محبت، طبقاتی زندگی سے  عقیدت، آزادی کی جدوجہد، کسی مخصوص نظام زندگی سے  والہانہ عشق، یہ تمام باتیں  اسی رومانی عمل کو سمجھاتی ہیں، فنکار کی نرگسیت  اور  اس کے  جمالیاتی شعور کی پہچان بھی ہو جاتی ہے۔ حسن پسندی کا رجحان حقیقت میں  جذب ہو جاتا ہے۔

            اختر الایمان کی رومانی فکر جذبہ  اور  حقیقت کے  تصادم میں  شدت پیدا کرتی ہے، لمحوں  کی روشنی، تاریکی  اور  خوشبو  اور  لمحوں  کے  آہنگ سے  دلچسپی لیتی ہے، ’ا4‘  کی تخلیق کرتی ہے، تنہائی کے  احساس کو شدید تر بناتی ہے۔ اصل حقیقت کے  تاثرات کو داخلی ہیجانات سے  جذب کر کے  تخلیق کے  عمل میں  شدت پیدا کرتی ہے۔ جذبہ  اور  حقیقت کی کشمکش  اور  تضاد سے  بہت سی حقیقتوں اور ان حقیقتوں  کے  رنگوں  کو نمایاں  کر نے  میں  رومانی فکر ہی کو دخل ہے، یادوں  کے  آئینوں  پر ہونٹ رکھتے  ہوئے۔ تلخ  اور  شیریں  یادوں  میں  سانس لیتے  ہوئے، عصری ہیجانات میں  گزرتے  ہوئے  لمحوں  سے  گہری دلچسپی لیتے  ہوئے اور تنہائی کے  زہر کو پیتے  ہوئے  اختر الایمان ایک اچھے  رومانی شاعر نظر آتے  ہیں۔ ان کی حسن پسندی  اور  ان کا جمالیاتی شعور، ان کی حسی  اور  نفسیاتی کیفیتیں اور ان کی نرگسیت، اعلیٰ تہذیبی قدروں  کو آگے  بڑھتے  دیکھنے  کی تمنّا  اور  شکست و ریخت کے  عہد کا شعور، مضطرب شخصیت  اور  المیہ قدروں  کا شدید احساس، عقیدت  اور   محبت کے  جذبوں  کے  ساتھ خوف، وحشت، سراسیمگی  اور  حیرت کے  ملے  جلے  جذبات، ان تمام باتوں  کو ان کی نظموں  میں  دیکھا جا سکتا ہے۔ رومانی فکر نے  جذبوں  میں  کتنی شدت پیدا کی ہے اور کبھی کبھی اس فکر سے  جمود  اور  سنّاٹے  کا کتنا شدید احساس اُبھرا ہے۔ داخلی ہیجانات نے  حقائق زندگی کو کس طرح سمجھایا ہے  ان کے  تصورات میں  انھیں  پہچاننے  کی ضرورت ہے، ان کی نظم ’بے  تعلقی‘  ملاحظہ فرمائیے:

 

شام ہوتی ہے  سحر ہوتی ہے  یہ وقت رواں

جو کبھی سنگ گراں  بن کے  مرے  سر پہ گرا

راہ میں  آیا کبھی میری ہمالہ بن کر

جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل  ہی نہ ہوا

اشک بن کر مری آنکھوں  سے  کبھی ٹپکا ہے

جو کبھی خونِ جگر بن کے  مژہ پر آیا

آج بے  واسطہ یوں  گزرا چلا جاتا ہے

جیسے  میں  کشمکش زیست میں  شامل ہی نہیں!

(بنتِ لمحات)

            وقت گزرتا رہا ہے، گزرتا جا رہا ہے، یہ وہی وقت ہے  جو کبھی میرے  سر پر سنگ گراں  بن کر گرا، کبھی راہ میں  پہاڑ بن کر آیا، کبھی ایسا عقدہ بنا کہ جس کا حل نہ ملا، کبھی آنسو بن کر آنکھوں  سے  ٹپکا۔ آج اس طرح گزرتا جا رہا ہے  جیسے  مجھ سے  اس کا کوئی واسطہ نہ ہو، جیسے  میں  زندگی کی کشمکش میں  شامل ہی نہیں  ہوں، ایک حیرت سی ہے، آنکھوں  کے  سامنے  وہ وقت میری پروا کیے  بغیر گزرتا جا رہا ہے  کہ جس نے  مجھے  ہمیشہ کشمکش حیات میں  شامل رکھا، شامل پایا، آج وقت نے  مجھے  نظر انداز کر دیا، تنہا کھڑا اسے  حیرت سے  دیکھ رہا ہوں  جو میرے  وجود کا حصّہ تھا۔ ہم دونوں  ایک دوسرے  میں  جذب تھے، وقت کے  خارجی تصور  اور  تجربے  کو رومانی فکر نے  داخلی  اور  حسی تجربہ بنا دیا ہے، ذہن کی انوکھی کیفیت کا تاثر ملتا ہے، تنہائی  اور  ایک عجب سنّاٹے  کا احساس ملتا ہے۔ وقت کی تمام لہروں  سے  علیحدہ کھڑا اس عہد کا فرد سامنے  ہے، رومانی فکر کے  گریز کو دیکھئے۔ داخلی ہیجانات کی خاموش صورت، توجہ طلب ہے۔ یہ اس عہد کا درد ہے، یہ زخمی روح کی آواز ہے  لیکن آہنگ دوسری بہت سی ایسی آوازوں  سے  مختلف ہے، اس حیرت سے  عہد کی معنویت کو سمجھنے  میں  مدد ملتی ہے۔ اس المیہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے  کہ صرف سماج  اور  فرد کا رشتہ نہیں  ٹوٹا فرد  اور  وقت کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ یہ سوچتا ہوا پیکر ذہن میں  اتنی تلخ  اور  شیریں  یادوں  کو سنبھالے اور اپنے  دامن میں  تمام غموں  کو لیے  کھڑا وقت کی رفتار، اس کی تباہ کاری، اس کی روشنی  اور  تاریکی کو دیکھ رہا ہے۔ وقت جو کل اس کے  وجود میں  جذب تھا، وقت جس کے  لمحے  اس کی داخلی زندگی کے  لمحے  تھے، وقت جس سے  اس نے  جدوجہد کی تھی، جس نے  اسے  بار بار شکست دی تھی  اور  شکست کی لذت سے  آشنا کیا تھا، جو کبھی ایسا عقدہ بنا کہ حل نہ ہو سکا، مذہب  اور  مابعدالطبیعات  اور  فلسفہ نے  جانے  کس کس طریقہ سے  اسے  حل کرنا چاہا، وقت جو اس کے  وجود کا غم بن گیا  اور  خون جگر بن کر مژہ پر آیا ہے  جس سے  اس نے   محبت کی جسے  چاہا، جس نے  یادوں  کی ایک دنیا دی، آج یوں  گزرا چلا جا رہا ہے  جیسے  اس کا اس سے  کوئی تعلق نہ ہو، جیسے  وہ زیست کی کشمکش میں  شامل ہی نہ ہو۔ اختر الایمان کی ایسی نظموں  سے  اس عہد کا المیہ کردار اُبھر کر سامنے  آتا ہے۔ یہ کردار خود ’وقت‘  ہے۔ اس کی داخلی کیفیت بہت سی سچائیوں  کو سمجھاتی ہے۔ رومانی ہیجان توجہ طلب ہے۔ شاعر کا المناک لہجہ  اور  داخلی ویرانی کا احساس دونوں  توجہ طلب ہیں۔ احساس  اور  اقدار کے  تصادم کا یہ تجربہ متاثر کرتا ہے۔

            اختر الایمان کی نظموں  کا داخلی آہنگ پرانی نظموں  سے  مختلف ہے، یہ داخلی آہنگ خواب کی پرچھائیوں  کے  تاثرات کو محسوس بناتا ہے۔ شاعر کی ذہنی کیفیتوں  سے  آشنا کرتا ہے۔ رومانیت کی کئی جہتیں  سامنے  آتی ہیں اور ہر جہت میں  داخلی آہنگ کی منفرد کیفیت متاثر کرتی ہے۔ کلام میں  ’پیتھوس‘  (Pathos) سے  بڑی کشش محسوس ہوئی ہے۔ ’’پیتھوس‘  نے  رومانیت کی ہر جہت کی سطح بلند کر دی ہے۔ ’پیتھوس‘  داخلی آہنگ کا جوہر ہے۔ المیہ کے  حسن کے  نمایاں  ہوتے  ہی کلام کا آہنگ احساس  اور  جذبے  سے  رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ رومانیت کی ایک جہت یہ ہے:

 

نگر نگر کے  دیس دیس کے  پربت، ٹیلے اور بیاباں

ڈھونڈ رہے  ہیں  اب تک مجھ کو، کھیل رہے  ہیں  میرے  ارماں

میرے  سپنے، میرے  آنسو، ان کی چھلنی چھاؤں  میں  جیسے

دھول میں  بیٹھے  کھیل رہے  ہوں  بالک باپ سے  روٹھے  روٹھے

 

دن کے  اُجالے، سانجھ کی لالی، رات کے  اندھیارے  سے  کوئی

مجھ کو آوازیں  دیتا ہے، آؤ، آؤ، آؤ، آؤ

میری روح کی جوالا مجھ کو پھونک رہی ہے  دھیرے  دھیرے

میری آگ بھڑک اُٹھی ہے، کوئی بجھاؤ، کوئی بجھاؤ

 

میں  بھٹکا بھٹکا پھرتا ہوں  کھوج میں  تیری جس نے  مجھ کو

کتنی بار پکارا لیکن ڈھونڈ نہ پایا اب تک تجھ کو

میرے  سنگی میرے  ساتھی تیرے  کارن چھوٹ گئے  ہیں

تیرے  کارن جگ سے  میرے  کتنے  ناتے  ٹوٹ گئے  ہیں

میں  ہوں  ایسا پات ہوا میں  پیڑ سے  جو ٹوٹے اور سوچے

دھرتی میری گور ہے  یا گھر، یہ نیلا آکاش جو سرپر

پھیلا پھیلا ہے اور اس کے  سورج چاند ستارے  مل کر

میرا دیپ جلا بھی دیں  گے، یا سب کے  سب رُوپ دکھا کر

ایک اِک کر کے  کھو جائیں  گے، جیسے  میرے  آنسو اکثر

پلکوں  پر تھرتھرا کر تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

جیسے  بالک مانگ مانگ کر نئے  کھلونے  سو جاتے  ہیں!

(بلاوا۔۔۔ تاریک سیارہ)

 

 اور  دوسری جہت یہ:

 

تمھارے  لہجے  میں  جو گرمی و حلاوت ہے

اسے  بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ

غنیم نور کا حملہ کہو اندھیروں  پر

دیار درد میں  آمد کہو مسیحا کی

رواں  دواں  ہوئے  خوشبو کے  قافلے  ہر سو

خلائے  صبح میں  گونجی سحر کی شہنائی

یہ ایک کہرہ سا، یہ دھند سی جو چھائی ہے

اس التہاب میں، اس سرمگیں  اُجالے  میں

سوا تمھارے  مجھے  کچھ نظر نہیں  آتا

حیات نام ہے  یادوں  کا، تلخ  اور  شیریں

بھلا کسی نے  کبھی رنگ و بو کو پکڑا ہے

شفق کو قید میں  رکھا،صبا کو بند کیا

ہر ایک لمحہ گریزاں  ہے  جیسے  دشمن ہے

نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں  لمحے  ہیں

وہ لمحے  جا کے  جو واپس کبھی نہیں  آتے!

(بنتِ لمحات۔۔۔ بنتِ لمحات)

 

رومانیت ’پیتھوس‘  کو لیے  اس طرح بھی نمایاں  ہوئی ہے:

 

میں  بظاہر جو بہت سادہ ہوں  بے  حس نظر آتا ہوں  تمھیں

ایسا دریا ہوں  جہاں  سطح کے  نیچے  چپ چاپ

موجیں  شوریدہ ہیں، طوفان اٹھا کرتے  ہیں

ٹھہرا پانی ہوں، مگر اس میں  بھنور پڑتے  ہیں

زخم سب اپنے  چھپائے  ہیں، ہنسی کے  پیچھے

صرف اس واسطے  شانوں  پہ ردائے  تہذیب

ڈالے  رہتا ہوں  کہ حیواں  نہ کہے  کوئی مجھے

وہ ثقافت جسے  کہتے  ہیں، اثاثہ، ورنہ

سالہا سال کی محنت ہے  جو انسانوں  کی

میرے  اِک فعل سے  غارت نہ کہیں  ہو جائے

ورنہ تم سامنے  آتی ہو تو سر سے پا تک

دوڑ جاتی ہے  کبھی آگ سی تیزاب سا اک شعلہ سا

تم کو معلوم ہے  اس دور میں  میرے  دن رات

صرف اس واسطے  با معنی ہیں  تم سامنے  ہو

تم کو معلوم ہے  یہ گردش ایام مجھے

کیوں  بھلی لگتی ہے، کیوں  دیکھ کے  تم کو آنکھیں 

مسکرا اٹھتی ہیں، میں  شاد نظر آتا ہوں 

میں  جو اس پھیلی ہوئی دنیا میں  یوں  جیتا تھا

جیسے  یہ بستی نہیں، شہر ہے  اک لاشوں  کا

جس میں  انسان نہیں  مردے  ہیں  کفن پہنے  ہوئے

 اور  ان مردوں  میں  لب سوختہ، میں  بھی ہوں  کہیں

تم نے  احساس دلایا نہیں، میں  لاش نہیں

اپنی گفتار کی گرمی سے  حرارت بخشی

منجمد خون کو دوڑا دیا شریانوں  میں 

کھینچ لائیں  مجھے، تنہائی کی دنیا سے  یہاں

میں  الف لیلیٰ کا کردار نہیں  ہوں  کوئی

تم بھی افسانوی محبوبہ نہیں اور نہ تھیں

پھر روایاتی ستم کیوں  کیا تم نے  مجھ پر؟

خود ہی وارفتہ ہوئیں، کھینچ گئیں  خود ہی ایسے

جیسے  میں  واقعی اِک لاش ہوں  چلتی پھرتی

اب تمھیں  دیکھ کے  میں  دل سے  دعا کرتا ہوں

 لاش بن جاؤں  میں، سچ مچ ہی، یہ بیگانہ روی

یہ نیا طرزِ وفا، تم نے  جو سیکھا ہے  ابھی

 کچے  شیشے  کی طرح ٹوٹ کے  ریزہ ہو جائے

 اور  تم مجھ سے  ہر اک خوف کو ٹھکراتے  ہوئے

 چیخ کر ایسے  لپٹ جاؤ، کلیجہ پھٹ جائے!

 (اذیت پرست۔۔۔ بنت لمحات)

 اور  ایک جہت یہ بھی ہے:

تتلیاں  ناچتی ہیں

پھول سے  پھول پہ یوں  جاتی ہے

جیسے  اک بات ہے  جو

کان میں  کہنی ہے، خاموشی سے

 اور  ہر پھول ہنسا پڑتا ہے  سن کر یہ بات!

دھُوپ میں  تیزی نہیں

ایسے  آتا ہے  ہر اِک جھونکا  ہَوا کا جیسے

دست شفقت ہے  بڑی عمر کی محبوبہ کا

 اور  مرے  شانوں  کو اس طرح ہلا جاتا ہے

جیسے  میں  نیند میں  ہوں

عورتیں  چرخے  لئے  بیٹھی ہیں

کچھ کپاس اوٹتی ہیں

کچھ سلائی کے  کسی کام میں  مصروف ہیں یوں

جیسے  یہ کام ہے  دراصل ہر اِک شے  کی اساس

ایک سے  ایک چہل کرتی ہے

کوئی کہتی ہے  مری چوڑیاں  کھنکیں  تو کھنکاری مری ساس

کوئی کہتی ہے  بھری چاندنی آتی نہیں  راس

رات کی بات سناتی ہے  کوئی ہنس ہنس کر

بات کی بات سناتی ہے  کوئی ہنس ہنس کر

لذت وصل ہے  آزار کوئی کہتی ہے

میں  تو بن جاتی ہوں  بیمار کوئی کہتی ہے

میں  بھی گھس آتا ہوں  اس شیش محل میں  دیکھو

سب ہنسی روک کے  کہتی ہیں  نکالو اس کو

 

اِک پرندہ کسی اِک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے  کہیں

ایک گاتا ہوا یوں  جاتا ہے  دھرتی سے  فلک کی جانب

پوری قوت سے  کوئی گیند اچھالے  جیسے

اِک پھدکتا ہے  سر شاخ پہ جس طرح کوئی

آمد فصل بہاری کی خوشی میں  ناچے

گوندنی بوجھ سے  اپنے  ہی جھکی پڑتی ہے

نازنیں  جیسے  ہے  کوئی یہ بھری محفل میں

 اور  کل ہاتھ ہوئے  ہیں  پیلے

کوئلیں  کو کتی ہیں

جامنیں  پکی ہیں  آموں  پہ بہار آئی ہے

ارغنوں  بجتا ہے  یکجائی کا

نیم کے  پیڑوں  میں، جھولے  ہیں  جدھر دیکھو ادھر

سانولی گاتی ہیں  سب لڑکیاں  آواز ملا کر ہر سو

 اور  اس آواز سے  گونج اٹھی ہے  بستی ساری

 

میں  کبھی ایک کبھی دوسرے  جھولے  کے  قریں  جاتا ہوں

ایک ہی کم ہے  وہی چہرہ نہیں

آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں  کسی سے  بڑھ کر

کیوں  حبیبہ نہیں  آئی اب تک؟

کھکھلا پڑتی ہیں  سب لڑکیاں  سن کر یہ نام

لو یہ سپنے  میں  ہیں، اِک کہتی ہے

باؤلی سپنا نہیں  شہر سے  آئے  ہیں  ابھی

دوسری ٹوکتی ہے

بات سے  بات نکل چلتی ہے

ٹھاٹھ کی آئی تھی بارات چمیلی نے  کہا

بینڈ باجا بھی تھا، دیپا بولی

 اور  دُلہن پہ ہوا کتنا بکھیر

کچھ نہ کچھ کہتی رہیں  سب ہی مگر میں  نے  صرف

اتنا پوچھا وہ ندی بہتی ہے  اب بھی کہ نہیں

جس سے  وابستہ ہیں  ہم  اور  یہ بستی ساری؟

کیوں  نہیں  بہتی چمیلی نے  کہا

 اور  وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے  اس کے؟

وہ بھی قائم ہے  ابھی تک یوں  ہی

وعدہ کر کے  جو حبیبہ نہیں  آتی تھی کبھی

آنکھیں  دھوتا تھا ندی میں  جا کر

 اور  برگد کی گھنی چھاؤں  میں  سو جاتا تھا

 

ماہ و سال آ کے  چلے  جاتے  ہیں

فصل پک جاتی ہے  کٹ جاتی ہے

کوئی روتا نہیں  اس موقع پر

حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں

کوئی زنجیر نہ ہو!

زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!

بھیڑ ہے  بچوں  کی چھوٹی سی گلی میں  دیکھو

ایک نے  گیند جو پھینکی تو لگی آ کے  مجھے

میں  نے  جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی

کس کا ہے  میں  نے  کسی سے  پوچھا

یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا

بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو

وہ بھی ہنسنے  لگا، ہم دونوں  یوں ہی ہنستے  رہے

دیر تک ہنستے  رہے

 

تتلیاں  ناچتی ہیں

پھول سے  پھول پہ یوں  جاتی ہیں

جیسے  اِک بات ہے  جو

کان میں  کہنی ہے  خاموشی سے

 اور  ہر پھول ہنسا پڑتا ہے  سن کر یہ بات!

(باز آمد۔۔۔ ایک مونتاج۔۔۔ بنتِ لمحات)

 

            ’ذات‘ ، ’محبوب‘   اور  ’وقت‘  رومانی فکر و نظر نے  یہ تین کردار خلق کیے  ہیں، وقت  اور  تیزی سے  گزرتے  ہوئے  لمحات کے  حسی  اور  تاثراتی تجربے  ہیں  جو رومانی فکر و نظر سے  حاصل ہوئے  ہیں، اختر الایمان نے  اسی طرح کئی  اور  نظموں  میں  اپنی تلاش کی تمثیل پیش کی ہے، خواب  اور  شکست خواب  اور  پھر رومانی آسودگی سب مل کر کلام کی جمالیاتی سطح بلند کر دیتے  ہیں، رومانی آرزو مندی، داخلی  اور  باطنی اضطراب  اور  ٹوٹے اور ٹوٹتے  رشتوں  کی یادیں اور تجربے  رومانیت کو پرکشش بنا رہے  ہیں۔ حسی حقیقت پسندی  اور  لہجے  کی دل سوزی میں  المیہ کا حسن موجود ہے۔ ان نظموں  میں  ’پیتھوس‘  (Pathos) بنیادی جوہر کی مانند ہے۔

            ان سب نظموں  میں  رومانی ذہن نے  تلاش حسن  اور  مسرت کی جستجو کو اہم جانا ہے، داخلیت کی آنچ گہری ہے، کہیں  جذبے  کی تندی کے  باوجود احساس کی لطیف  اور  خوشگوار وسعت کی پہچان ہوتی ہے اور قاری کا احساس جمال متاثر ہوتا ہے۔ کہیں  کوئی یاد چبھن بن گئی ہے  کہیں  کسی پرانے  درد کا حسن ابھر آیا ہے۔ کہیں  مایوسی گہرے  پیتھوس (Pathos) کے  ساتھ موجود ہے  کہیں  تمدنی ورثے  کی تباہی کا غم ہے۔ یادوں  کے  سلسلے  میں  بھی تلاش حسن  اور  مسرت کی جستجو ہے۔

            ’باز آمد‘  میں  مونتاج (Montage) کی تکنیک ہے  جو نظم کے  تجربوں  کے  مطابق ہے۔ حسی تجربے  خوابوں اور یادوں  کی مانند آتے  ہیں، حسیاتی رشتوں اور تجربوں  کی چھوٹی چھوٹی تصویریں  ہیں، بظاہر ایک دوسرے  سے  کچھ الگ لیکن ایک داخلی رشتہ قائم کیے  ہوئے، ان بکھری تصویروں  کا مجموعی تاثر گہرا ہوتا ہے۔ اس نظم کی ایک دلکش جمالیاتی سطح ہے  جو انبساط  اور  مسرت کے  ساتھ دکھ درد  اور  ’پیتھوس‘  کو محسوس بناتی ہے۔ طرز ادا دلکش ہے، لہجہ متاثر کرتا ہے۔ فضا آفرینی کا بھی تاثر گہرا ہوتا ہے۔ تاثراتی مصوری کی خصوصیات بھی موجود ہیں، شعری مزاج کی لطافت  اور  نزاکت کا بھی احساس ملتا ہے۔ تشبیہیں  خوبصورت ہیں:

ایسے  آتا ہے  ہر اِک جھونکا ہوا کا جیسے

دست شفقت ہے  مری عمر کی محبوبہ کا

 

اِک پرندہ کسی اِک پیڑ کی ٹہنی پہ چہکتا ہے  کہیں

ایک گاتا ہوا یوں  جاتا ہے  دھرتی سے  فلک کی جانب

پوری قوت سے  کوئی گیند اچھالے  جیسے!

 

گوندنی بوجھ سے  اپنے  ہی جھکی پڑتی ہے

نازنیں  جیسے  ہے  کوئی یہ بھری محفل میں

 اور  کل ہاتھ ہوئے  ہیں  پیلے

 

            ان زمینی تشبیہوں  میں  بڑی جاذبیت ہے، تصویریں  اُبھر آئی ہیں، جمالیاتی  اور  رومانی فکر کی تراشی یہ تشبیہیں  متاثر کرتی ہیں۔ ان تشبیہوں  میں  (Reality Sensation) ہے۔ البتہ تجربے  کا حسن، الفاظ کے  آہنگ  اور  لہجے  کی شیرینی سے  بھی نمایاں  ہوتا ہے۔ ضبط  اور  نفسیاتی احتیاط کے  پیچھے  اضطراب، کشمکش  اور  دُکھ بھی ہے۔ مکالماتی انداز سے  دو تصویریں  جاندار  اور  متحرک بن گئی ہیں۔ اختر الایمان کی ایسی نظموں  کو پڑھتے  ہوئے  فراسٹ (Frost) کی یاد آتی ہے، اس قسم کی نفسیاتی  اور  ڈرامائی مکالمہ نگاری فراسٹ کی شاعری کی ایک بڑی خصوصیت ہے، عام گفتگو کا آہنگ نظم میں  ہے  جو فراسٹ کی بعض اچھی نظموں  میں  ملتا ہے۔ صرف یہی نہیں  ان مصرعوں  سے:

’۔۔۔ لذت وصل ہے  آزار‘ کوئی کہتی ہے

’میں  تو بن جاتی ہوں  بیمار‘  کوئی کہتی ہے

آخرش پوچھ ہی لیتا ہوں  کسی سے  بڑھ کر

’کیوں  حبیبہ نہیں  آئی اب تک؟

کھلکھلا پڑتی ہیں  سب لڑکیاں  سن کر یہ نام

’تو یہ سپنے  میں  ہیں ‘  کہتی ہے  کوئی

’باؤلی سپنا نہیں، شہر سے  آئے  ہیں  ابھی‘

            لگتا ہے  شاعر دوسروں  کے  احساسات یا سنسیشن کو محسوس کر رہا ہے۔ ’ندی‘  کی علامت متاثر کرتی ہے۔ رومانی وژن نے  اسے  خلق کیا ہے، یہ وقت کے  دھارے  کو ایک حقیقت بن کر سمجھاتی ہے، بستی میں  ’وہ ندی بہتی ہے ‘  یہ ایک حقیقت ہے، شاعر نے  اس ’حقیقت‘  کو ایک علامت  اور  ’امیج‘  بنا لیا ہے اور اس سے  نظم زیادہ پرکشش ہو گئی ہے۔ اسی طرح بستی میں  برگد کا گھنا پیڑ بھی ہے  جو یادوں  کاسمبل ہے۔ اسی مقام پر محسوس ہوتا ہے  شاعری، حقیقت کی عکاسی نہیں  کرتی، حقیقت کے  سنسیشن (Sensation) سے  شاعری جلوہ بنتی ہے۔ اختر الایمان کے  ایسے  حسی تجربے  بہت قیمتی ہیں۔ ان کے  ذہن میں  وقت یا ’ٹائم‘  کا جو جمالیاتی  اور  رومانی تصور ہے  اس پر غور فرمائیے:

حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں

کوئی زنجیر نہ ہو

زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے!

یہ اس داخلی تو انائی کا آہنگ جو زمان و مکان کی زنجیریں  توڑ چکی ہے۔

            اختر الایمان کا یہ رومانی تصور قابل قدر ہے۔ اس نظم کی سطح ان مصرعوں  سے  بلیغ ہو جاتی ہے۔ داخلی کرب سے  جو فنی تاثرات پیدا ہوئے  وہ بہت اہم ہیں:

بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو

وہ بھی ہنسنے  لگا، ہم دونوں  یوں ہی ہنستے  رہے

دیر تک ہنستے  رہے

            تجربے  کی معنویت بے  اختیار پھیلتی ہے۔ ایک معصوم بچے  کی ہنسی  اور  اس کی معصومیت، اس رومانی المیہ کردار کو حاصل ہوئے  لذت آمیز لمحے، اس کی ہنسی  اور  تلخیوں  میں  اس ہنسی کی بلبلاہٹ غم و اندوہ کے  پھیل جانے  کا احساس، مسرت  اور  انبساط کے  ان مختصر لمحوں  کے  ساتھ جذبے اور احساس کی کیفیت، ایک ساتھ جانے  کتنی باتوں  کا احساس ملتا ہے۔ یہ بھولی صورت ایک آئینہ بھی ہے۔ اس کردار نے  اس صورت میں  کچھ محسوس کیا ہے، ورنہ وہ ہنستا کیوں۔ مسرت  اور  کیف کے  لمحوں اور غم و اندوہ کے  لمحوں  کو علیحدہ نہیں  کیا جا سکتا، خوشی بھی ہے اور خوشی کے  اندر ’پیتھوس‘  بھی ’پیتھوس‘  کو خوشی کی لہروں  میں  چھپانے  کی کوشش بھی ہے۔ یہ اختر الایمان کی فنکاری ہے۔ معصوم بچے  کی بھولی صورت سے  المیہ کا حسن پیدا ہوا ہے، کتھارسس ہوئی ہے، نظم ختم ہو جاتی ہے  لیکن ہم دیر تک بستی کی ندی  اور  بوڑھے  برگد کے  نزدیک یہ ہنسی سنتے  رہتے  ہیں۔

            اس نظم میں  بھی تنہائی بنیادی احساس ہے۔ فراسٹ کی طرح اختر الایمان بھی اپنے  کرداروں  کے  درمیان تنہا ہیں، فراسٹ کی یہ خصوصیت ہے  کہ وہ حقائق کو ان کی اپنی صورت میں  جب بھی اُٹھاتا ہے  ان کی تشریح نہیں  کرتا، حقیقی کردار  اور  اس کے  حقیقی لب و لہجے  کو پیش کر دیتا ہے۔ لیکن حسیاتی فکر سے  خیالات  اور  تصورات  اور  جذبات  اور  احساسات کا تسلسل بھی قائم کر دیتا ہے۔ اختر الایمان کی اس نظم کو اس طرح بھی دیکھئے  تو وہی لطف آئے  گا جو فراسٹ کی نظموں  سے  حاصل ہوتا ہے۔ اس نظم میں  ’حقائق‘  کی تصویریں  ان کی اپنی صورتوں  میں  اٹھا لی گئی ہیں۔ ان کی تشریح نہیں  کی گئی ہے۔ ایک تصویر بظاہر دوسری تصویر سے  مختلف ہے، حقیقی کردار بھی ہیں اور ان کا فطری لب و لہجہ بھی ہے، شاعر کی حسیاتی فکر نے  تمام تصویروں  کو منسلک کر دیا ہے، پھر خیالات  اور  احساسات کا ایک تسلسل قائم ہو گیا ہے۔ معصوم بچے  کو دیکھ کر غیر شعوری طور پر یہ محسوس ہوتا ہے  جیسے  اسی کی تلاش تھی۔ اسی کے  ذریعہ شخصیت مکمل ہو گی یا نفسی تکمیل ممکن ہے۔ جس شئے  کی تلاش ہے  اس کی یہ ایک چھوٹی سی لیکن مکمل علامت ہے۔ اس کی ہنسی کے  ساتھ شعری تجربہ ’کتھارسِس‘  (Catharsis) کی منزل سے  گزرتا ہے۔ تلاش و جستجو کے  بعد جب اس طرح ’کتھارسِس‘ ہوتی ہے  تو پڑھنے  والوں  کو بھی سکون ملتا ہے۔ یہ ’اکسائیٹمنٹ‘  (Excitement) رومانی فکر کی بے  تابی کو نفسیاتی سکون دیتا ہے۔ ’باز آمد‘  کے  المیہ کے  ہیرو سے  ہمدردی ہو جاتی ہے!

            ’اذیت پرست‘  بھی اختر الایمان کی ایک خوبصورت نظم ہے، رومانی فکر و نظر نے  واقعات کو ڈرامائی صورت عطا کر کے  اسے اور بھی دلکش بنا دیا ہے۔ ’اذیت پرست‘  میں  رومانی آرزو مندی ہے۔ ’باز آمد‘  میں  محسوساتی رجحان ہے۔ جذبوں  کے  انتشار  اور  سکون سے  تشکیل ہیئت کی صورتیں  مختلف ہو گئی ہیں۔ ’اذیت پرست‘  میں  رومانی فکر انتشار  اور  اُلجھنوں  میں  نمایاں  ہوئی ہے، داخلی اضطراب احساس کی ندرت  اور  فکر انگیزی کا اثر ہوتا ہے، ’باز آمد‘  میں  سکون  اور  سکون کے  پیچھے  عصری  اور  باطنی ہیجان زاویہ نگاہ کی انفرادیت  اور  ارضی کیفیات  اور  حسیاتی حقیقت پسندی کی پہچان ہوتی ہے۔ اذیت پرست کا المیہ ہیرو ’باز آمد‘  میں  جس طرح چہرے  کو محسوس کرتا ہے  اس کے  حسن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لذت  اور  وارفتگی کی جذباتی لکیروں  سے  ایک تصویر بن گئی، ماضی  اور  ماضی کی یادیں اور گزرتے  لمحوں اور بدلتی قدروں  کی باتیں  ان نظموں  میں  بھی ہیں۔ اختر الایمان کی اچھی رومانی نظمیں  اکثر تمثیل  اور  ڈرامہ بن گئی ہیں۔

            ٹوٹے  ہوئے اور ٹوٹتے  ہوئے  رشتوں اور بکھرے  ہوئے  خوابوں اور یادوں  کے  ان آئینوں  میں  اس عہد کے  المیہ کردار کی پہچان ہوتی ہے۔ داخلیت کی آنچ دھیمی دھیمی سی ہے۔ جس سے  ذہن متاثر ہوتا ہے۔ احساس تیز ہے، محسوسات کی دنیا ہے۔ اختر الایمان کی ایسی نظموں  میں  اصوات کی تنظیم بھی قابلِ غور ہے۔ خیالات کے  مطابق اصوات کی نئی تشکیل سے  بھی شاعر کی انفرادیت کی پہچان ہوتی ہے۔ المیہ کردار کی جذباتی  اور  ذہنی زندگی کے  تجربوں  کے  مطابق اصوات کی تنظیم ہوئی ہے۔ تاثرات تجریدی نہیں  ہیں، حسیاتی حقیقت پسندی  اور  لہجے  کی دل سوزی المیات کے  جلال و جمال کو اُبھارتی ہے، انسان باطنی اسطور کے  پُر اسرار کھنڈر یا غار سے  نکلتا ہے اور تصادم کے  شدید احساس کو لیے  پیچیدہ کیفیتوں  کو اس طرح سمجھاتا ہے:

ایسا دریا ہوں  جہاں  سطح کے  نیچے  چپ چاپ

موجیں، شوریدہ ہیں، طوفان اٹھا کرتے  ہیں

ٹھہرا پانی ہوں  مگر اس میں  بھنور پڑتے  ہیں

اپنا ہر زخم چھپائے  ہوئے  پھرتا ہوں  اسی کے  پیچھے!

            انسانی ذہن  اور  بنیادی جبلتوں  کے  پُر اسرار عمل  اور  ردِّ عمل  اور  ان کی پُر اسرار کیفیتوں  کو باطنی اسطور کی دنیا میں  پہچاننا ممکن نہیں۔ قدریں  جبلتوں  کو اظہار سے  روکتی ہیں اور ان کے  اظہار میں  فرق بھی پیدا کرتی ہیں، انسان کی داخلی زندگی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ خارجی زندگی کے  تضادات  اور  اس زندگی کی اُلجھنیں اور اس کے  دیئے  ہوئے اور پیدا کیے  ہوئے  ہیجانات یہ سب پریشان کن ہیں، اندر کا انسان ان سے  ٹکرانا چاہتا ہے، بظاہر ٹھہرا ہوا پانی نظر آتا ہے  لیکن اس میں  بھنور بھی پڑتے  ہیں، اندر موجیں  شوریدہ ہیں  طوفان اٹھا کرتے  ہیں اور انسان اسی کے  پیچھے  اپنا ہر زخم چھپائے  پھر رہا ہے۔ جبلتوں اور قدروں  کی کشمکش غیر معمولی نوعیت کی ہوتی ہے۔ باطن میں  اسطوری درندہ ’یونی کورن‘  (Unicorn) ٹہلتا رہتا ہے، بے  چین چکّر لگاتا رہتا ہے۔ تمام پھولوں  کو کھانے اور چبانے  کا موقع تلاش کرتا رہتا ہے۔ اندر کے  شعلے  باہر نکالنا چاہتا ہے:

صرف اس واسطے  شانوں  پہ ردائے  تہذیب

ڈالے  رہتا ہوں  کہ حیواں  نہ کہے  کوئی مجھے

وہ ثقافت جسے  کہتے  ہیں  اثاثہ، ورنہ

سالہا سال کی محنت ہے  جو انسانوں  کی

میرے  اِک فعل سے  غارت نہ کہیں  ہو جائے

            جنسی جبلت کی تڑپ  اور  جنسی ہیجان کو آگ، تیزاب  اور  شعلے  سے  سمجھا جا سکتا ہے۔ محبوب کے  پیکر سے  بھی  محبت کی لہر  اور  جنسی ہیجان میں  توازن پیدا نہیں  ہوتا:

میرے  دن رات۔۔۔

صرف اسی واسطے  بامعنی ہیں  تم سامنے  ہو

            جبلّتوں اور قدروں  میں  جب سمجھوتہ نہ ہو سکا تھا تو یہ فرد داخلی اسطوری دنیا میں  جذب ہو گیا تھا  اور  خارجی زندگی کو دیکھنے  کا انداز یہ تھا:

جیسے  یہ بستی نہیں  شہر ہے  اِک لاشوں  کا

جس میں  انساں  نہیں  مردے  ہیں  کفن پہنے  ہوئے

 اور  اس ’شہر‘  میں  خود کو بھی اس طرح محسوس کیا تھا:

 اور  ان مردوں  میں  لب سوختہ میں  بھی ہوں  کہیں

            اس ’پروجیکشن سے  ویرانی کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، محبوب کے  پیکر نے  یہ احساس دلایا کہ وہ ’لاش نہیں  ہے ‘  محبوب کی آواز سے  اس میں  زندگی کی لہر آئی ہے۔ تنہائی سے  باہر نکلا ہے۔ اس ’پیکر‘  سے  ہیجانات کو سکون ملا تھا، اس پیکر کو پا کر جبلّتوں  کے  اظہار کے  لیے  ’لمحے ‘  حاصل ہوئے  تھے  لیکن معاشرتی قدروں  نے  اسے  ایک بار پھر للکارا، جبلّتیں  جھنجھنا گئیں۔ یہ رومانی کردار ’روایتی ستم‘  برداشت نہیں  کر سکتا، گھبرا جاتا ہے، اس نے  جس پیکر کو اپنے  وجود میں  جذب کرنا چاہا تھا وہ پیکر روایتی ستم کی علامت کس طرح بن گیا؟ جس پیکر نے  ’لاش‘  کو زندگی کی حرارت بخشی تھی، اس نے  روایتی قدروں  کا آئینہ بن کر یہ سرگوشی کیوں  کی، ’تم لاش ہو؟‘‘  یہ رومانی کردار اس سوال سے  اُلجھا ہوا ہے:

خود ہی وارفتہ ہوئیں  کھنچ گئیں  خود ہی؟

            اس معصوم حیرت پر سوچتے  ہوئے  اس دریا کو نہ بھولیے  کہ جس کی سطح کے  نیچے  موجیں  شوریدہ ہیں، طوفان اٹھا کرتے  ہیں۔ پھر نئے  آدم کی نفسیات  اور  اس کے  زوال (Fall) کی پوری تصویر سامنے  آئے  گی۔۔۔ اس کی نرگسیت تلملا اُٹھتی ہے۔ یہ نرگسی شکست کی آواز ہی تو ہے:

اب تمھیں  دیکھ کے  میں  دل میں  دُعا کرتا ہوں

لاش بن جاؤں  میں  سچ مچ ہی، یہ بیگانہ روی

یہ نیا طرزِ وفا تم نے  جو سیکھا ہے، ابھی

کچے  شیشے  کی طرح ٹوٹ کے  ریزہ ہو جائے

 اور  تم مجھ سے  ہر اِک خوف کو ٹھکراتے  ہوئے

چیخ کر ایسے  لپٹ جاؤ، کلیجہ پھٹ جائے!

            ’لاش بن جاؤں ‘  نیا طرز وفا کچے  شیشے  کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ہو جائے  ہر اِک خوف کو ٹھکراتے  ہوئے  تم مجھ سے  چیخ کر ایسے  لپٹ جاؤ کہ کلیجہ پھٹ جائے  ان سے  شکست آرزو، داخلی چیخ  اور  آرزو مندی ہیجان، اذیت سے  لذت حاصل کر نے  کی خواہش  اور  اپنے  وجود میں  کسی کو جذب کر لینے  کی تمنّا، سب کا احساس ملتا ہے۔ لاش بن کر بھی وہ اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔

            اختر الایمان نے  لکھا ہے۔ میری شاعری کیا ہے،  اگر  ایک جملے  میں  کہنا چاہیں  تو میں  اسے  انسان کی روح کا کرب کہوں  گا۔ یہ کرب مختلف اوقات ہیں، مختلف محرکات کے  تحت الگ الگ لفظوں  میں ظاہر ہوتا ہے:

جس نے  آواز اٹھائی وہ ہوا نذر ستم

جو مسیحائی کو آیا رسن و دار ملی

ہر نیا دن نئے  آفات کا مظہر ٹھہرا

صبح خوں  گشتہ ملی شام سر  افگار ملی

(میں۔۔۔ ایک سیارہ)

دور جمہور میں  کیا کیا ہوئیں  بیداد لکھیں

کوئی حقیقت تو کہیں

بادشاہوں  کے  سے  انداز میں  کچھ لوگوں  نے

حکم بھیجا ہے  بدل ڈالوں  میں  انداز فغاں

طرز تحریر و بیاں

رسم خط اپنی زباں

(میں۔۔۔ ایک سیارہ)

            شاعر کا درد و کرب  اور  اس کی شاعری کی رومانیت  اور  اس رومانیت کا ’پیتھوس‘  المیہ اس لیے  ہے  کہ ’شاعر ہی نہیں  آج کا ہر آدمی ٹوٹا ہوا ہے، انسان کے  آدرش  اور  عملی زندگی میں  اتنا   بعد  اور  اتنی دوری آ گئی ہے  کہ بیچ کے  خلا کو بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ’شاعر کے  ذہن میں  ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے۔ ’’کیا زندگی کی کچھ اعلیٰ  اور  برتر قدریں  ہیں  جن کے  لیے  انسان جدوجہد کرتا ہے؟‘‘  

            اختر الایمان کی رومانیت ’’زندگی کی خوب صورتی  اور  اس کے  حسن، درختوں  کی شادابی، پرندوں  کے  چہچہوں، جھیلوں اور ندیوں  کی دلکشی، موسموں  کی آون جاون، دوشیزاؤں  کے  آنچلوں  کی مہک، پازیبوں  کی جھنکار، چوڑیوں  کی کھنک  اور  ان کے  قہقہوں‘‘  کی رومانیت نہیں  ہے۔ اس انسان کے  درد و کرب کے  پیتھوس کی رومانیت ہے  جو انسان  اور  فطرت کی دوری کی وجہ سے  پیدا ہوا ہے۔ جس کا جنم انسان  اور  انسانی سماج  اور  معاشرہ کی دوری کی وجہ سے  ہوا:

ہر نئی راہ سے  میں  پوچھتا ہوں

اے  مری صبح سفر شام حیات

تو مرا ساتھ کہاں  تک دے  گی؟

 

کیا ٹھہر جائے  گی اِک موڑ پہ کچھ گام کے  بعد

 اور  میں  شام و سحر، جیسے  ہیں  گردش میں  یوں ہی

سرگرانی بھی رہی چلتا رہوں  گا پھر بھی

اے  مری راہ نجات و ظلمات

تو مرا ساتھ کہاں  تک دے  گی؟

 

عظمت صبح اندھیروں  نے  نگل لی ہے  مگر

قصر امید میں  پھیلا ہے  اُجالا پھر بھی

چاند گہنا گیا افکار کا، حالات زبوں، دہر ملول

گرداس کے  ہے  مگر نور کا ہالہ پھر بھی

کون سے  موڑپہ چھوڑے  گی مجھے  کچھ توبتا

اے  مری گرمیِ جذبات کہاں  تک جاؤں

میں  ترے  ساتھ کہاں  تک جاؤں

تو مرا ساتھ کہاں  تک دے  گی؟

(کہاں تک۔۔۔ نیا آہنگ)

            اختر الایمان نے  لکھا ہے: ’کانٹ، ہیگل، برگساں، فارابی، ابن خلدون، مارکس سب تھوڑی تھوڑی دور کے  لیے  انگلی پکڑتے  ہیں اور پھر وقت کے  بہاؤ میں  خود بھی کھو جاتے  ہیں اور ان کے  فلسفے  بھی ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمد، کرشن، رام، بدھ، پھر ان کے  سلسلے  ان کے  شارحین، ان کے  مفسرین، ان کے  سمجھانے  والے  سب ساتھ ساتھ چلتا ہے اور سب ایک دوسرے  سے  دست و گریباں  ہے، کیا زندگی اتنی ساری سچائیوں  کی پوت ہے  یا کوئی سچ نہیں؟ کسی کے  پاس کوئی تسلی بخش  اور  خاطر خواہ جواب نہیں! شاعر ہی نہیں  آج کا ہر آدمی ٹوٹا ہوا ہے، انسان کے  آدرش  اور  عملی زندگی میں  اتنا   بعد  اور  اتنی دوری آ گئی ہے  کہ بیچ کے  خلا کو بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘  

            یکسانیت سے  گریز  اور  رومانیت  اور  درد  اور  دُکھ سے  گریز  اور  ’پیتھوس‘  کا بنیادی سبب تو یہی ہے! ’ہیومنزم‘  اختر الایمان کی شاعری کا جوہر ہے، ان کی شاعری میں کھردرا پن ہے  تو اس کی وجہ بھی یہی ہے، لکھا ہے: ’’یہ کھردری، شبہات سے  پر، انتشار آمیز شاعری، اس خلوص  اور  جذبۂ  محبت کے  تحت وجود میں  آئی ہے، جو مجھے  انسان سے  ہے۔ میں  اس کے  کرب، اس کی شدت درد کو انتہا پر لے  کر محسوس کرتا ہوں۔ اختر الایمان کی رومانیت خوب صورت مستقبل پر اعتماد کرتی ہے:

ناچتا رہتا ہے  دروازے  کے  باہر یہ ہجوم

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ و دود

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

کیا خبر توڑ ہی دے  بڑھ کے  کوئی قفل جمود؟

 

            اختر الایمان کا رومانی ذہن جب ماضی  اور  اس کے  جمال میں  پہنچ جاتا ہے  تو یادوں  میں  گم ہو جاتا ہے، درد جاگتا ہے، تمنّا بیدار ہوتی ہے  لیکن آرزو بس آرزو ہی رہ جاتی ہے اور درد کی لہر ’پیتھوس‘  پیدا کرتی ہے:

 

موسموں  کے  بدلنے  کا منظر تو پیچھے  کہیں  رہ گیا

کھیت کی مینڈ پر چھاؤں  میں  شیشموں  کی

بھرے  کنڈ میں!

جامنوں  کے  گھنے  جھنڈ میں!

کوئلوں اور پپیہوں  کی آواز کے  شور میں

اُمڈے  جذبات کے  زور میں

وقت یوں  بہہ گیا جیسے  آنسو کا قطرہ تھا بے  مایہ سا

قہقہہ تھا جو پھولوں  کی خوشبو میں  گھل مل گیا

کتنے  کردار ہیں  سامنے

ہنستے  روتے  ہوئے

زندگی کی کشاکش میں  اُلجھے  ہوئے

عشق کرتے  ہوئے  آہیں  بھرتے  ہوئے

جان راحت پہ ہر آن مرتے  ہوئے

بے  خبر ساری دنیا سے  اِک دوسرے  کو سنبھالے  ہوئے

ہاتھوں  کو چومتے  بوسے  آنکھوں  کو دیتے  ہوئے

بہتے  جاتے  ہیں  موج رواں  کی طرح

ہاتھ میں  ہاتھ ڈالے  ہوئے

ایک دیکھی ہوئی فلم کا ایسا منظر ہے  یہ

جس کے  کردار اب گویا افسانہ ہیں

فلم بوسیدہ اتنی ہے  چلتے  ہوئے  ٹوٹ جاتی ہے  پھر جوڑتا ہوں  اسے

جوڑ کر پھر چلاتا ہوں  خوش ہوتا ہوں

گاہے  روتا ہوں  میں

اِک بہت خوب صورت سی رنگین تصویر ہے

کتنے  لمحات میرے  بھی اس فلم میں  بند ہیں

وہ جو دھندلا سا چہرہ نظر آ رہا تھا تمھیں

پیڑ کی آڑ میں

وہ، جہاں  سادہ کپڑوں  میں

اِک مہ جبیں  ہنس رہی ہے  کھڑی

اس کے  بائیں  طرف میں  ہوں  وہ!

اتنی دلکش کہانی ہے  جی چاہتا ہے  کہ پھر سے  بنا لوں

ہر وہ چہرے  جو اس فلم کی جان ہیں

وہ کہاں  ہیں؟

انھیں  کس طرح؟

کیسے  لاؤں  گا میں؟

(نشاۃ ثانیہ)

            فطرت کے  حسن کے  سائے  میں  ایک دلکش کہانی ہے، اس کی یاد ایک خوبصورت نغمے  کی طرح آتی ہے، اس نغمے  کے  آہنگ کی مدد سے  شاعر اس ماحول میں  پہنچ جاتا ہے  جہاں  جامنوں  کے  گھنے  جھنڈ میں، شیشم کے  درختوں  کی چھاؤں  میں  کھیت کی مینڈ ہے، کوئلوں اور پیہوں  کی آوازیں  ہیں اور ان کے  ساتھ جذبات میں  ایک شدت ہے، عشق کرتے، آہیں  بھرتے، ہاتھوں  کو چومتے، آنکھوں  کو بوسے  دیتے  کردار اُبھرتے  ہیں، پرانی فلم کی طرح اس کی کہانی اُبھرتی ہے:

 

اِک بہت خوبصورت سی رنگین تصویر ہے

کتنے  لمحات میرے  بھی اس فلم میں  بند ہیں

وہ جو دھندلا سا چہرہ نظر آ رہا ہے  تمھیں

پیڑ کی آڑ میں

وہ، جہاں  سادہ کپڑوں  میں

اِک مہ جبیں  ہنس رہی ہے  کھڑی

اس کے  بائیں  طرف میں  ہوں  وہ!

 

            یہ کہانی ماضی میں  اتر گئی ہے، اب وہ کردار نہیں  کہ پھر اس کہانی کو فلمایا جائے۔ رومانی ذہن نے  ماضی کو کس طرح گلے  لگایا ہے اور ایک منظر سے  کیسی لذّت حاصل کی ہے اور جمالیاتی انبساط پایا ہے، غور کیا جا سکتا ہے۔

            یہ احساس کتنا دلفریب  اور  خوبصورت ہے  کہ انسان زمین  اور  زمین کی خوشیوں، تنہائیوں اور بے  بسی  اور  کرب سب کا خالق ہے۔ وہ خود زمین ہے، اس کے  جسم سے  کونپلیں  پھوٹتی ہیں اور آہستہ آہستہ تن اور  درخت بن جاتی ہیں اور پھل پھول دینے  لگتی ہیں۔ جیسے  جیسے  شعور آتا جاتا ہے  یہ محسوس ہوتا ہے  جیسے  زمین سے  اس کا رشتہ اٹوٹ ہے، وہ زمین کا خالق بھی ہے  جو کچھ ہوتا ہے  سب سے  اس کا رشتہ ہے، زمین کا غم اس کا، زمین کی خوشیاں  اس کی، جو بھی زمین کا مقدر ہے  سب اس کا ہے، دراصل یہ اس ’ہیومنزم‘  کی ایک جہت ہے  کہ جسے  اختر الایمان کے  رومانی ذہن نے  عزیز رکھا ہے اور اپنے  کلام کا جوہر بنا دیا ہے۔ کہتے  ہیں:

جب مرے  جسم سے  کونپلیں  پھوٹ کر

دھیرے  دھیرے  تن اور  شجر بن گئیں

 اور  پھل پھول دینے  لگیں، تب مجھے

ایک احساس گیرائی ایسا ہوا!

جیسے  جو بھی زمیں  پر ہے  سب میرا ہے

اس کے  غم، اس کی خوشیاں  بھی سب میری ہیں

اس کی تنہائیاں، بے  بسی، کرب، سب

جو بھی اس کا مقدر ہے  سب میرا ہے

صرف میری وجہ سے  ہے، خالق ہوں  میں

ہر کم و بیش کا، جیسے  میں  ہوں  زمیں

 اور  جیسے  کہ میں  خود ہی دہقان ہوں!

 

جب مرے  جسم سے  کونپلیں  پھوٹ کر

دھیرے  دھیرے  تن اور  شجر بن گئیں

 اور  پھل پھول دینے  لگیں

 

            یہ رومانی فکر و نظر  اور  نئی حسیت کا ’پروجکشن‘  ہے۔ معیاری تخلیقی تمازت ہے  جس سے  ایک خوبصورت سی ’فنٹاسی‘  تخلیق ہوئی ہے۔

            اختر الایمان کی خوبصورت نظم ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘  بھی اُردو کی بہترین رومانی نظموں  میں  شامل ہے۔ درد نے  رومانیت کو ’پیتھوس‘  کا آہنگ عطا کیا ہے:

 

کون سا اسٹیشن ہے؟

’ڈاسنہ ہے  صاحب جی

آپ کو اُترنا ہے؟‘

’جی نہیں، نہیں ‘  لیکن

ڈاسنہ تو تھا ہی وہ

میرے  ساتھ قیصر تھی

یہ بڑی بڑی آنکھیں

اِک تلاش میں  کھوئی

رات بھر نہیں  سوئی

جب میں  اس کو پہنچانے

اس اُجاڑ بستی میں

ساتھ لے  کے  آیا تھا

میں  نے  ان سے  پھر پوچھا

آپ مستقل شاید

ڈاسنہ میں  رہتے  ہیں؟

 ’’جی، یہاں  پہ کچھ میری

سوت کی دُکانیں  ہیں

کچھ طعام خانے  ہیں‘‘  

میں  سنا کیا بیٹھا

بولتا رہا وہ شخص

 ’’کچھ زمین داری ہے

میرے  باپ دادا نے

کچھ مکان چھوڑے  تھے

ان کو بیچ کر میں  نے

کاروبار کھولا ہے

اس حقیر بستی میں

کون آ کے  رہتا تھا

لیکن اب یہی بستی

بمبئی ہے  دلّی ہے

قیمتیں  زمینوں  کی

اتنی بڑھ گئی صاحب

 ’’جیسے  خواب کی باتیں‘‘  

اِک زمین ہی کیا ہے

کھانے  پینے  کی چیزیں

عام جینے  کی چیزیں

بھاؤ دس گنے  ہیں  اب

بولتا رہا وہ شخص

 ’’اس قدر گرانی ہے

آگ لگ گئی جیسے

آسمان حد ہے  بس‘‘  

میں  نے  چونک کر پوچھا

آسماں  محل تھا اِک

سیدوں  کی بستی میں

 ’’آسماں  ہی ہیں  صاحب

اب محل کہاں  ہو گا؟

ہنس پڑا یہ کہہ کر وہ

میرے  ذہن میں  اس کی

بات پے  بہ پے  گونجی

 ’’اب محل کہاں  ہو گا‘‘  

اس دیار میں  شاید

قیصر اب نہیں  رہتی

وہ بڑی بڑی آنکھیں

اب نہ دیکھ پاؤں گا

ملک کا یہ بٹوارا

لے  گیا کہاں  اس کو

ڈیوڑھی کا سنّاٹا

 اور  ہماری سرگوشی

مجھ سے  کتنے  چھوٹے  ہو‘‘  

میں  نے  کچھ کہا تھا پھر

اس نے  کچھ کہا تھا پھر

ہے  رقم کہاں  وہ سب

درد کی گراں  جانی

میری شعلہ افشانی

اس کی جلوہ سامانی

ہے  رقم کہاں  وہ اب

کرب زیست سب میرا

گفتگو کا ڈھب میرا

اس کا ہاتھ ہاتھوں  میں

لے  کے  جب میں  کہتا تھا

اب چھڑاؤ تو جانوں

رسم بے  وفائی کو

آج معتبر مانوں

اس کو لے  کے  با ہوں  میں

جھک کے  اس کے  چہرے  پر

بھینچ کر کہا تھا یہ

بولو کیسے  نکلو گی

میری دسترس سے  تم

میرے  اس قفس سے  تم

بھورے  بادلوں  کا دل

دور اُڑتا جاتا ہے

پیڑ پر کہیں  بیٹھا

اِک پرند گاتا ہے

’چل چل‘  اِک گلہری کی

کان میں  کھٹکتی ہے

ریل چلنے  لگتی ہے

راہ کے  درختوں  کی

چھاؤں  ڈھلنے  لگتی ہے

’مجھ سے  کتنے  چھوٹے  ہو‘

 اور  مری گراں  گوشی

ڈیوڑھی کا سنّاٹا

 اور  ہماری سرگوشی

ہے  رقم کہاں  وہ سب؟

دور اس پرندے  نے

اپنا گیت دُہرایا

’آج ہم نے  اپنا دل

خوں  کیا ہوا دیکھا

گم کیا ہوا پایا‘‘  

 

            جو لوگ یہ سمجھتے  ہیں  کہ رومانیت میں  توازن نہیں  ہوتا، اہم آہنگی نہیں  ہوتی، انھیں  اس نظم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ماضی ایک خواب آلود کیفیت لیے  اُبھرتا ہے اور کچھ سچائیاں  ان میں  جگنو کی مانند چمکنے  لگتی ہیں۔ یادوں  نے  ایک خوبصورت سی تمثیل پیش کر دی ہے، اختر الایمان نے  فطری مکالموں اور سوچ  اور  یادوں  کے  لمحوں  سے  ایک رومانی فضا خلق کر دی ہے، ڈاسنہ اسٹیشن کا نام سنتے  ہی مسافر کی یادیں  جاگ پڑتی ہیں، بات پرانی ہو گئی لیکن تمثیل حقیقت کی تازگی لیے  ہوئے  ہے۔ جذبے  کی رعنائی متاثر کرتی ہے۔

            درد اختر الایمان کی نظموں  کی روح ہے، ان کا جوہر ہے، درد سے  پرے  کوئی زندگی بھی تو نہیں  ہے، ایک سنّاٹا ہے، احساس و ادراک کی موت ہے، انسان دوستی کا جذبہ ہو یا محبوب کی یاد کے  لمحے  ہوں، درد موجود ہے، زندگی درد سے  عبارت ہے:

 

درد کی حد سے  پرے  کچھ بھی نہیں  جس کا نشان

درد کی حد سے  پرے  سوچ لو تم کچھ بھی نہیں

ایک سنّاٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت

درد کی حد سے  پرے  کچھ بھی نہیں  جان کہیں

درد کی حد سے  پرے  کوئی گیا بھی تو نہیں!

            اختر الایمان کی رومانیت میں  انسان  اور  جدید انسان کی زندگی کا المیہ نمایاں  حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح یادوں  کے  لمحوں  کا درد شدت سے  متاثر کرتا ہے، درد کے  بغیر وہ زندگی کا تصور بھی نہیں  کر سکتے:

 

درد کی حد سے  پرے  کوئی نہیں  جا سکتا

درد کی حد سے  پرے  سوچ لو تم کچھ بھی نہیں

ایک سنّاٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت

یہ کرہ، گھومتی پھرتی یہ ستم کوش زمیں

خاک  اور  آب کا اِک گولا ہے  بے  رونق سا

آؤ چھپ جائیں، چلو موت کے  ڈر سے  بھاگیں

تم مری بانہوں  میں، میں  زلفوں  میں  چھپ جاؤں  یہیں

 اور  اس درد کا اظہار کریں

زندگی جس سے  عبارت ہے  تمام

درد کی حد سے  پرے  سوچ لو تم کچھ بھی نہیں

گرمیِ عشق، یہ بوسوں  کی حرارت، یہ سگندھ

جو پسینہ میں  ہے  یہ جھرجھری جو تم نے  ابھی

سینہ کو چھونے  سے  لی، سب یہ سمو لینے  کی بھوک

جسم کے  ٹوٹنے  اِک نشہ میں  گھل جانے  کا رس

رنگ میں، نغموں  میں اور لمس میں  ڈھلنے  کی ہوس

سال، صدیاں  یہ قرن، ماہ، یہ لمحے، یہ نفس

کیف، بہجت، خوشی، تسکین، مسرت سب کچھ

سب یہ اس واسطے  ہے  درد ہے  ساتھی ہر وقت

درد پیمانہ ہے  ہر چیز کا اس دنیا میں

زیست اِک واہمہ ہے  ذات کے  ہونے  کا گماں

درد کی حد سے  پرے  کچھ بھی نہیں  جس کا نشاں

درد کی حد سے  پرے  سوچ لو تم کچھ بھی نہیں

ایک سنّاٹا ہے  احساس کی ادراک کی موت

درد کی حد سے  پرے  کچھ بھی نہیں  جان کہیں

درد کی حد سے  پرے  کوئی گیا بھی تو نہیں!

 

            ’اتفاق‘  میں  درد کے  اندر سے  ایک آرزو، کلی کی مانند چٹکتی ہے، رومانی رجحان کی وجہ سے  یہ خوبصورت تجربہ توجہ طلب بن جاتا ہے:

 

دیار غیر میں  کوئی جہاں  نہ اپنا ہو

شدید کرب کی گھڑیاں  گزار چکنے  پر

کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں

کسی اِک ایسی جگہ سے  ہو یوں ہی میرا گزر

جہاں  ہجوم گریزاں  میں  تم نظر آ جاؤ

 اور  ایک ایک کو حیرت سے  دیکھتا رہ جائے!

 

            ’برندابن کی گوپی‘  میں  کسی کی یاد آتی ہے  تو خوشبو سی پھیل جاتی ہے، یاد ایک فضا خلق کر دیتی ہے، درد موجود ہے، بہت وقت گزر گیا ہے۔ ’’میں  تمھیں  جانتا ہوں  نام نہیں  یاد آتا!‘‘  رومانی ذہن نے  کسی کی یاد کو مجسم کر دیا ہے:

 

تم مرے  ذہن میں  یوں  آتی ہو جیسے  خوشبو

گیت جھرنوں  کے، صبا، دور کھنکتی چھاگل

بے  خبر بہتی ہوئی ندیا، اُمنڈتی بدری

سات رنگوں  کی دھنک، آنکھوں  میں  پھیلا کاجل

کنج میں  چھپ کے  چہکتی ہوئی شاما کوئی

گدگدی، لوری، کوئی پیار میں  بھیگا آنچل

جھیل ڈوبی ہوئی جلوؤں  میں  اُبھرتے  دن کے

لاکھ طوفان اٹھیں  جس میں  نہ جاگے  ہل چل

تم مری طفلی کا دیکھا ہوا اِک خواب سا ہو

ایک اُجالا ہو جو نظروں  کو بھلا لگتا ہے

اِک گھنی چھاؤں  ہو بیٹھا ہوں  جہاں  میں  پہروں

میں  تمھیں  جانتا ہوں  نام نہیں  یاد آتا!

(بنتِ لمحات)

 

کون سے  موڑ پہ چھوڑے  گی مجھے  کچھ تو بتا

اے  مری گرمیِ جذبات کہاں  تک جاؤں

(کہاں  تک)

 

ایک پہیہ ہوں  میں  گشت کرتا ہوا

روح پیاسی تھی ویسی ہی پیاسی رہی

میرے  عزم سفر نے  مجھے  کیا دیا فاصلہ

شرق سے  غرب تک ایک پھیلا ہوا فاصلہ، فاصلہ!

(تلاش کی پہلی اُڑان)

 

یہ درد زندگی کس کی امانت ہے  کسے  دے  دوں

کوئی وارث نہیں  اس کا متاع رائیگاں  ہے  یہ

مسیحا اب نہ آئیں  گے  یہی نشتر رگ جاں  میں

خلش بنتا رہے  گا میری سانسوں  میں  نہاں  ہے  یہ

(متاع رائیگاں )

 

درد کی حد سے  پرے  کوئی نہیں  جا سکتا

درد کی حد سے  پرے  سوچ لو تم کچھ بھی نہیں

ایک سنّاٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت

(درد کی حد سے  پرے )

 

مرے  اندر، اسیر زخمی پرندہ ہے  اِک، نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے  یہ حبس دم ہے  خائف ہے

ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے  بچا لو اسے

(سبزۂ بیگانہ)

 

گماں  گزر نے  لگا ہم کھڑے  ہیں  صحرا میں

فریب کھانے  کی جا رہ گئی نہ سپنے  رہے

نظر اُٹھا کے  کبھی دیکھ لیتے  تھے  اوپر

نہ جانے  کون سے  اعمال کی سزا ہے  کہ آج

یہ واہمہ بھی سر پہ آسماں  ہے  کوئی

(بے  چارگی)

 

یہ نیا طرزِ وفا، تم نے  جو سیکھا ہے  ابھی

کچے  شیشے  کی طرح ٹوٹ کے  ریزہ ہو جائے

 اور  تم مجھ سے  ہر اِک خوف کو ٹھکراتے  ہوئے

چیخ کر ایسے  لپٹ جاؤ، کلیجہ پھٹ جائے

(اذیت پرست)

 

کہاں  گئے  کہ یہاں  اجنبی ہیں  سب ساتھی

وہ سایہ دار شجر جو سنا تھا راہ میں  ہیں

سب آندھیوں  نے  گرا ڈالے  اب کہاں  جائیں

یہ بوجھ  اور  نہیں  اٹھتا کچھ سبیل کرو

چلو ہنسیں  گے، کہیں  بیٹھ کر زمانے  پر

(ایک احساس)

 

             اور  دوسری کئی نظمیں  درد کا نغمہ بن گئی ہیں۔ رومانیت نے  درد کے  آہنگ کو تیز کر دیا ہے۔ یہ سب خوبصورت نظمیں  ہیں۔ مزاج میں  درد کی شدت پیدا ہوئی ہے  تو یہ تجربے  سامنے  آئے  ہیں:

 

۔۔۔ چیخو

اتنا چلاّؤ کہ اِک شور سے  بھر جائے  فضا

گونج الفاظ کی کانوں  میں  دھُواں  سا بن جائے

ایک دھنی روئی سی بن جائیں  عقائد سارے

فلسفے، مذہب و اخلاق، سیاست، سارے

ایسے  گتھ جائیں  ہر اِک اپنی حقیقت کھودے

ایسا اِک شور بپا کر دو کوئی بات بھی واضح نہ رہے

ذرہ جب ٹوٹا تھا تخلیق زمیں  سے  پہلے

ابتری پھیلی تھی، واضح نہ تھی کچھ بھی، ہر شے

اِک دھنی روئی کی مانند اُڑی پھرتی تھی

خود کو کم مایہ نہ سمجھو اٹھو توڑو یہ سکوت

پھر نئے  دور کا آغاز ہو تاریکی سے!

 

            اختر الایمان کی نظموں  میں  درد کی دھیمی دھیمی کیفیت بھی ہے اور درد کی شدت بھی۔ یہ شاعری اپنی اعلیٰ  اور  عمدہ خصوصیات کے  ساتھ رومانیت کا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے! ماضی  اور  یادوں  کے  آئینوں  میں  اختر الایمان کا رومانی ذہن حد درجہ متحرک ہے۔ رومانی شاعر جس طرح ماضی سے  گہری دلچسپی لیتا ہے، اسی طرح ذاتی زندگی کے  آئینوں  میں  اپنی بعض یادوں  کے  سلسلے  سے  بھی دلچسپی لیتا ہے۔ ’یادیں ‘  کے  پیش لفظ میں  اختر الایمان نے  تحریر کیا ہے:

 ’’یادیں  تلخ  اور  شیریں۔ یادیں  ماضی قریب کی  اور  ماضی بعید کی، یادیں  ان کی جنھیں  میں  نے  عزیز رکھا  اور  ان کی جنھوں  نے  مجھے  عزیز نہیں  رکھا، یادیں  ان مذہبی  اور  سیاسی عقیدوں  کی جنھوں  نے  انسان کو پر کاہ سے  زیادہ نہیں  سمجھا۔ یادیں  اس معاشرے  سے  وابستہ جہاں  اخلاقی قدروں  میں  ٹکراؤ ہے اور اعلیٰ قدریں  ایک دوسرے  کی ضد ہیں  یہ  اور  ایسی بہت سی یادیں  میری زندگی ہیں اور میری زندگی میں  ان اخلاقی  اور  معاشی قدروں  کا عمل ردِّ عمل میری شاعری ہے۔‘‘  

آگے  تحریر کرتے  ہیں:

 ’’جو کچھ میں  نے  لکھا ہے  وہ اس وقت نہیں  لکھا جب ان تجربات  اور  محسوسات کی منزل سے  گزر رہا تھا جو میری نظموں  کا موضوع ہیں، انھیں  اس وقت قلمبند کیا ہے  جب وہ تجربات  اور  محسوسات یادیں  بن گئے  تھے، جب ہر نشتر کے  لگائے  ہوئے  زخم مندمل ہو گئے  تھے، ہر طوفان گزر کر سطح ہموار ہو گئی تھی  اور  ہر رفتہ  اور  گزشتہ تجربہ کی صدائے  باز گشت مجھے  یوں  محسوس ہو رہی تھی جیسے  میں  ان سے  وابستہ بھی ہوں اور نہیں  بھی۔ یہی وجہ ہے  میری بیشتر شاعری میں  ایک یادسا رنگ ہے اور یہ شاعری بیک وقت داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔‘‘  

            ’باز آمد‘   اور  ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘  اختر الایمان کی دو ایسی نمائندہ نظمیں  ہیں  جو  محبت  اور  پسندیدگی کے  احساس  اور  تجربے  کو پیش کرتی ہیں، خوبصورت یادوں  کو تازہ کرتی ہیں، دونوں  نظموں  کی تکنیک پرکشش ہیں۔ مکالموں  کا حسن نظموں  کو  اور  بھی جاذب نظر بنا دیتا ہے:

 

 ’’ اور  وہ برگد کا گھنا پیڑ کنارے  اس کے؟

وہ بھی قائم ہے  ابھی تک یوں ہی!

وعدہ کر کے  جو حبیبہ نہیں  آتی تھی کبھی

آنکھیں  دھوتا تھا ندی میں  جا کر

 اور  برگد کی گھنی چھاؤں  میں  سو جاتا تھا

 

ایک نے  گیند جو پھینکی تو لگی آ کے  مجھے

میں  نے  جا پکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی

کس کا ہے  میں  نے  کسی سے  پوچھا

یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا

بھولی صورت پہ ہنسی آ گئی اس کی مجھ کو

وہ بھی ہنسنے  لگا، ہم دونوں  یوں ہی ہنستے  رہے 

دیر تک ہنستے  رہے!

۔۔۔۔۔۔۔

قیصر اب نہیں  رہتی

وہ بڑی بڑی آنکھیں

اب نہ دیکھ پاؤں  گا

ملک کا یہ بٹوارا

لے  گیا کہاں  اس کو

ڈیوڑھی کا سنّاٹا

 اور  ہماری سرگوشی

 ’’مجھ سے  کتنے  چھوٹے  ہو‘‘  

 

اس کا ہاتھ ہاتھوں  میں

لے  کے  جب میں  کہتا تھا

اب چھڑاؤ تو جانوں

رسم بے  وفائی کو

آج معتبر مانوں

اس کو لے  کے  با ہوں  میں

جھک کے  اس کے  چہرے  پر

بھینچ کر کہا تھا یہ

بولو کیسے  نکلو گی؟

میری دسترس سے  تم!

 

            وقت  اور  لمحوں  کے  تجربوں  میں  اختر الایمان کی رومانیت متاثر کرتی ہے۔ ان کے  احساس جمال کی بھی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے  جذباتی  اور  نفسی پیکر بھی توجہ طلب بن جاتے  ہیں، ایک لڑکا، مسجد، موت، آمادگی، لغزش، یادیں، آگہی، شکست خواب، کی رومانیت میں  ایک مضطرب  اور  بے  چین ذہن ملتا ہے۔ ان نظموں  میں  ماضی کے  کھنڈروں  کا جمال بھی ہے اور تیزی سے  گزرتے  ہوئے  وقت کا حسن بھی۔ ماضی کے  لمحات شعور  اور  لاشعور میں  موجود ہیں:

 

جب حنائی انگلیوں  کی جنبشیں  آتی ہیں  یاد

کس قدر تیزی سے  یہ باتیں  پرائی ہو گئیں

اِک فسانہ ہے  جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

۔۔۔۔۔۔۔

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

مرے  لبوں  پر سلگ رہا ہے  طویل زلفوں  کا ایک بوسہ

۔۔۔۔۔۔۔

مرے  تخیل کی تنگ دنیا ترے  تصور سے  ہے  فروزاں

۔۔۔۔۔۔۔

ذہن نے  کھولی، رُکتے  رُکتے  ماضی کی پارینہ کتاب

۔۔۔۔۔۔۔

 

            ماضی کی جمالیات میں  یادوں  کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مندرجہ ذیل مثالوں  سے  ماضی کے  حسن سے  رومانی ذ ہن کی وابستگی کی پہچان ہو جاتی ہے:

 

یاد کی سبز پریاں

گھنے  جنگلوں، لالہ زاروں، پہاڑوں، بھری وادیوں  سے  گزرتی

کہیں  قاف ماضی کے  نمناک غاروں  میں  روپوش ہونے  لگی ہیں

(آخر شب)

 

جب حنائی انگلیوں  کی جنبشیں  آتی ہیں  یاد

جذب کر لیتا ہوں  آنکھوں  میں  لہو کی بوند سی

اب مگر ماضی کی ہر شئے  پر اندھیرا چھا گیا

 اور  ہی را ہوں  سے  گزری جا رہی ہے  زندگی

ذہن میں  ابھرے  ہوئے  ہیں  چند بیجاں  سے  نقوش

 اور  ان میں  بھی نہیں  ہے  کوئی ربط باہمی

یہ بھیانک خواب کیوں  مغلوب کرتے  ہیں  مجھے

دودھیا راتیں  سحر کے  جھٹپٹے  میں  کھو گئیں

 اور  تیری نرم بانہیں، مجھ سے  اب ناآشنا

 اور  ہی گردن کے  حلقے  میں  لپٹ کر سو گئیں

مسکرا اٹھتا ہوں  اپنی سادگی پر میں  کبھی

کس قدر تیزی سے  یہ باتیں  پرائی ہو گئیں!

(لغزش)

 

مری تنہائیاں  مانوس ہیں  تاریک راتوں  سے

مرے  رخنوں  میں  ہے  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

زمانہ جب گزرتا ہے  بدل لیتا ہے  پیراہن

 

یہاں  سرگوشیاں  کرتی ہے  ویرانی سے  ویرانی

فسردہ شمع امید و تمنّا لو نہیں  دیتی

یہاں  کی تیرہ بختی پر کوئی رونے  نہیں  آتا

یہاں  جو چیز ہے  ساکن، کوئی کروٹ نہیں  لیتی

 

یہاں  اسرار ہیں، سرگوشیاں  ہیں، بے  نیازی ہے

یہاں  مفلوج تر ہیں  تیز تر بازو ہواؤں  کے

یہاں  بھٹکی ہوئی روحیں  کبھی سر جوڑ لیتی ہیں

یہاں  پر دفن ہیں  گزری ہوئی تہذیب کے  نقشے

(پرانی فصیل)

 

میرے  شانوں  پہ ترا سر تھا نگاہیں  نم ناک

اب تو اِک یاد سی باقی ہے  سو وہ بھی کیا ہے

(تنہائی میں )

 

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر

یوں ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  تنہا بیٹھا

کہیں  کسی کا ماس نہ ہڈی، کہیں  کسی کا رُوپ نہ چھایا

کچھ کتبوں  پر دھندلے  دھندلے  نام کھدے   ہیں  میں  جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں  ہی کو اپنے  من کا بھید بنا کر

مستقبل  اور  حال کو چھوڑے، دُکھ سکھ سب میں  لیے  پھرا ہوں!

ماضی کی گھنگھور گھٹا میں  چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں

کس کی یاد چمک اُٹھی ہے  دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر؟

بیٹھا قبریں  کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اِک مورت

درد سا بن کر ایک اِک سایا، جاگ رہے  ہیں، دور کہیں  سے

آوازیں  سی کچھ آتی ہیں، گزرے  تھے  اِک بار یہیں  سے

(پس منظر)

 

غم دیدہ پسماندہ راہی تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

پاؤں  راہ کے  رخساروں  پر دھندلے  نقش بنا دیتے  ہیں

آنے  والے اور مسافر پہلے  نقش مٹا دیتے  ہیں

وقت کی گرد میں  دبتے  دبتے  ایک افسانہ ہو جاتے  ہیں

راہ کے  پیچ و خم میں  اپنا دامن کوئی کھینچ رہا ہے

فردا کا پر پیچ دھندلکا ماضی کی گھنگھور سیاہی

یہ خاموشی، یہ سنّاٹا، اس پر اپنی کور نگاہی

ایک سفر ہے  تنہا راہی، جو سہنا تھا خوب سہا ہے

(پگڈنڈی)

 

چند لمحے  جو ترے  ساتھ گزارے  میں  نے

ان کی یاد ان کا تصور ابھی رخشندہ نہیں

تو ابھی چھائی نہیں  مجھ پر، مری دنیا پر

خود ترا حسن مرے  ذہن میں  تابندہ نہیں

کیا خبر کل مجھے  یکسر ہی بدل ڈالے  تو

یوں  ترا حسن، مرا شوق بھی پایندہ نہیں

دیکھ میں  ہوش میں  ہوں  اے  غم گیتی کے  شعور

تیرے  ملنے  کی تمنّا لیے  آنکھوں  میں  کہاں

اپنے  ظلمت کدے  اے  جان، سنوارے  میں  نے

غم چشیدہ مرے  جذبات میں  جذبہ پنہاں

اب کہاں  پہلے  گزاریں  کئی راتیں  میں  نے

جن میں  افسانے  کہے  چاند سے  افسانے  سنے

اب کہاں، پہلے  برس گزرے، کسی مہوش کی

چاہ میں  کتنے  ہی ہنگام سحر گیت بنے

اب مگر تاب کہاں  مجھ میں  یہ انگور کی بیل

خون چاہے  گی رگ و پے  میں  سما جائے  گی

(اعتراف)

 

رنگوں  کا چشمہ سا پھوٹا ماضی کے  اندھے  غاروں  سے

سرگوشی کے  گھنگھرو کھنکے  گردو پیش کی دیواروں  سے

یاد کے  بوجھل پردے  اٹھے، کانوں  میں  جانی انجانی

لوچ بھری آوازیں  آئیں  جیسے  کوئی ایک کہانی

دور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا پھولوں  سے  کہتا ہو

جیسے  جھرنا قطرہ قطرہ رس رس کر بہتا رہتا ہو

مدت بیتی ان باتوں  کو مضطر آج تلک رہتا ہے

دست ہویدا کا دیوانہ تند بگولوں  سے  کہتا ہے

آگ ہے  میرے  پاؤں  کے  نیچے  دکھ سے  چور مری نس نس ہے

ایک دفعہ دیکھا ہے  اس کو ایک دفعہ کی  اور  ہوس ہے

(شفقی)

 

یوں  ہی بیٹھا رہا، دیکھا کیا ہوتے  تحلیل

پل کو گھڑیوں  میں، دنوں  سالوں  میں  لمحات جمیل

زخم بنتے  گئے، ناسور بنے، اشک بنے

جیسے  ہم گردش پر کار تھے  ویسے  ہی رہے

ناچتا رہتا ہے  آگے  سحر و شام یوں ہی

لوح تدبیر پہ لکھا ہوا اِک حرف ’نہیں ‘

(پس دیوار چمن)

 

برسوں  کی بات ہے  کہ مرے  جی میں  آئی تھی

میں  سوچتا تھا تجھ سے  کہوں، چھوڑ کیا کہوں

اب کون ان شکستہ مزاروں  کی بات لائے

ماضی پہ اپنے  حال کو ترجیح کیوں  نہ دوں

ماتم خزاں  کا ہو کہ بہاروں  کا، ایک ہے

شاید نہ پھر ملے  تری آنکھوں  کا یہ فسوں!

(آخری ملاقات)

 

ماہ و سال آتے  چلے  جاتے  ہیں

فصل پک جاتی ہے  کٹ جاتی ہے

کوئی روتا نہیں  اس موقع پر

حلقہ در حلقہ نہ آہن کو تپا کر ڈھالیں

کوئی زنجیر نہ ہو

زیست در زیست کا یہ سلسلہ باقی نہ رہے

(باز آمد)

 

عمر یوں  مجھ سے  گریزاں  ہے  کہ ہر گام پہ میں

اس کے  دامن سے  لپٹتا ہوں  مناتا ہوں  اسے

واسطہ دیتا ہوں  محرومی و ناکامی کا

داستاں  آبلہ پائی کی سناتا ہوں  اسے

خواب ادھورے  ہیں  جو دہراتا ہوں  ان خوابوں  کو

زخم پنہاں  ہیں  جو وہ زخم دکھاتا ہوں  اسے

اس سے  کہتا ہوں  تمنّا کے  لب و لہجے  میں

اے  مری جان مری لیلیٰ تابندہ جبیں

سنتا ہوں  تو ہے  مری پیکر و فرخندہ جمال

سنتا ہوں  تو ہے  مہ و مہر سے  بھی بڑھ کے  حسیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  کہ ابھی تک میں  نے

جاننا تجھ کو کجا، پاس سے  دیکھا بھی نہیں

(عمر گریزاں  کے  نام)

 

تجھ سے  وابستہ وہ اِک عہد، وہ پیمان وفا

رات کے  آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا

خواب انگیز نگاہیں  وہ لب درد فریب

اِک فسانہ ہے  جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

میرے  دامن میں  نہ کلیاں  ہیں  نہ کانٹے، نہ غبار

شام کے  سائے  میں  واماندہ سحر بیٹھ گئی

کارواں  لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق

ایک امید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی

(محرومی)

 

میرے  دامن پہ کئی اشک ہیں  اب تک تازہ

میرے  شانوں  پہ وہی جنبش سر ہے  اب بھی

میرے  ہاتھوں  کو ہے  احساس انھیں  ہاتھوں  کا

میری نظروں  میں  وہی دیدۂ تر ہے  اب بھی

آج آہٹ بھی نہیں، کوئی اشارہ بھی نہیں

کسی ڈھلکے  ہوئے  آنچل کا سہارا بھی نہیں

(ایک یاد)

 

لو وہ چاہ شب سے  نکلا، پچھلے  پہر پیلا مہتاب

ذہن نے  کھولی رُکتے  ماضی کی پارینہ کتاب

یادوں  کے  بے  معنی دفتر، خوابوں  کے  افسردہ شہاب

سب کے  سب خاموش زباں  سے  کہتے  ہیں  اے  خانہ خراب

گزری بات صدی یا پل ہو،گزری بات ہے  نقش بر آب

یہ روداد ہے  اپنے  سفر کی اس آباد خرابے  میں

دیکھو ہم نے  کیسے  بسر کی اس آباد خرابے  میں

ساری ہے  بے  ربط کہانی دھُندلے  دھُندلے  ہیں   اور  اق

کہاں  ہیں  وہ سب جن سے  جب تھی پل بھر کی دوری بھی شاق

کہیں  کوئی ناسور نہیں، گو حائل ہے  برسوں  کا فراق

وہ بھی ہم کو رو بیٹھے  ہیں، چلو ہوا قرضہ بے  باق

کھلی تو آخر بات اثر کی اس آباد خرابے  میں

دیکھو ہم نے  کیسے  بسر کی اس آباد خرابے  میں

(یادیں )

 

            ماضی  اور  یادوں  کے  تعلق سے  یہ شعری تجربے  ماضی کی جمالیات کے  عمدہ تجربے  ہیں۔ مسرت  اور  غم انبساط  اور  پیتھوس کے  ملے  جلے  جذبات متاثر کرتے  ہیں۔ اختر الایمان نے  ماضی کی یادوں  میں  ڈوبنے  کے  باوجود  اور  ماضی کی تلخیوں اور بدلتے  لمحوں  کو محسوس کرتے  ہوئے  زندگی کے  حسن و جمال، زندگی کے  تسلسل  اور  ارتقاء کو نظر انداز نہیں  کیا ہے۔ یہ تلاش جمال ہے، عموماً خوبصورت  اور  حسین لمحوں  کی تلاش  اور  ان کی یادیں، خوبصورت قدروں  کی تلاش، خوبصورت قدروں  کی یادیں۔ ماضی کی تلخیوں اور بدلتے  ہوئے  لمحوں  کو محسوس کرتے  ہوئے  زندگی کے  اچھے  مستقبل پر ان کا اعتماد ہے۔ وقت کے  بہتے  تیز دھاروں  کو پہچانتے  ہیں، ان سے   محبت کرتے  ہیں، ان میں  جذب ہو جانا چاہتے  ہیں۔ ماضی سے  وابستگی فرد  اور  اس کے  معاشرے  کے  رشتے  کو مضبوط کرتی ہے۔ زندگی کے  بحران  اور  انتشار کو پرچھائیوں  کے  انتشار  اور  بحران میں  تبدیل کر نے  کا یہ فنکارانہ عمل ہے۔ ماضی  اور  محبوب دونوں  ’میڈیم‘  میں، ان میں  اس عہد کا وژن ہے۔ ماضی  اور  خوابوں اور یادوں  کی یہ دنیا نئے  عہد کے  ہیجانات کو سمجھا رہی ہے۔ زندگی کی بعض حقیقتوں  کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ اختر الایمان کی رومانیت  اور  ان کا بنیادی المیہ رجحان ہر جگہ موجود ہے۔ المیہ رجحان نے  حال  اور  ماضی کو ایک دوسرے  میں  جذب کر دیا ہے اور قدروں  کے  تئیں  بیدار کیا ہے۔

            اختر الایمان کی شاعری میں  اس عہد کے  دو بنیادی رجحانات اچھی طرح پہچانے  جاتے  ہیں، ایک رجحان وہ جسے  جیمس جوائس نے  ’ایپی فینی‘  (Epiphany) کا نام دیا ہے، گزرتے  لمحوں اور حال کو پکڑنے  کی کوشش، وقت  اور  احساس کو ایک دوسرے  میں  جذب کر دینے  کا عمل۔۔۔ گزرتے  لمحے  کو فوراً احساس کا لمحہ بنا دینا!

             اور  ۔۔۔ دوسرا رجحان وہ جسے  ہم پراؤست کے  آرٹ میں  پاتے  ہیں، گزرا ہوا لمحہ، ماضی کا لمحہ، حال کا لمحہ بن جاتا ہے اور پھر فوراً ہی ماضی کا لمحہ بن جاتا ہے!

            آپ یہ بھی کہہ سکتے  ہیں  کہ اختر الایمان کی شاعری میں  ماضی بھی، حال ہے۔ حال، کا تسلسل ہی سب کچھ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے  ہیں  کہ ماضی حال میں  جذب ہے۔ وہ خوبصورت ماضی  اور  چبھتے  ہوئے  لمحوں  میں  ’حال‘  کے  تسلسل کو دیکھتے  ہیں، یہ شاعری داخلی لمحوں  کے  احساس کو صرف الفاظ میں  پیش نہیں  کرتی بلکہ داخلی لمحوں  کے  احساس کو پیکروں  میں  بھی تبدیل کرتی رہتی ہے۔

            داخلی لمحوں  کی دنیا میں  ماضی، حال  اور  مستقبل سب ایک دوسرے  سے  مل جاتے  ہیں، یہ پیکر حسیاتی ہوتے  ہیں اور مختلف رجحانات کے  آئینے  بن جاتے  ہیں، آوازوں، خوشبوؤں، تاریکیوں اور اُجالوں  کے  احساسات میں  ماضی  اور  حال کی میکانکی تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔ 

**

لاشعور کی عکس ریزی

اختر الایمان کی نظموں  میں  لاشعور کی عکس ریزی کا مطالعہ کیجیے  تو رومانی جمالیاتی خصوصیات کا احساس  اور  زیادہ ہو گا۔ لاشعور میں  فرد کے  ذاتی تجربوں  کے  ساتھ پوری نسل انسانی کے  تجربے  بھی ہوتے  ہیں۔ وقت ماضی، حال  اور  مستقبل میں  تقسیم نہیں  ہوتا، جذبات  اور  حسیات میں  وقت کی کوئی حد قائم نہیں  ہوتی، اجتماعی لاشعور وراثتی سرمایہ کا نام ہے، یہاں  تجربات، توہمات  اور  تحیرات کی وہ کائنات ہے  کہ جس میں  پوری نسلِ انسانی سانس لے  رہی ہے۔

            ’آرچ ٹائپ‘  (Archetype) کا کردار بہت جذباتی  اور حسیاتی ہوتا ہے  اس کردار کی تشکیل میں  جانے  کتنی نفسی کیفیتوں  کا دخل ہوتا ہے، نفسی کیفیت کی پہچان مشکل  اور  بہت حد تک ناممکن ہے۔ ایک ’آرچ ٹائپ‘  سے  بہت سے  حسی  اور  نفسیاتی تصوّرات  اور  پیکر وابستہ ہوتے  ہیں  اس کا کردار متحرک ہوتا ہے۔ انسان کی تاریخ  اور  انسانی شعور کی ارتقائی منزلوں اور کیفیتوں  میں  اس کی پہچان ہوتی ہے۔ پوری شخصیت ’آرچ ٹائپس‘  کا اظہار ہے، مختلف رجحانات میں  اس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔

            انسانی شعور پسند کرے  یا نہ کرے، اس بنیادی کردار کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے  اثرات ہوتے  رہتے  ہیں، لاشعور میں  ان کی ایک دنیا آباد ہے۔ نظامِ نفسی کے  پیچیدہ عمل سے  شعور  اور  لاشعور میں  بہت سے  حسی  اور  نفسی پیکر بنتے  رہتے  ہیں، ان کی صورتیں  بدلتی رہتی ہیں۔

            فنکار کی شخصیت میں  ’آرچ ٹائپس‘  کی تو انائی موجود رہتی ہے، رجحانات میں  اس کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ اکثر اس سچائی کا پتہ ہی نہیں  چلتا کہ فنکار کے  تصوّرات میں  حسی پیکروں  کی کون سی صورتیں  موجود ہیں اور عمل کر رہی ہیں۔ فنکار خود بھی اپنے  لاشعوری حسی پیکروں  سے  بے  خبر رہتا ہے، وہ نہیں  جانتا وہ چند خاص تصوّرات کیوں  پیش کر رہا ہے اور تجربوں  کے  لیے  بعض خاص علامتوں  کا انتخاب کیوں  کر رہا ہے۔ علامتوں  کے  پیچھے  حسی پیکروں  یا ’آرچ ٹائپس‘  کی تو انائی کام کرتی رہتی ہے۔ ’راستہ‘  ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے، ممکن ہے  ما قبل تاریخ برف کے  زمانے  میں  اُبھرا ہو۔ ’راستے ‘  نے  قدیم انسان کو پہاڑوں  تک پہنچایا، غاروں  تک راہ دِکھائی پھر قدیم عبادت گا ہوں  کی تعمیر ہوئی، جانور قربان کیے  گئے۔ قربانی کی اہمیت کا احساس اتنا بڑھا کہ اس کے  بغیر زندگی کا تصوّر موت کا تصوّر بن گیا۔ غاروں  میں  مصوّری نے  جنم لیا، ’راستہ‘  مشکل بھی تھا  اور  خطرناک بھی، غاروں  تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ آ ج تک اس ’آرچ ٹائپ‘  کا عمل جاری ہے۔ پہاڑوں  پر مندروں اور عبادت گا ہوں  کی تعمیران عبادت گا ہوں  تک پہنچنے  کا عزم، دُشوار  اور  مشکل راستوں  سے  راہبوں، سادھوؤں اور عقیدت مندوں  کا جانا، مذہبی عقیدوں  میں  شامل ہے، یہ بھی عبادت ہے۔ اس پورے  شعوری عمل کے  پیچھے  راستے  کا قدیم ’آرچ ٹائپ ‘  موجود ہے۔ قدیم حسی پیکر عمل کر رہا ہے، اس شعوری عمل کی تاریخ مصر، جاوا  اور  ہندوستان سے  شروع ہوتی ہے۔ کشمیر میں  امر ناتھ یاترا اِس کی عمدہ مثال ہے۔ امرناتھ یاترا  اور  Christ Cavalry اس ’آرچ ٹائپ‘  کی ترقی یافتہ صورتیں  ہیں۔ ان راستوں  پر چلتے  ہوئے اور منزلِ مقصود تک پہنچتے  ہوئے  گنا ہوں  سے  نجات ملتی ہے، ہر قدم پر ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ نے  کہا تھا ’میں  راستہ ہوں!‘  اس عہد میں  اس ’آرچ ٹائپ‘  کی ایک نئی صورت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی ایک نئی علامتی سطح اُبھر آئی ہے۔ اس کی آفاقی حیثیت سے  انکار ممکن نہیں۔ اس عہد کے  شعور میں  اس آرچ ٹائپ کی آفاقیت کی پہچان مشکل نہیں، ’آرچ ٹائپ‘  یا حسیاتی پیکر کا اظہار فطری اظہار ہوتا ہے  ’عظیم ماں ‘  کا حسی پیکر بھی ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ اس کی تشکیل میں  بھی جانے  کتنی جبلّتوں اور حسی  اور  نفسی کیفیتوں  کو دخل ہے اور اچھی بری قدروں  کا احساس بھی ہر وقت موجود ہے۔ ’ماں ‘  ممتا کی علامت ہے اور غصّے اور تباہی  اور  نفرت کی علامت بھی۔ ’ماں ‘  ماں  بھی ہے اور ڈائن بھی۔ ’عظیم ماں ‘  (Great Mother)مرکزی حسی پیکر ہے اور اس کے  گرد بہت سے  نسوانی پیکر ہیں، دیویوں  کے  پیکر، پریوں، سمندری شہزادیوں، جادوگرنیوں  کے  پیکر مرکزی پیکر سے لاشعوری طور پر رشتہ قائم کر نے  کی نفسیاتی خواہش موجود رہتی ہے، انسان کی نفسی زندگی پر اس ’آرچ ٹائپ‘  کے  اثرات بہت گہرے  ہیں، ’عظیم ماں ‘  بنیادی قوّت یا ’انرجی‘  ہے۔

            انسان کی ابتدائی زندگی کی تشکیل میں  شعور سے  زیادہ لاشعور کا دخل ہے۔ تصوّرات سے  زیادہ حسی کیفیتوں اور پیکروں  سے  حقائقِ زندگی کو سمجھنے  کی کوشش ہوئی ہے۔ قدیم انسانی زندگی کی تشکیل میں  حسیاتی کیفیتیں  زیاد کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ’ایغو‘  سے  زیادہ جبلّتوں  کا عمل قدیم ہے۔ لاشعور کے  تجربے  شعور کے  تجربوں  سے  زیادہ اہم تھے۔ لاشعوری طور پر دنیا کو جس طرح محسوس کیا گیا اسی کی اہمیت زیادہ ہے، قدیم ترین انسان کی دنیا شعور کی روشنی میں  دیکھی ہوئی کم  اور  لاشعور سے  محسوس کی ہوئی زیادہ ہے۔ اس طور  اور  حسی تصویروں  کے  ذریعے  کائنات کو سمجھنے  کی کوشش ہوئی ہے۔ لاشعور کے  بیساختہ اظہار سے  حقیقتوں  کو پہچانا گیا، اس طرح علامتوں  میں  صرف فرد کی ذہنی کیفیتیں  نہیں  ہوتیں  اجتماعی لاشعور کی بھی کیفیتیں  ہوتی ہیں۔ جب ہم نفسی نظام کہتے  ہیں  تو دراصل پورے  اجتماعی شعور  اور  لاشعور کی جانب اشارہ کرتے  ہیں، آرٹ  اور  شاعری کی علامتوں  کا مطالعہ اس طرح زیادہ دلچسپ ہو جاتا ہے:

 

تمھاری معیت، رفاقت، تگ و دو کا انداز مانگوں

یہ جمِ غفیر ایک سیلِ رواں  زندگی کا جو ’لا‘  سے  نکل کر

اسی ’لا‘  میں  پھر ڈوب جاتا ہے، یہ ریت ہے  یوں  ہی جاری

سمندر جو پھیلا ہے  ہر سمت اُفق سے  اُفق تک

سمندر، جو سفّاک ہے اور طوفاں  سے  لبریز ہے   پر جنوں  ہے

سمندر جو بیباک ہے، جنم داتا ہے اور موت کا نغمۂ سرمدی ہے

یہ سیلِ رواں  جو یوں  بہتا رہتا ہے، اس سیل میں  ڈوب جاؤں

میں  جو ایک قطرہ ہوں، گہرائی، گیرائی کا حجم کا اس کے  بن جاؤں  حصّہ

مجھے  کوئی مکتی نہیں  چاہیے، کوئی نروان کی آرزو، کوئی خواہش تمنّا

کوئی سبیل  اور  کوثر ، نجات و جزا، پر سکوں  کوئی لمحہ

نہیں  یہ صرف امواج کی شورش رائیگاں  چاہیے  یہ  اگر  رائیگاں  ہے

(لوگو اے  لوگو)

 

            وقت  اور  لمحوں  کا یہ تصوّر اس عہد کے  مزاج کو سمجھاتا ہے۔ یہ ’نیا صوفیانہ مزاج‘  ہے۔ نئے  تصوّف کی رومانیت ہے۔ زمانہ  اور  وقت کا رومانی تصوّر سمندر کی علامت میں  اُبھرا ہے۔ سمندر ایک قدیم ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ جدید شعراء نے  اس صدی کی معنویت کو سمجھنے  میں  اس علامت سے  بھی بہت مدد لی ہے۔ سمندر، رحم زندگی بھی ہے  لہٰذا ’ماں ‘  کے  ’آرچ ٹائپ‘  میں  یہ حسی پیکر بھی جذب ہو جاتا ہے۔ زندگی نے  اسی سے  جنم لیا ہے۔ اس کی پرورش اسی سے  ہوتی ہے، زمین کا وجود اسی سے  قائم ہے  سمندر تخلیق کا سرچشمہ ہے۔ مصر کا ایک سب سے  قدیم پیکر ’نن‘  بھی ہے  جسے  ’نو‘  (Nu) بھی کہتے  ہیں۔ سمندر، دریا، چشمہ کا حسیاتی نسوانی پیکر جس نے  غالباً ’پہلی دیوی‘  کی صورت اختیار کر لی۔ (دریائے  نیل کے  انڈے  سے  سورج پیدا ہوا ہے ) سمندر  مردوں  کو اپنے  بچوّں  کی طرح اپنے  بازؤوں  میں  چھپا لیتا ہے۔ زندگی  اور  موت، وقت، زمانہ، ارتقا، ماں، تخلیق، تباہی، تاریکی  اور  روشنی (روشنی کے  دیوتاؤں  کی کشتیاں  سمندر کے  نیچے  چلتی ہیں ) کی یہ معنی خیز علامت ہے۔ ماں  باپ کے  تمام تصوّرات کے  ٹوٹ جانے  کے  بعد ’ماں ‘  کے  حسیاتی پیکر کی تلاش  اور  بڑھ گئی ہے۔ داخلی طور پر ایک رشتہ قائم کر نے  کی کوشش جاری ہے  تاکہ زندگی کا توازن قائم رہے اور نفسی تکمیل ہو سکے۔ اس بنیادی خواہش کا اظہار مختلف انداز سے  ہو رہا ہے، سمندر ’ماں ‘  کا پیکر بھی ہے  تخلیق کا سرچشمہ بھی، وقت  اور  زمانے  کی علامت بھی۔ شاعر پھیلی ہوئی زنجیر سے  ایک کڑی کی طرح ٹوٹ کر رہ جانا نہیں  چاہتا، زندگی کی میکانیت کو توڑ کر سمندر میں  مل جانا چاہتا ہے۔ شاعر زندگی  اور  زمانے  کو پہچانتا ہے۔ اس طرح اُفق سے  اُفق تک ہر سمت پھیلا ہوا ہے، جہاد مسلسل  اور  کشاکش کا نام زندگی  اور  زمانہ ہے۔ وقت سفّاک بھی ہے اور پر جنوں  بھی، بیباک جنم داتا بھی ہے اور موت کا نغمۂ سرمدی بھی، یہ سیلِ رواں  ہے، اس سیل میں  ڈوب جانا چاہتا ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے  کہ تمام سہارے  ٹوٹ گئے  ہیں، اس سمندر کو شاعر نے  اندرونی ذہنی لاشعوری  اور  نفسی زندگی میں  پہچاننے  کی کوشش کی ہے۔ اس رومانی کشمکش  اور  ذہنی تصادم کی پہچان نئے  مزاج  اور  نئی شاعری کے  بنیادی رجحان کی پہچان ہے۔

            اختر الایمان کے  تجربوں  میں  انفرادی  اور  اجتماعی لاشعور کے  نقوش ہیں، مختلف حسی پیکروں اور ا4 اور  ’آرچ ٹائپس‘  کا اظہار مختلف انداز سے  ہوا ہے۔ تاریکی  اور  گہری تاریکی پُر اسرار آوازیں اور آہیں، کھنڈرات، یادوں  کے  سلسلے، جن میں  وقت کا عام تصوّر پگھل جاتا ہے۔۔۔ ’اخترالایمان‘  کی نظموں  میں  یہ تمام باتیں  موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے  اجتماعی یا نسلی لاشعور اپنے  اظہار کے  لیے  بے  چین رہتا ہے۔ تخلیقی آرٹ کا یہ ایک بہت بڑا سرچشمہ ہے۔۔۔ ’اخترالایمان‘  اس طرح ایک بنیادی اساطیری رومانی رجحان کے  ساتھ سامنے  آئے  ہیں:

 

کوئی دروازہ پہ دستک ہے  نہ قدموں  کے  نشاں

چند پرہول سے  اسرار تہہ سایہ دار

 

گہرے  سائے  اندھیرے  دیپک ناچ رہے  ہیں، جاگ رہے  ہیں!

ان پپوٹوں  میں  یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن میں  فردا کا کوئی خواب اُجاگر ہی نہیں

ناچتا رہتا ہے  دو رازوں  کے  باہر یہ ہجوم

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ ودود

 

جیسے  صدیوں  کے  چٹاّنوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصوّر کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

 اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال!

غار کا تصوّر

لاشعور اِک اندھیرا

لاشعور کا اظہار

چٹاّنوں  پر تراشے 

ہوئے  بت

غاروں  سے  رقص کرتے  ہوئے  نکلنے  کا تصوّر

 اور  پھر اندھیرے  میں  جانے  کا خیال

یا کہیں  گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے  میں

جا کے  خوابیدہ فراعین سے  اتنا پوچھوں

ہر زمانے  میں  کئی تھے  کہ خدا ایک ہی تھا

اب تو اتنے  ہیں  کہ حیران ہوں  کس کو پوجوں

                             جذبۂ پرستش

                        گوشۂ اہرام کا سنّاٹا

                            خوابیدہ فراعین

رنگوں  کا چشمہ سا پھوٹا ماضی کے  اندھیرے  غاروں  سے

سرگوشی کے  گھنگھرو کھنکے  گردو پیش کی دیواروں  سے

 

            وہ تری گود ہو یا قبر کی تاریکی ہو

            اب مجھے  نیند کی خواہش ہے  سو آ جائے  گی

 

 

 

یوں  ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  چپکا بیٹھا

کہیں  کسی کا ماس نہ ہڈّی کہیں  کسی کا روپ نہ چھایا

کچھ کتبوں  پر دھُندلے  دھندلے  نام کھدے  ہیں، میں  جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں  ہی کو اپنے  من کا بھید بنا کر

مستقبل  اور  حال کو چھوڑے  دُکھ سکھ سب میں  لیے  پھرا ہوں

 

 

            قبروں  کی تاریکی کا احساس

            کتبوں  پر دھندلے  نام

            وقت سے  الگ ہونے  کا احساس

            لاشعور میں  گم ہو جانے  کی

            خواہش

 

 

دروازوں  پہ دے  رہا ہوں  آواز

خاموش ہے  گنگ ہے، سیہ پوشی

ماضی کے  محل کی کہنہ دیوار

پھیلائے  ہوئے  زمیں  ہے  آغوش

 

تاریکی میں  ڈھونڈتا ہوں  راہیں

سورج کو ترس گئیں  نگاہیں

 

 

            دروازہ، گہری تاریکی، قبر، کفن، گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے، جنازہ، ماضی کے  اندھیرے  غار، پراسرار دستک، سائے  کا رقص، دیواروں  کی سرگوشیاں، دھندلے، کتبے، لاشعور کی تاریکی  اور  کئی حسّی پیکر  اور  کئی اہم بنیادی آرچ ٹائپس سامنے  آتے  ہیں، لاشعوری علامتیں  ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ بھی سنئے:

ہر مرکزِ نگاہ پر چٹاّن سی کھڑی ہوئی

ادھر چٹاّن سے  پرے  وسیع تر ہے  تیرگی

اسے  پھلانگ بھی گیا تو اس طرف خبر نہیں

عدم خراب تر ملے  نہ موت ہو نہ زندگی!

            چٹاّن

            سے         موت

            پرے        اور  

            وسیع      زندگی

             اور         دونوں

            پھیلی      سے

            ہوئی      الگ

            تاریکی     کئی

            اس تاریکی سے         اور شے، جستجو، لاشعور کے  اندھیرے  میں  رومانی ذہن

            بے  خبری

 

            یہ فطری (Spontaneous) اظہار ہے، لاشعوری کیفیات کو شعوری طور پر پیش کر نے  کی کوشش نہیں  ہے، انفرادی  اور  اجتماعی لاشعور کی یہ تصویریں  ذہن کی ا تھاہ گہرائیوں  سے  اُبھری ہیں، ایسی تصویریں  کیوں  متشکل ہوتی ہیں اور تخیلی فکر کے  ذریعہ کیوں  اُبھرتی ہیں، خود شاعر کو اس کا علم  اور  احساس نہیں  ہوتا، شخصیت  اور  ذہن کی خلش  اور  بے  چینی  اور  درد  اور  اضطراب سے  لاشعوری کیفیتوں  کا اظہار ہوتا ہے، مختلف پیکروں  میں  ذہنی تصویروں  میں  ’آرچ ٹائپس‘  میں  کچھ بنیادی رجحانات لاشعور کی تاریکیوں  میں  چھپے  ہوتے  ہیں اور جب ان کے  اُبھر نے اور ظاہر ہونے  کے  مواقع نہیں  ملتے  تو علامتوں، یادوں اور خوابوں  کی صورتوں  میں  سامنے  آتے  ہیں، ’اختر الایمان‘  کی شاعری میں  یادوں اور خوابوں  کی علامتوں  میں  لاشعور کے  رجحانات بھی ظاہر ہوئے  ہیں، اس طرح شعور  اور  لاشعور کا رشتہ گہرا ہوا ہے اور تخیلیِ فکر میں  زندگی  اور  حرارت پیدا ہوئی ہے۔ شاعری میں  یہ بنیادی رجحانات معاشرتی ہیجانات تضادات  اور  اقدار کی کشمکش میں  نمایاں  ہوتے  ہیں۔

            کشتی، سمندر، دروازہ، دیوار، غار، ستون، قبر، کفن، عبادت گاہ، مندر گرجا، اُڑتے  ہوئے  باز، استوپ، اہرام، چاند، مچھلی، گائے، یہ سب نفسی  اور  لاشعوری نسوانی پیکر  اور  بنیادی ’آرچ ٹائپس‘  ہیں  قدیم ترین انسان اس کی زندگی  اور  اس کے  شعور کا مطالعہ نفسیاتی حقائق کے  پیشِ نظر ہو گا۔ ان حقائق کی قوّتوں  کی پہچان آج کے  انسان کی نفسی گہرائیوں  میں  ہوتی ہے۔ یہ قوّتیں  نفسی زندگی میں  بھی زندہ ہیں، تخلیقی عمل کا انحصار اس حقیقت پر ہے  کہ شعور کس حد تک لاشعور کے  بہاؤ سے  متحرک ہے۔ یہ ساری علامتیں  (غار، وادی مزار وغیرہ) داخلی زندگی، اندرونی کیفیات  اور  زمین کے  اندر کی دُنیا  اور  رحم مادر کی علامتیں  ہیں، ان کا فطری اظہار ہوتا رہتا ہے۔ تاریکی، رات  اور  پُر اسرار خاموشی کے  تصوّرات بنیادی طور پر ان ہی علامتوں  سے  وابستہ ہیں۔ پہاڑ اور  غار قدیم زندگی کے  عنوانات ہیں، نفسی زندگی میں  یہ دونوں  ’مدر  آرچ ٹائپس‘  بن گئے  ہیں، پہاڑ کے  قریب زمین، کشتی  اور  ندی کی لہریں  سب رُک جاتی ہیں، اس کے  پتھروں اور چٹاّنوں  کی پرستش عظیم ماں  کی پرستش ہے، نفسی زندگی میں  پہاڑوں  کی طاقت کا احساس غیر معمولی ہے، آج بھی ان کی پرستش ہو رہی ہے، قدیم قصّوں  کہانیوں اور مذہبی خیالات میں  ان کی اہمیت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ تحفظ  اور  حفاظت کا تصوّر اس سے  وابستہ ہے۔ ’ماں ‘  کی طرح یہ سب کی حفاظت کرتے  ہیں۔ تحفظ کے  گہرے  احساس نے  اسی پیکر کو نفسی زندگی میں  ’مدر آرچ ٹائپ‘  بنا دیا ہے۔ کالے  سفید انڈوں  کا تصوّر بھی قابلِ غور ہے۔ ان علامتوں  سے  زمین  اور  جنت رات  اور  دن  اور  موت  اور  زندگی کے  گہرے  رشتے  کی وضاحت ہوتی ہے۔ غار تخلیق کا سرچشمہ بھی ہے اور داخل زندگی، پاتال  اور  قبر کی علامت بھی حفاظت کا خیال ’ماں ‘  کے  تصوّر کو جنم دیتا ہے۔ غار میں  جو تخلیق ہو رہی ہے  اس کی حفاظت بھی ہو رہی ہے۔ آندھی  اور  طوفان سے  بچنے  کی جگہ بھی ہے۔ آگ پہلی بار یہیں  روشن ہوئی، یہ تمام علامتیں  چونکہ ثقافتی علامتیں  ہیں  اس لیے  اس انسان کے  لاشعور میں  محفوظ ہیں، درخت بھی ایک قدیم حسیاتی پیکر ہے۔ پھل پھول دینے اور زندگی کے  تسلسل کا تصوّر اس سے  وابستہ ہے۔ یہ بھی ایک نسوانی پیکر ہے۔ درخت کے  اوپر پرندوں  کے  گھونسلوں  سے  حفاظت کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ درخت سے  پیدائش کا تصوّر بھی وابستہ ہے، یہ پناہ لینے  کی جگہ بھی ہے۔ اسطور، فلسفہ، مذہب  اور  آرٹ میں  ان تمام حسی پیکروں  کی اہمیت اسی لیے  ہے  کہ یہ نفسیاتی سچائیوں  کو نمایاں  کرتے  ہیں، زمین بھی ماں  کی علامت ہے۔ افلاطون نے  کہا تھا زمین ہی تخلیق کا سرچشمہ بن کر عورت کے  سامنے  مثال بن جاتی ہے، زندگی، اس کے  تسلسل  اور  اس کے  عمل  اور  تمام رنگوں  کا تصوّر زمین کا تصوّر ہے۔ شاعری کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اس حقیقت پر نظر رکھی جائے  کہ وہ کس قسم کے  ’آرچ ٹائپس‘   اور  کس قسم کے  حسی پیکروں  کو پیش کر رہی ہے  تو زیادہ سے  زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہو گا۔ شاعری میں  یہ حسی پیکر اپنے  عہد کے  تجربوں  کے  ساتھ نمایاں  ہوتے  ہیں۔

 

            غار، دروازہ، کھنڈر، ستون، یہ سب قدیم تہذیبی  اور  نفسیاتی علامتیں  ہیں، ماں  کا حسی پیکر بھی ان میں  جذب ہو گیا ہے۔ مختلف عہد میں  ان کی معنویت کی نئی جہتیں  پیدا ہوتی رہی ہیں، تحفظ  اور  غذا کے  ساتھ زندگی کے  انتشار  اور  بحران، اچھی قدروں  کے  ٹوٹنے  کے  احساس، اَنا  اور  ایغو کی شکست، تنہائی، محرومی  اور  ناکامی کے  احساسات سے  ان علامتوں  کا رشتہ قائم رہا ہے، آج بھی ان علامتوں  کی اہمیت ہے۔ نئی شاعری میں  یہ علامتیں  اندھیرے  کے  سفر کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ اندھیرے  کا سفر روشنی کے  لیے  ہے۔ داخلی طور پر یہ روشنی کی تلاش ہے  سمندر کے  نیچے  روشنیوں  کے  دیوتاؤں  کی کشتیاں  چلتی ہیں، چاند کی روشنی تاریک را ہوں  پر رہنمائی کرتی ہے۔ غار  اور  کھنڈروں  میں  جلتی ہوئی روشنی آگ برفیلی ہواؤں  سے  محفوظ رکھتی ہے اور یہی آگ مشعل بن جاتی ہے۔ داخلی طور پر ایک نئی صبح کی تلاش بھی ہے، روشنی حسی  اور  روحانی علامت ہے، ماں  روشنی کو جنم دیتی ہے، اسطور میں  عظیم ماں  سورج کو جنم دیتی ہے۔ کنواری مریم نے  بھی جس بچے ّ کو جنم دیا تھا وہ روشنی کی علامت تھا، ہندو دیومالا میں  چاند کے  اوپر ماں اور بچے ّ ایک تخت پر بیٹھے  نظر آتے  ہیں، ماں  کا تصوّر ہی موجود کے  تمام رموز و اسرار کا مرکز ہے، زندگی کی شکست و ریخت  اور  میکانیت سے  یہ رومانی تجربے  پیدا ہوئے  ہیں۔

            غار، گود، قبر، دروازہ، نیند، تاریکی، کفن  اور  اس قسم کی دوسری علامتیں  ’اختر الایمان‘  کی شاعری میں  اہمیت رکھتی ہیں:

 

                        وہ تری گود ہو یا قبر کی تاریکی ہو

                        اب مجھے  نیند کی خواہش ہے  سو آ جائے  گی

                        یوں  ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  چپکا بیٹھا

                        زمیں  کے  تاریک گہرے  سینے  میں  پھینک دو اس کا جسم خاکی

                        موت کی وادیوں  میں  گم ہو گئی پھر وہ نغمگی

                        گرد برسوں  کی   چھپا دے  گی مرا جسم نزار

                        جاگتے  جاگتے  تھک جاؤں  گا، سو جاؤں  گا

                        ادھر چٹاّن سے  پرے  وسیع تر ہے  تیرگی

                        پکارتا ہے  دھندلکوں  سے  اس طرف کوئی

                        کتنا تاریک ہے  فردا کا خیال

                        گرد آلود چراغوں  کو ہَوا کے  جھونکے

                        روز مٹّی کی نئی تہہ میں  دبا جاتے  ہیں

                        زندگی! آہ موہوم تمنّا کا مزار

                        سرد ہاتھوں  سے  مری جان مرے  ہونٹ نہ سی

                        پھر وہی تاریک ماضی، پھر وہی بے  کیف حال

                         اور  یہ میری  محبت بھی تجھے  جو ہے  عزیز

                        کل یہ ماضی کے  گھنے  بوجھ میں  دب جائے  گی

                        توڑ ڈالے  گا یہ کمبخت مکاں  کی دیوار

                         اور  میں  دب کے  اسی ڈھیر میں  رہ جاؤں  گا

                        میں  اندھیروں  میں  ابھی تک ایستادہ ہوں

                        ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

                         اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

 

            ’اختر الایمان‘  نے  اس طرح احساس کو نیا لہجہ  اور  نیا آہنگ دیا ہے، بنیادی اساطیری رجحان موجود ہے۔ ’مدر آرچ ٹائپ‘  کی پہچان بھی مشکل نہیں  ہے، معاشرتی ہیجانات کا احساس بھی ہو جاتا ہے۔ لاشعوری سطح کی بے  چینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سطح کے  نیچے  جو تیز لہریں  ہیں  ان سے  قدروں  کی کشمکش  اور  جبلی روحانی نفسی  اور  جذباتی تصادم کا احساس ملتا ہے۔

            یہ تمام تجربے  ایک اہم رجحان کو نمایاں  کرتے  ہیں، اسی رجحان سے  ’امیجری‘  کا ایک معیار بنتا ہے۔ علامتوں اور پیکروں  کی نئی تشکیل ہوتی ہے، ماضی  اور  حال احساسات میں  جذب ہیں، حیات و موت کے  درمیان شاعر کا رومانی مزاج توجہ طلب ہے۔

**

چند نظمیں

اختر الایمان نے  ’یادیں ‘  کے  پیش لفظ میں  تحریر کیا ہے:

 

 ’’میری نظموں  کا بیشتر حصّہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے، علامیہ کیا ہے اور شعر میں  اس کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، میں  اس تفصیل میں  نہیں  جاؤں  گا، صرف اتنا کہوں  گا علامیہ کی شاعری سیدھی سیدھی شاعری سے  مختلف ہوتی ہے، ایک تو اس لیے  کہ علامیہ کا استعمال کرتے  وقت شاعر کا رویہ آمرانہ ہوتا ہے، وہ ایک ہی علامیہ کو کبھی ایک ہی نظم میں  ایک سے  زیادہ معانی میں  استعمال کر جاتا ہے، دوسرے  الفاظ کے  بظاہر جو معنے  ہوتے  ہیں  وہ علامیہ کی شاعری میں  بدل جاتے  ہیں۔ مثال کے  طور پر میری نظم ’قلوبطرہ‘  اس نظم کا پس منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ لفظ قلوبطرہ کو میں  نے  نہ اس کے  تاریخی پس منظر میں  استعمال کیا ہے اور نہ اس کے  اپنے  معنوں  میں۔ قلوبطرہ کے  نام سے  جو اخلاقی پستی وابستہ ہے  یہاں  اس تصور کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ جنگ کے  نتائج میں  ایک قحبگی کی افزائش بھی ہے، قلوبطرہ کا علامیہ استعمال کر کے  اس قحبگی کی طرف اشارہ کیا ہے، اس ایک نام کے  ساتھ نظم میں اور بھی کئی نام ہیں  جیسے  ’پرویز‘ ، ’انطونی‘  یہ بھی علامیہ کے  طور پر استعمال کیے  گئے  ہیں۔‘‘  

(یادیں )

            اختر الایمان کی علامتیں  داخلی  اور  حسی کیفیات کو سمجھاتی ہیں، روحانی کرب، گہری اُداسی، تنہائی کے  احساس وغیرہ کو سمجھنے  میں  ان کی علامتوں  سے  مدد ملتی ہے۔ ذہنی تصادم نے  جن علامتوں  کی تخلیق کی ہے  ان میں   محبت کی ناکامی  اور  زندگی کی شکست و ریخت کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ مسجد، موت، پرانی فصیل، قلوبطرہ، زندگی کے  دروازے  پر، تنہائی میں، پگڈنڈی، دستک، پیمبر گل، ایک لڑکا، یادیں، پس دیوار چمن، اذیت پرست شہر، قبر، لوگو اے  لوگو،  اور  دوسری کئی نظمیں  علامتی کردار سے  پہچانی جاتی ہیں۔

            اختر الایمان نے  روایتی پیکروں اور نئے  پیکروں  کو اپنے  گہرے  تاثرات سے  تابندہ کر دیا ہے۔ جام، گلیاں، خزاں، بہار، رخسار، درد، آنسو، مسافر، چراغ، شبنم، پتنگے، شمع، کلیاں، کانٹے، کارواں، زنجیر، داغ، لہو، اشک، دیا، زخم، چشم نم، فرہاد، چاند، کرن، گردش، ازل، ابد، سورج، خلا، افلاک، ندی، سمندر  اور  دوسرے  بہت سے  الفاظ  اور  پیکر استعمال کیے  ہیں اور اپنے  تاثرات سے  روایتی لفظوں  میں  زندگی پیدا کر دی ہے۔

            ’عمارت‘  اختر الایمان کی محبوب علامت ہے، ان کی شاعری کی مرکزی علامت! اس سے  بہت سے  پیکروں  کی تشکیل ہوئی ہے۔ مثلاً:

محل

مٹّی، دستک

مکتب، مکان، خانقاہ، مسجد

گھروندہ، مدرسہ، دریچہ، اینٹ، در و بام، گنبد

معمار، دُکانیں، محراب، شہتیر، بازار، مینار، پتھر، معبد

دروازہ، چونے  کی تہہ، کتبہ، قبر، خرابہ

چار دیواری، شفا خانہ

دیوار!

 

            وہ مکان، مسجد، پرانی فصیل، زندگی کے  دروازے  پر، تعمیر، کتبہ، قبر، ریت کے  محل، پس دیوار چمن، کے  عنوانات اس محبوب علامت کو سمجھاتے  ہیں۔ ’آمادگی‘  میں  اسی علامت نے  بنیادی خیال کو روشن کیا ہے اور پیکروں  کو اُبھارا ہے۔ ہیرو کی ذات  اور  اس کی شخصیت کو ٹوٹتی ہوئی عمارت میں  جذب کر دیا گیا ہے:

 

ایک اِک اینٹ گری پڑتی ہے

سب دیواریں  کانپ رہی ہیں

ان تھک کوششیں  معماروں  کی

سر کو تھامے  ہانپ رہی ہیں

 

موٹے  موٹے  شہتیروں  کا

ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے

بھاری بھاری جامد پتھر

ایک اِک کر کے  ٹوٹ گیا ہے

لوہے  کی زنجیریں  گل کر

اب ہمّت ہی چھوڑ چکی ہیں

حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے

بندش بندش توڑ چکی ہیں

 

چونے  کی اِک پتلی سی تہہ

گرتے  گرتے  بیٹھ گئی ہے

نبضیں  چھوٹ گئیں  مٹّی کی

مٹّی سے  سر جوڑ رہی ہے

 

سب کچھ ڈھیر ہے  اب مٹّی کا

تصویریں  وہ دلکش نقشے

پہچانو تو رو دو گی تم

گھر میں  ہوں  باہر ہوں  گھر سے

 

اب آؤ تو رکھا کیا ہے

چشمے  سارے  سوکھ گئے  ہیں

یوں  چا ہو تو آ سکتی ہو

میں  نے  آنسو پونچھ لیے  ہیں

(آمادگی)

 

            ’عمارت‘  کی علامت، علامت نگاری کی ذاتی  اور  تعلقاتی سطح کو اُبھار رہی ہے، حیاتیاتی  اور  جسمانی سطح بھی اسی سطح کے  ساتھ اُبھرتی ہے۔ اس علامت میں  ’تاثرات‘   اور  ’تجزیہ‘  دونوں  قابلِ غور ہیں۔ اختر الایمان نے  ’عمارت‘  کی علامت کو پسند کیا ہے۔ لہٰذا رنگ محل، مسجد، در، چٹان، راستے  زرد مٹّی، دریچہ، دستک، شیشہ، گنبد، محراب شکستہ  اور  گنبد و مینار وغیرہ تجربوں  کو سمجھنے  میں  مدد کرتے  ہیں۔ ایک اچھے  علامت نگار کی طرح انھوں  نے  مجرد صورت کو روحانی  اور  وجودی حقیقت بنا دیا ہے۔ ’آمادگی‘  میں  عمارت کے  تعلق سے  یہ تمام پیکر  اور  الفاظ محض اظہار بیان کے  لیے  نہیں  ہیں  بلکہ ان سے  ایک بنیادی خیال، ایک بنیادی تجربہ، ایک بنیادی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ذات کی ویرانی کو ان پیکروں اور لفظوں  سے  سمجھایا گیا ہے۔ عمارت کی ویرانی ذات کی ویرانی بن گئی ہے۔ اس کی ٹوٹتی صورت ذات کی ٹوٹتی صورت نظر آ رہی ہے۔ اختر الایمان کی علامتیں  تجریدی نہیں  ہیں، ان کو عام تاثراتی علامتوں  سے  تعبیر کرنا چاہیے۔

            اختر الایمان کی علامتیں  پیچیدہ  اور  پُر اسرار نہیں  ہیں، ان کے  تاثرات اتنے  گنجلک نہیں  کہ ہم سچائی کو پہچان نہ سکیں۔ ان کے  تجربات جانے  پہچانے  ہیں۔ علامتوں  میں  ذاتی  اور  سماجی تجربوں  کو پیش کر نے  کی کامیاب کوشش کی ہے، انفرادی  اور  ذاتی سطح کے  ساتھ سماجی  اور  اجتماعی سطح کی پہچان بھی ہو جاتی ہے، شاعر کو اعلیٰ عمدہ بلند  اور  شریف قدریں  عزیز ہیں۔ وہ ان سے  بے  پناہ  محبت کرتا ہے اور جب یہ قدریں  مجروح ہوتی ہیں  تو وہ بے  چین ہو جاتا ہے، کرب کا شکار ہو جاتا ہے، شکست کے  احساس سے  اس میں  بے  چینی سی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ علامتوں  میں  سوچنے  لگتا ہے۔ اختر الایمان کی علامتوں  میں  ادنیٰ  اور  معمولی قدروں اور ضمیر کے  تصادم کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ ان کے  المیہ رجحان نے  علامتوں  کی تخلیق کی ہے۔ پیکروں اور علامتوں  پر سوچتے  ہوئے  ہم ان کے  بنیادی المیہ رجحان کو نظر انداز نہیں  کر سکتے۔

            ’مسجد‘  ایک اچھی پیاری سی نظم ہے۔ وقت کے  گزر جانے  کا احساس ملتا ہے۔ تغیر کا احساس متاثر کرتا ہے۔ لہجے  کی افسردگی توجہ طلب ہے۔ ’مسجد‘  ایک علامت ہے۔ ماضی کی اعلیٰ قدروں  کی علامت، اس کی ویرانی  اور  تباہی نے  ایک گہری افسردگی پیدا کی ہے۔ تنہائی کا احساس ہے، ماضی کی قدروں  کی تصویریں، حال سے  ماضی کی جانب جانے  والے  لمحے، مسجد کی ویرانی  اور  نظم کا مجموعی آہنگ۔۔۔ سب متاثر کرتے  ہیں۔

            ’آب جو‘  کے  پیش لفظ میں  اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’مسجد‘‘ ایک ویران مسجد کا خاکہ ہے۔۔۔  مسجد مذہب کا علامیہ ہے اور اس کی ویرانی عام آدمی کی مذہب سے  دوری کا مظاہرہ ہے، رعشہ زدہ ہاتھ مذہبیت کے  آخری نمائندہ ہیں اور وہ ندی جو مسجد کے  قریب سے  گزرتی ہے  وقت کا دھارا ہے  جو عدم کو وجود  اور  وجود کو عدم میں  تبدیل کرتا رہتا ہے اور اپنے  ساتھ ہر چیز کو لے  جاتا ہے  جس کی زندگی کو ضرورت نہیں  رہتی۔‘‘  

بنیادی خیال عمدہ ہے، موضوع اہم ہے، نظم یہ ہے:

 

دور، برگد کی گھنی چھاؤں  میں  خاموش و ملول

جس جگہ رات کے  تاریک کفن کے  نیچے

ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح

اپنے  اعمال پہ رو لیتے  ہیں  چپکے  چپکے

 

ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس

پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے

 اور  ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی

گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے

 

گرد آلود چراغوں  کو ہوا کے  جھونکے

روز مٹّی کی نئی تہہ میں  دبا جاتے  ہیں

 اور  جاتے  ہوئے  سورج کے  وداعی انفاس

روشنی آ کے  دریچوں  کی بجھا جاتے  ہیں

حسرت شام و سحر بیٹھ کے  گنبد کے  قریب

ان پریشان دُعاؤں  کو سنا کرتی ہے

جو ترستی ہی رہیں  رنگ اثر کی خاطر

 اور  ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے

 

یا ابابیل کوئی آمد سرما کے  قریب

اس کو مسکن کے  لیے  ڈھونڈ لیا کرتی ہے

 اور  محراب شکستہ میں  سمٹ کر پہروں

داستاں  سرد ممالک کی کہا کرتی ہے

 

ایک بوڑھا گدھا دیوار کے  سائے  میں  کبھی

اونگھ لیتا ہے  ذرا بیٹھ کے  جاتے  جاتے

یا مسافر کوئی آ جاتا ہے، وہ بھی ڈر کر

ایک لمحے  کو ٹھہر جاتا ہے  آتے  آتے

 

فرش جاروب کشی کیا ہے  سمجھتا ہی نہیں

کالعدم ہو گیا تسبیح کے  دانوں  کا نظام

طاق میں  شمع کے  آنسو ہیں  ابھی تک باقی

اب مصلیٰ ہے  نہ منبر، نہ مؤذن نہ امام!

 

آ چکے  صاحب افلاک کے  پیغام و سلام

کوہ و در اب نہ سنیں  گے  وہ صدائے  جبریل

اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے  گی بنیاد

کھو گئی دشت فراموش میں  آوازِ خلیل

 

چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے  گزر جاتا ہے

ڈال دیتے  ہیں  ستارے  دھُلی چادر اپنی

اس نگار دل یزداں  کے  جنازے  پہ بس اِک

چشم نم کرتی ہے  شبنم یہاں  اکثر اپنی

 

ایک میلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا

روز رعشہ زدہ ہاتھوں  سے  کہا کرتا ہے

تم جلاتے  ہو، کبھی آ کے  بجھاتے  بھی نہیں

ایک جلتا ہے، مگر ایک بجھا کرتا ہے!

 

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش

چیخ اٹھتی ہے  وہیں  دور سے  فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے  توڑ کے  ساحل کی قیود

 اور  پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!

(مسجد)

 

            اختر الایمان لکھتے  ہیں: ’’ماحول مغموم، گھٹا ہوا  اور  موت سے  پر محسوس ہوتا ہے، محسوس ہی نہیں  ہوتا، ہے  بھی‘‘  ۔۔۔ ’مسجد‘ ایک تہذیب کی علامت ہے، مذہب، ثقافت  اور  فن کی علامت اس کی تصویروں  سے  ایک تہذیب کی ویرانی کا احساس ملتا ہے، شاعر کے  لہجے  کی المناکی سے  اس ویرانی کا احساس بڑھ جاتا ہے، شاعر رینگتی تاریکی کا مشاہدہ کر رہا ہے، یہ تاریکی جو گہری ہوتی جا رہی ہے۔ فطرت  اور  وقت دونوں  کی علیحدہ پہچان مشکل ہے۔ ہوا چراغوں  کو بجھا رہی ہے۔ ایک مقدس آرچ ٹائپ سے  رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔

            ’عمارت‘  بنیادی طور پر ایک عوامی آرٹ ہے، پناہ، دفاع  اور  عبادت کے  احساس  اور  ان کی ضرورتوں  کے  پیش نظر عمارت کی تعمیر ہوئی ہے۔ مسجد  اور  دوسری عبادت گاہیں  جماعت پسندی کے  رجحان کو نمایاں  کرتی ہیں۔ ایک دوسرے  کے  ساتھ رہ کر جینے، خوف کے  احساس  اور  قبیلے  یا جماعت کی جدوجہد کی علامت ہے۔ میناروں  سے  آسمان تک پہنچنے  کی آرزو  اور  اپنی آواز خلاؤں  تک پہنچانے  کی تمنّا موجود رہی ہے۔ محرابوں  میں  پناہ لیتے  ہوئے  یہ احساس ہے  کہ آسمان حفاظت کے  لیے  جھک کر نیچے  آ گیا ہے، تمام مذہبی  اور  تمدنی اقدار کی حفاظت ہو رہی ہے۔ عمارت میں  انسان کے  جسم کا آہنگ ہے۔ اس کی تعبیر سے  انسان کی نفسیات کو ہمیشہ سکون حاصل ہوا ہے، کسی عمارت کو ویران دیکھ کر باطنی سطح پر جھرجھری سی آ جاتی ہے، غیر شعوری طور پر محسوس ہوتا ہے  جیسے  آسمان سے  رشتہ ٹوٹ رہا ہے، اعتماد، یقین  اور  ایمان کے  ستون کمزور ہو کر گر نے  والے  ہیں، آسمان اوپر چلا گیا ہے، زندگی کا تقدس چھن رہا ہے، تاریکی روشنی کو نگل رہی ہے، نفیس، مہذب  اور  شریف قدریں  ٹوٹ رہی ہیں  ارفع  اور  اعلیٰ احساسات گم ہو رہے  ہیں، وقت کی لہریں  ظالم  اور  سفّاک ہیں، وقت کی رفتار تیز ہے، چیزیں  ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ اس مسجد کو دیکھتے  ہوئے  شاعر کے  لاشعور  اور  شعور میں  یہی باتیں  ہیں، مسجد کی ویرانی ایک پوری تہذیب کی ویرانی بن گئی ہے۔ شاعر کا عقیدہ یہ ہے  کہ گزرتا ہوا وقت ہر شئے  کو بہا لے  جاتا ہے۔

            یہ نظم  اور  خوبصورت بن سکتی تھی، آخری بند سے  نظم کا تاثر ختم ہو جاتا ہے، آخری بند میں  ’فانی فانی‘  کی آواز عجیب سی لگتی ہے۔ یہ کہنے  کی ضرورت ہی نہ تھی:

 

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش

چیخ اُٹھتی ہے  وہیں  دُور سے  فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے  توڑ کے  ساحل کی قیود

 اور  پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!

(آخری بند ’مسجد‘ )

 

            شاعر جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا تھا۔ فنکارانہ انداز میں  تخیلی فکر سامنے  آ گئی تھی، اس آخری بند سے  تاثر کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ یہ بند خیال  اور  اظہارِ بیان کے  اعتبار سے  یوں  بھی اہمیت نہیں  رکھتا۔ شاعر  اور  اس عمارت کے  درمیان تیز ندی کی آواز کو وقت  اور  تباہی کی علامت بنایا جا سکتا تھا، اس نظم میں  یہ پتہ تو چلتا ہے  کہ اس مسجد کے  پاس ایک ندی ہے  (جو وقت کی علامت ہے ) لیکن ہم اس ندی کی آواز نہیں  سنتے، عام احساس ملتا ہے اور ایک معمولی سی بات سامنے  آتی ہے۔ ندی کی علامتی اہمیت نہیں  رہتی۔ ’فانی فانی‘   اور  ’گنبد و مینار پانی پانی‘  کہنے  سے  بہتر یہ تھا کہ اس ندی کو بھی اپنے  احساس میں  جذب کر نے  کی کوشش کی جاتی۔ دو علامتیں  ’مسجد‘   اور  ’رعشہ زدہ ہاتھ‘  اہم ہیں، تیسری علامت ’ندی‘  علامت نہیں  بن سکی ہے، نئی  اور  پرانی قدروں  کے  تصادم کے  اس پیکر میں  تیسری علامت بھی متاثر کرتی تو یہ نظم ایک یادگار بن جاتی۔

            اختر الایمان کے  لہجے  کا سوز متاثر کرتا ہے۔ ان کی درد مندی متاثر کرتی ہے، یہ ان کی رومانیت ہے  جو انھیں  دور برگد کی گھنی چھاؤں  میں  لے  گئی ہے اور ایک ویران سی مسجد دکھا رہی ہے۔ مسجد کی یہ عمارت ایک آئینہ ہے  جس میں  مٹتی ہوئی تصویروں اور مٹتے  ہوئے  خاکوں  کو دیکھا جا رہا ہے، ’برگد کی گھنی چھاؤں ‘ ، ’خاموش فضا‘ ، ’رات کا تاریک کفن‘ ، ’ویران سی مسجد کا شکستہ کلس‘ ، ’ٹوٹی دیوار پر چنڈول‘ ، ’گرد آلود چراغ‘ ، ’سورج کے  وداعی انفاس‘ ، ’پریشان دعائیں ‘ ، ’ٹوٹے  ہوئے  دل کی کیفیت‘ ، ’طاق پر شمع کے  آنسو‘ ، ’چاند کی پھیکی ہنسی‘ ، ’نگار دل یزداں  کے  جنازے ‘  ان سے  ایک فضا بنی ہے۔ شاعر کی ذہنی کیفیت  اور  جذباتی کشمکش کے  ساتھ معاشرے  کی کیفیت بدلتی ہوئی قدروں  کے  تماشے اور وقت کی بے  مہری کا اندازہ ہوتا ہے۔

            ’پرانی فصیل‘  میں  بھی اختر الایمان کا بنیادی رجحان وہی ہے  جو ’مسجد‘  میں  ہے۔ انھوں  نے  ’پرانی فصیل‘  کی آنکھوں  سے  بدلتے  ہوئے  معاشرے  کو دیکھا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  خود شاعر کا پیکر ہے! یوں  تو صدیوں  میں  پھیلی ہوئی، بکھری ہوئی قدریں  اس پیکر کے  سامنے  ہیں:

یہاں  پر دفن ہیں  گزری ہوئی تہذیب کے  نقشے!

لیکن وہ ماضی میں  عریاں  جذبات، قتل و خوں اور ہوس رانی کے  تماشے  دیکھتا رہا ہے، معاشرہ اندرونی طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے۔ وہ دنیا جو رنگین  اور  دلنواز نظر آ رہی ہے، اس میں  بھی وہی عناصر ہیں  جنھیں  وہ ماضی میں  دیکھ چکا ہے  لیکن نئے  عناصر  اور  نئے  رجحانات  اور  بھی ناقابلِ برداشت ہیں۔ معاشرہ  اور  زیادہ کھوکھلا ہو گیا ہے۔

            ’پرانی فصیل‘  کی تشنگی ہنوز موجود ہے۔ شاعر اس پیکر میں  جن اعلیٰ اقدار  اور  جن دلنواز  اور  خوبصورت رجحانات کو دیکھنا چاہتا ہے  وہ کہیں  نظر نہیں  آتے، یہ صدیوں  کی تلاش ہے۔ اعلیٰ  اور  عمدہ اقدار کی تلاش۔۔۔ شاعر کی رومانیت  اور  اس کے  مضطرب ذہن کو تلاش کے  اسی عمل میں  دیکھا جا سکتا ہے۔

            ’پرانی فصیل‘  کے  لیے  کل کا دور بھی ناقابلِ برداشت تھا  اور  آج کا دور بھی ناقابل برداشت ہے۔ آج ہر دل نوازی میں  طنز کا پہلو ہے۔ چارہ ساز تضحیک کے  نشتر کے  ساتھ آتے  ہیں، احساس کی کوئی قیمت نہیں۔ زندگی کی ہر ادا میں  خوشامد ہے، چاندی کے  ترازو میں  مسرت فروخت ہوتی ہے۔ عورت ایک زہر آلود سا کانٹا ہے  جو چبھ سکتا ہے  لیکن درد کا حاصل نہیں  ہوتا، بھوکی نگاہیں  ہیں، دیوتا کی کمی نہیں  ہے  لیکن حقیقت ہے  کہ کوئی اہل دل نہیں  ہے، شاعروں اور فنکاروں  کی فکر بھی مشینوں  میں  ڈھلتی ہے  فکر کی جدت پر طنز کیا جاتا ہے۔

            ’پرانی فصیل‘  کی آنکھوں  سے  شاعر نے  یہی کچھ دیکھا ہے۔

            ابتدائی بندوں  سے  ایک رومانی فضا بنتی ہے، ویرانی، تنہائی  اور  پُر اسرار سرگوشیوں  کا احساس فنکارانہ طور پر دلایا گیا ہے  لیکن خیال کے  ارتقاء کے  ساتھ نظم کا حسن قائم نہیں  رہتا، سچائیاں  سامنے  آتی ہیں، حقیقتیں  اُبھرتی ہیں  لیکن عام انداز میں  تخیلی فکر  اور  داخلی رچاؤ کے  بغیر۔۔۔ ’پرانی فصیل‘  کی پُر اسرار آواز سنائی نہیں  دیتی، شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے، اس چیخ سے  طلسمی فضا اچانک گم ہو جاتی ہے، سپاٹ سی حقیقتیں  اُبھر نے  لگتی ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے  کہ نظم سے  زیادہ اچھی نثر میں  ان خیالات کا زیادہ فنکارانہ اظہار ہو سکتا تھا۔ معمولی خیالات ملتے  ہیں، معمولی مصرعے  ملتے  ہیں، تاثر ختم ہو جاتا ہے۔ نظم کی ابتداء میں  شاعر ایک فنکار کی طرح ہمیں  اپنے  احساس  اور  شعور سے  قریب کرتا ہے، تنہائی  اور  ویرانی کے  احساس میں  شریک کرتا ہے، ہم اس فضا میں  سرگوشیاں  سننے  کے  لیے  تیار ہوتے  ہیں  لیکن مایوسی ہوتی ہے، ’پرانی فصیل‘  کا پیکر اچانک ٹوٹ جاتا ہے اور شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے۔ اس کا اثر نظم کی ’سی مٹری‘  پر ہوتا ہے۔ اختر الایمان کی بعض نظموں  کی یہ بنیادی خامی ہے۔ ان کی فکر علامتی نہیں  رہ جاتی ہے۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے:

 

مری تنہائیاں  مانوس ہیں  تاریک راتوں  سے

مرے  رخنوں  میں  ہے  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

زمانہ جب گزرتا ہے  بدل لیتا ہے  پیراہن

 

یہاں  سرگوشیاں  کرتی ہے  ویرانی سے  ویرانی

فسردہ شمع اُمید و تمنّا لو نہیں  دیتی

یہاں  کی تیرہ بختی پر کوئی رونے  نہیں  آتا

یہاں  جو چیز ہے  ساکت، کوئی کروٹ نہیں  لیتی

اس قسم کے  بند بھی ملتے  ہیں:

یہاں  اسرار ہیں، سرگوشیاں  ہیں، بے  نیازی ہے

یہاں  مفلوج تر ہیں  تیز تر بازو ہواؤں  کے

یہاں  بھٹکی ہوئی روحیں  کبھی سر جوڑ لیتی ہیں

یہاں  پر دفن ہیں  گزری ہوئی تہذیب کے  نقشے

ایک فضا بنتی ہے، شاعر کے  احساس سے  قریب ہو جاتے  ہیں، محسوس ہوتا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  اپنا ہی پیکر ہے۔ یہ اپنی پُر اسرار آواز ہے  جو اس خاموش ماحول میں  سنائی دے  رہی ہے  لیکن فوراً ہی یہ احساس ختم ہو جاتا ہے  شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے اور اس قسم کے  بند سامنے  آتے  ہیں:

وہاں  احساس کی جنس گراں  قیمت نہیں  رکھتی

وہاں  کا ہر نفس مانگی ہوئی دُنیا میں  رہتا ہے

مسرت تول کر لیتے  ہیں  چاندی کے  ترازو میں

خوشامد زندگی کی ہر ادا میں  کار فرما ہے!

 

وہاں  عورت فقط اِک زہر آلودہ سا کانٹا ہے

جو چبھ سکتا ہے  لیکن درد کا حاصل نہیں  ہوتا

وہاں  بھوکی نگاہیں  گھورتی ہیں  تنگنائے  میں

مگر سب دیوتا ہیں  کوئی اہلِ دل نہیں  ہوتا!

 

وہاں  ہر فکر کی جدت پہ طعنے  پیش ہوتے  ہیں

وہاں  شاعر مشینوں  کی طرح سانچوں  میں  ڈھلتے  ہیں

وہی اگلے  ہوئے  لقمے  طبائع کا سہارا ہیں

انھیں  ویران را ہوں  پر کھڑے  ہیں، آنکھ ملتے  ہیں!

 

کہیں  روتے  بھنکتے  پھر رہے  ہیں، ہر طرف ہر سو

غلاظت آشنا، جھلسے  ہوئے  انسان کے  پلے

یہ وہ ہیں  جو نہ ہوتے  کوکھ پھٹ جاتی مشیت کی

تمنّاؤں  میں  ان کی رات دن کھینچے  گئے  چلے!

 

بہت معمولی اشعار ہیں، کوئی گہرا خیال  اور  کوئی اہم تخیل نہیں  ہے، علامتی فکر بھی نہیں  ہے اور پیکر تراشی بھی نہیں  ہے۔ اختر الایمان لکھتے  ہیں:

 ’’میری شاعری احساس کی شاعری ہے، میں  اس موضوع کو محسوس کر نے  کی کوشش کرتا ہوں۔  اگر  یہ موضوع اپنا احساس میرے  ذہن  اور  میرے  رگ و پے  میں  نہیں  چھوڑتا، نظم کی صورت اختیار نہیں  کرتا، لیکن  اگر  احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے  یا احساس بن جاتا ہے  تو پھر اسے  نظم کی صورت دینے  کے  لیے  مناسب الفاظ  اور  موزوں  بحر کی تلاش ہوتی ہے۔‘‘  (یادیں )

 اور  یہ بھی کہتے  ہیں:

 ’’اس تلاش میں  نہ کوئی وقت کا تعین ہوتا ہے اور نہ اس کی کوئی جامد صورت ہوتی ہے، میرے  ذہن میں  اس کی مثال قوس قزح کی سی ہے۔‘‘  (یادیں )

            ہم سوچتے  ہیں  ایسی نظموں  کے  موضوعات صرف موضوعات ہیں  یا کوئی موضوع واقعی احساس بھی بنا ہے؟ موزوں اور مناسب الفاظ پر شاعر نے  کتنا غور کیا ہے؟ ایسے  معمولی مصرعوں  میں  تخلیقی عمل کی پہچان ہی نہیں  ہوتی، قوس قزح کے  رنگ کہاں  ہیں۔ اختر الایمان نے  کہا ہے  پچھلی نظمیں  مسلسل غزلیں  ہیں، صحیح معنوں  میں  کوئی نظم، نظم نہیں  ہے، نظم کسی خیال، تصور، احساس یا موضوع کو اس انداز میں  بیان کر نے  کا نام ہے  کہ اس میں  حشو و زوائد نہ ہوں۔ پوری نظم میں  کوئی ایسا حصہ نہ ہو جسے   اگر  نکال دیا جائے  تو نظم کے  مفہوم پر کوئی اثر نہ پڑے  یا کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہو۔

            ان کا یہ چیلنج خود حیرت سے  انھیں  دیکھ رہا ہے، وہ اس روایت کی ایک کڑی ہیں  جسے  وہ چیلنج کر رہے  ہیں، انھوں  نے  نظم کی اچھی تعریف کی ہے  لیکن ان کی کئی نظمیں  خود اس معیار پر پوری نہیں  آتیں۔ ایسی نظم کی مثال لیجیے، آپ چاہیں  تو اطمینان سے  ’پرانی فصیل‘  سے  کئی بند نکال سکتے  ہیں  مرکزی خیال پر کوئی اثر نہ ہو گا۔

            اختر الایمان یوں  تو علامیہ کی شاعری کا مطالعہ بہت مشکل بتاتے  ہیں اور ہے  بھی بہت مشکل کہتے  ہیں  علامیہ کی شاعری پڑھتے  وقت بہت محتاط رہنے  کی ضرورت ہے، یہ ان لوگوں  کے  مزاج کو بالکل راس نہیں  آتی جن کے  لیے  شاعری کوئی سنجیدہ چیز نہیں اور جو اسے  روا روی میں  پڑھنا چاہتے  ہیں۔

            اختر الایمان فرماتے  ہیں  لیکن ’پرانی فصیل‘  کو ایک علامت سمجھتے  ہوئے  (جو صدیوں  کی قدروں  کے  درمیان کھڑی ہے ) ہمیں  علامتی فکر کی کن جہتوں  سے  آشنائی ہوتی ہے۔ کیا ہم ’بھوکی نگاہوں ‘  اہلِ دل دیوتا، مشینوں  کے  سانچے، اگلتے  ہوئے  لقمے، ویران راہیں، انسان کے  پتلے، مشیت کی کوکھ کو علامیہ  اور  علامتی نقوش کہیں۔ کون سی علامت ’وژن‘  بنی ہے۔ کوئی لفظ پھیل کر شعور و احساس میں  جذب نہیں  ہوتا، یہ تو عام الفاظ  اور  عام تجربے  ہیں۔ علامیہ  اور  حسی پیکروں  کی کمی محسوس ہوتی ہے، ایک علامت کئی حقیقتوں اور سچائیوں  میں  داخلی رشتہ پیدا کر دیتی ہے  اس طرح تجربوں  میں  ایک تنظیم ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں  اُلجھے  ہوئے  رشتوں  کا احساس تو ہوتا ہے، داخلی تنظیم کی کمی محسوس ہوتی ہے، کسی لفظ سے  کوئی احساس یا تصور بیدار نہیں  ہوتا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            ’موت‘  اختر الایمان کی ایک نمائندہ نظم ہے۔ یہ نظام زندگی کا مرثیہ ہے، ڈرامائی کیفیتیں  متاثر کرتی ہیں، مکالمے  کی تکنیک میں  موضوع کا حسن بڑھ گیا ہے:

 

 ’’کھٹکھٹاتا ہے  کوئی دیر سے  دروازے  کو

ٹمٹماتا ہے  مرے  ساتھ نگاہوں  کا چراغ‘‘  

 

 ’’اس قدر ہوش سے  بیگانہ ہوئے  جاتے  ہو‘‘  

 ’’تم چلی جاؤ، یہ دیوار پہ کیا ہے  رقصاں

میرے  اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں  تو نہیں؟

پھر نگاہوں  پہ اُمنڈ آیا ہے، تاریک دھواں

ٹمٹماتا ہے  مرے  ساتھ یہ مایوس چراغ

آج ملتا نہیں  افسوس پتنگوں  کا نشاں

میرے  سینے  میں  اُلجھنے  لگی فریاد مری

ٹوٹنے  والی ہے  انفاس کی، زنجیر گراں

 

توڑ ڈالے  گا یہ کم بخت مکاں  کی دیوار

 اور  میں  دَب کے  اسی ڈھیر میں  رہ جاؤں  گا!‘‘  

 

اختر الایمان نے  اس نظم کے  متعلق لکھا ہے:

 ’’موت ایک چھوٹا سا منظوم ڈراما ہے  جس میں  تین کردار ہیں۔ مرد، عورت  اور  دستک، مرد بیمار ہے، بستر مرگ پر ہے اور نزع کے  عالم میں  ہے، عورت اس کی محبوبہ ہے اور مرد کے  ذہن کو موت کے  اس خیال سے  باز رکھنا چاہتی ہے  جو اس پر حاوی  اور  مسلّط ہو گیا ہے اور دستک ایک ایسی آواز ہے  جو مسلسل دروازہ پر سنائی دے  رہی ہے اور ماحول کی ہیبت  اور  فضا نے  سرسری پڑھنے  والوں  کے  ذہن میں  یہ خیال پیدا کیا ہے  کہ یہ نظم قنوطی ہے، وہی دراصل اس کا حسن ہے۔‘‘  

            موت میں  جو آدمی بستر مرگ پر ہے  وہ ان پرانی قدروں  کا علامیہ ہے  جو اَب مر رہی ہیں، محبوبہ جھوٹی تسلّیاں  ہیں اور مسلسل دستک وقت کی وہ آواز ہے  جو کبھی بند نہیں  ہوتی، ہمیشہ زندگی کے  دروازے  کو کھٹکھٹاتی رہتی ہے اور مکین  اگر  اس کی آواز نہیں  سنتا تو وہ اس مکان کو توڑ ڈالتی ہے اور اس کی جگہ نیا مکان تعمیر کر ڈالتی ہے۔ (دیباچہ ’آب جو‘ )

            اس نظم کے  متعلّق اب زیادہ کہنے  کی ضرورت نہیں  ہے۔ شاعر کی فنکارانہ صلاحیتوں  کا احساس ہوتا ہے، علامتی فکر ملتی ہے، قدروں  کا احساس ہوتا ہے، زندگی کے  تسلسل  اور  حیات نو کے  تصور کو فنکارانہ انداز میں  اُبھارا گیا ہے۔ تفریحی  محبت کے  تصوّر پر طنز بھی قابلِ توجہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’فیصلہ‘  میں  اختر الایمان کی جذباتی تنہائی ملتی ہے، ایسی کامیاب  اور  اچھی نظموں  میں  جذباتی آہنگ بھی ہے اور جذبات کی کامیاب پیشکش بھی۔ لہجے  کا دھیما پن  اور  داخلی کیفیت بھی غور طلب ہے۔ ایک فرد کا درد  اور  سوز معاشرے  کے  تمام حساس افراد کا سوز  اور  درد بن جاتا ہے، محبوب کا کردار بھی مبہم نہیں  ہے، اُلجھنیں  بھی اہم ہیں۔ چند اشعار سنئے  پوری نظم کی فضا کا احساس مل جائے  گا:

 

چند لمحوں  میں  گزر نے  کو ہے  ہنگامہ، شب

سو گئے  جام صراحی کا سہارا لے  کر

سرد پڑنے  لگا اُجڑی ہوئی محفل کا گداز

تھک گئی گردش یک رنگ سے  ساقی کی نظر

چند بیدار فسانوں  کا اثر ٹوٹ گیا

دب گیا تلخ حقیقت میں  نشہ تابہ کمر

 

سوچ میں  ڈوب گئے  راہ گزر کے  خم و پیچ

کوئی آئے  گا اب امید کے  ویرانے  میں

 

            ’تنہائی میں ‘  بھی اختر الایمان کی نمائندہ نظم ہے، اس نظم میں  بھی یادیں اور تنہائی کا شدید احساس ہے۔ تنہائی میں  سہارے  کی تلاش لاشعوری  اور  نفسیاتی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ پوری فضا شاعر کے  جذبات  اور  احساسات میں  جذب ہے، اس کا المیہ رجحان پورے  ماحول کو غم ناک بنا دیتا ہے۔ اثر آفرینی بھی ہے اور پیکر تراشی بھی۔ جھنجھلاہٹ نہیں  ہے۔  اگر چہ تلخیاں  ہیں، جو سچائیوں  کو اُبھارتی ہیں، داخلی  اور  اندرونی تباہی کی تصویر بھی ہے اور معاشرے  کی تباہی  اور  بربادی کا تخیلی خاکہ بھی۔ ابتداء میں  تنہائی کا احساس  اور  یاد کی خلش ہے:

 

میرے  شانوں  پہ ترا سر تھا، نگاہیں  نمناک

اب تو اِک یاد سی باقی ہے  سو وہ بھی کیا ہے

 

گھر گیا ذہن غم زیست کے  اندازوں  میں

سر ہتھیلی پہ دھرے  سوچ رہا ہوں  بیٹھا

کاش اس وقت کوئی پیر خمیدہ آ کر

کسی آزاد طبیعت کا فسانہ کہتا!

            اس طرح نظم شروع ہوتی ہے، دوسرے  مصرعے  میں  ایک ٹھنڈی سانس  اور  ایک سرد آہ ہے  جس سے  پورے  جسم میں  سنسناہٹ سی آ جاتی ہے۔ اس دور کے  المیہ ہیرو کی ایک تصویر اُبھر آتی ہے۔ اس کے  بعد فضا کی تصویر ہے  جو جذبات سے  ہم آہنگ ہے، جذباتی خلش  اور  اندرونی اضطراب کو کچھ خارجی اشاروں  سے  سمجھانے  کی فنکارانہ کوشش کی گئی ہے۔ حالات، ماحول  اور  متمدن اقدار کی بھی کسی حد تک وضاحت ہوتی ہے، شاعر اپنے  وقت کا مخالف ہے  لیکن اس کی شخصیت وقت کا ایک حصہ ہے:

 

اِک دھُندلکا سا ہے، دم توڑ چکا ہے  سورج

شب کے  دامن پہ ہیں  دھبّے  سے  سیہ کاری کے

 اور  مغرب کی فنا گاہ میں  پھیلا ہوا خوں

دبا جاتا ہے  سیاہی کی تہوں  کے  نیچے

 

            نئی تشبیہیں  حقائق کو سمجھاتی ہیں، ’حقائق‘   اور  ’مناظر‘  میں  جذبی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں  ایک دوسرے  میں  جذب ہیں۔ منظر نگاری کا یہ عروج ہے۔ ایک تو جذبات  اور  حقائق زندگی میں  ہم آہنگی ہے اور پھر جذبات، حقائق  اور  مناظر میں  جذبی کیفیت پیدا ہو گئی ہے  ان سے  نظم کا تاثر گہرا ہوا ہے۔ شاعر کی افسردگی، حقائق زندگی کی افسردگی، اُداسی  اور  افسردگی بھی ہے اور مناظر کی بھی، جذبات  اور  مناظر ایک دوسرے  کے  لیے  آئینہ ہیں۔ اذیتوں  کی ترجمانی فضا سے  ہوتی ہے، پورا ماحول شاعر کی داخلی کیفیتوں  کا آئینہ ہے، تنہائی میں  زندگی کو پہچاننے  کی کوشش ہے۔ داخلی کیفیتیں  ماحول میں  بکھر گئی ہیں۔ دھُندلکا ڈوبتا ہوا سورج، رات، خون، سیاہی کی تہیں، سوکھی ہوئی ببول، ٹوٹے  ہوئے  ویران مکان، بجھا ہوا چاند، یہ سب داخلی کیفیتوں  کی علامتیں  ہیں:

 

دور تالاب کے  نزدیک وہ سوکھی سی ببول

چند ٹوٹے  ہوئے  ویران مکانوں  سے  پرے

ہاتھ پھیلائے  برہنہ سی کھڑی ہے  خاموش

جیسے  غربت میں  مسافر کو سہارا نہ ملے

اس کے  پیچھے  سے  جھجکتا ہوا اِک گول سا چاند

اُبھرا بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے

میں  ابھی سوچ رہا ہوں  کہ  اگر  تو مل جائے

زندگی گو ہے  گر انبار پہ اتنی نہ رہے

 

غم جاناں اور غم دوراں  کا تصور ایک ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ دونوں  غموں  کی اُلجھن  اور  گھٹن سے  شاعر پریشان ہو جاتا ہے:

کوئی مرکز ہی نہیں  میرے  تخیل کے  لیے

اس سے  کیا فائدہ جیتے  رہے اور جی نہ سکے

 

اب ارادہ ہے  کہ پتھر کے  صنم پوجوں  گا

تاکہ گھبراؤں  تو ٹکرا بھی سکوں  مر بھی سکوں

ایسے  انسانوں  سے  پتھر کے  صنم اچھے  ہیں

 

ان کے  قدموں  پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں

 اور  وہ میری  محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں

میں  بھی بے  رنگ نگاہوں  کی شکایت نہ کروں

 

یا کہیں  گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے  میں

جا کے  خوابیدہ فراعین سے  اتنا پوچھوں

ہر زمانے  میں  کئی تھے  کہ خدا ایک ہی تھا

اب تو اتنے  ہیں  کہ حیران ہوں  کس کو پوجوں

 

اب تو مغرب کی فنا گاہ میں  وہ سوگ نہیں

عکس تحریر ہے  اِک رات کا ہلکا ہلکا

 اور  پُر سوز دھُندلکے  سے  وہی گول سا چاند

اپنی بے  نور شعاعوں  کا سفینہ کھیتا

اُبھرا نمناک نگاہوں  سے  مجھے  تکتا ہوا

جیسے  گھل کر مرے  آنسو میں  بدل جائے  گا

ہاتھ پھیلائے  ادھر دیکھ رہی ہے  وہ ببول

سوچتی ہو گی کوئی مجھ سا ہے  یہ بھی تنہا

آئینہ بن کے  شب و روز تکا کرتا ہے

کیسا تالاب ہے  جو اس کو ہرا کر نہ سکا

 

            پر سوز دھندلکوں  سے  بے  نور شعاعوں  کا سفینہ کھیتا گول سا چاند اپنی نمناک نگاہوں  سے  اسی طرح تک رہا ہے  جیسے  گھل کر آنسو میں  تبدیل ہو جائے  گا۔ یہ تصور اہم ہے، خارجی  اور  داخلی اضطراب  اور  محرومی، ناکامی  اور  اُداسی سے  فطرت یا نیچر بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ ’چاند‘  فرد کے  احساس  اور  جذبے  کا آئینہ بن گیا ہے، وہ سورج جو دم توڑ چکا ہے، مغرب کی فناگاہ میں  پھیلا ہوا خون۔۔۔ سیاہی کی تہیں، تالاب کے  نزدیک سوکھی ببول۔ بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے  گول سا چاند، انگور کی بیل، یہ سب معنی خیز اشارے  ہیں، ان میں  شاعر کا شعور محفوظ ہیں، یہ علامتیں  ایک سے  زیادہ سچائیوں  کا احساس دلاتی ہیں۔ داخلی  اور  خارجی اُلجھنوں  میں  ترتیب پیدا کرتی ہے، فطرت کے  عناصر  اور  مناظر کے  یہ اشارے  انتشار میں  ایک ترتیب  اور  تنظیم کا احساس پیدا کرتے  ہیں، کچھ احساسات  اور  جذبات پیدا ہوتے  ہیں، اُلجھے  ہوئے  رشتوں اور منتشر  اور  متضاد تجربوں  میں  ان فطری علامتوں  سے  ایک داخلی تنظیم بھی پیدا ہوئی ہے، ذہنی تصویر شعری تجربہ بن گئی ہے  اس لیے  کہ ان سے  شاعر کی جذباتی  اور  حسی قدروں  کی تشکیل ہوئی ہے۔ اختر الایمان نے  ماضی  اور  حال کو ایک دوسرے  میں  جذب کر دیا ہے  ماضی کی یادیں اور حال کی تباہ کاریاں۔۔۔ داخلی ویرانی میں  ماضی  اور  حال کے  لمحات ہیں، ترشے  ہوئے  مصرعے  ملتے  ہیں۔ اختر الایمان نے  اس نظم کے  متعلق لکھا ہے:

 ’’تنہائی میں۔۔۔ ببول  اور  تالاب یوں ہی استعمال نہیں  کیے  گئے  انھیں  جہاں  بار بار دہرا کر ڈرامائی تاثر کو اُبھارا گیا ہے  وہاں  علامیہ کے  طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ببول بے  برگ و بار زندگی کا علامیہ ہے اور تالاب۔۔۔ اس سرمایہ کا جو تالاب کے  پانی کی طرح ایک جگہ اکٹھا ہو کر رہ گیا ہے  جن میں  پانی باہر سے  آ کر ملتا ہے  مگر باہر نہیں  جاتا جو ایک جگہ پڑے  پڑے  سڑنے  لگتا ہے اور اس میں  ایسی جانور (کیڑے؟) پیدا ہو گئے  ہیں  جنھوں  نے  انسانی سماج کو چکلے اور جنسی بیماریاں  دی ہیں۔‘‘  (پیش لفظ۔۔۔ آب جو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’تصور‘  میں  بھی یاد  اور  تنہائی کی باتیں  ہیں، تاریک ماضی کا خیال  اور  وہی رخسار، آغوش  اور  سیاہ زلفوں  کا تصور، گہرے  ’پیتھوس‘ کے  ساتھ جذباتی آرزو مندی سامنے  آئی ہے:

 

پھر وہی مانگے  ہوئے  لمحے  وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں  میں  خیال ماہتاب

پھر وہی تاروں  کی پیشانی پہ اِک رنگ زوال

پھر وہی بھولی ہوئی باتوں  کا دھُندلا سا خیال

پھر وہ آنکھیں  بھیگی بھیگی دامن شب میں  اُداس

پھر وہ اُمیدوں  کے  مدفن زندگی کے  آس پاس

پھر وہی فردا کی بانہیں، پھر وہی میٹھے  سراب

پھر وہی بیدار آنکھیں، پھر وہی بیدار خواب

پھر وہی وارفتگی، تنہائی افسانوں  کا کھیل

پھر وہی سرگوشیاں  ’سپنے ‘  وہ دیوانوں  کا کھیل

پھر وہی رخسار، وہ آغوش، وہ زلف سیاہ

پھر وہی شہر تمنّا، پھر وہی تاریک راہ!

زندگی کی بے  بسی اف وقت کے  تاریک جال

درد بھی چھننے  لگا، اُمید بھی چھننے  لگی

پھر وہی تاریک ماضی، پھر وہی بے  کیف حال

پھر وہی بے  سوز لمحے، پھر وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں  میں  خیال ماہتاب!

            پیاری سی نظم ہے۔ شعریت بھی ہے اور تاثیر بھی۔ لمحوں  کے  شدید احساس سے  ہر لمحہ قیمتی بن گیا ہے۔ شاعر کی رومانیت شخصیت کے  اضطراب  اور  ذہن کی کشمکش کو احساس  اور  جذبے  سے  قریب کر دیتی ہے۔ اس نظم کی رومانی فضا آفرینی میں  انبساط  اور  غم کی لہریں  ایک دوسرے  سے  مل کر جمالیاتی مسرت عطا کرتی ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            ’زندگی کے  دروازے  پر‘  بھی ایک عمدہ نظم ہے۔ تاثر گہرا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  کی خامی نظر نہیں  آتی، احساس  اور  جذبے  کی ہم آہنگی ملتی ہے۔ جذبے  کی تہہ داری متاثر کرتی ہے، اعلیٰ اقدار کی تلاش و جستجو میں  رومانی ذہن کی پہچان ہوئی ہے۔ بنیادی خیال یہ ہے:

 

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

کیا خبر توڑ ہی دے  بڑھ کے  کوئی قفل جمود!

اس نظم کی فضا پُر اسرار ہے، جس سے  موضوع کی دلکشی بڑھ گئی ہے:

پا برہنہ و سراسیمہ سا اِک جمِ غفیر

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ و دود

مضطرب ہوکے  گھروندوں  سے  نکل آیا ہے

جیسے  اب توڑ ہی ڈالے  گا یہ برسوں  کا جمود؟

 

ان پپوٹوں  میں  یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں

جن میں  فردا کا کوئی خواب اُجاگر ہی نہیں

کیسے  ڈھونڈیں گی در زیست کہاں  ڈھونڈیں  گی

ان کو وہ تشنگیِ شوق میسر ہی نہیں!

 

جیسے  صدیوں  کے  چٹانوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصور کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

 اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

 

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

 اور  یہ رقص طلسمانہ کے  رنگیں  سائے

اس کی نظروں  کو دیئے  جاتے  ہیں  پیہم دھوکے

جیسے  بس آنکھ جھپکنے  میں  وہ اُڑ کر آئے

 

شہپر موت کسی غول بیاباں  کی طرح

قہقہے  بھرتا ہے  خاموش فضاؤں  میں  صدا

کانپتے  کانپتے  اِک بار سمٹ جاتی ہے

ایک تاریک سا پردہ یوں ہی آویزاں  رہا

 

کوئی دروازہ پہ دستک ہے  نہ قدموں  کا نشاں

چند پُر ہول سے  اسرار تہہ سایہ دار

خود ہی سرگوشیاں  کرتے  ہیں  کوئی جیسے  کہے

 ’’پھر پلٹ آئے  یہ کمبخت وہی شام و سحر؟‘‘  

 

ناچتا رہتا ہے  دروازہ کے  باہر یہ ہجوم

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ و دود

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

کیا خبر توڑ ہی دے  بڑھ کے  کوئی قفل جمود؟

 

            اس نظم کی معنوی گہرائی توجہ طلب ہے، اظہارِ بیان اختر الایمان کے  ’ڈکشن‘  کی بنیادی خصوصیات لیے  ہوئے  ہے۔ ہر بند مکمل ہے  لیکن ساتھ ہی دوسرے  بند سے  باطنی رشتہ رکھتا ہے۔ لہجے  کا توازن متاثر کرتا ہے۔ مفہوم  اور  الفاظ ایک دوسرے  میں  جذب ہیں۔ بعض نظموں  جیسی خطابت یہاں  نہیں  ہے۔ یہاں  جذبے اور تخیل کی کار فرمائی ہے  جس سے  شعور و آگہی کی پہچان ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            ’قلو بطرہ‘  میں  اختر الایمان یہ بتانا چاہتے  ہیں  کہ  محبت سو رہی ہے اور قحبگی جاگ رہی ہے، اس نظم کا پس منظر دوسری جنگِ عظیم ہے۔ اختر الایمان نے  لکھا ہے:

             ’’قلوبطرہ کے  نام سے  جو اخلاقی پستی وابستہ ہے  اس تصور کا فائدہ اٹھایا گیا ہے‘‘  ۔ ’آب جو‘  کے  دیباچے  میں  اس کی وضاحت ملتی ہے:

 

 ’’اس نظم کا پس منظر دوسری جنگِ عظیم ہے اور اس کا مرکزی تخیل وہ قحبگی ہے  جو جنگ کے  سبب وجود میں  آتی ہے اور جس کا شکار عام طور پر داخلی نسل کی وہ لڑکیاں  ہوتی ہیں  جو نسلی اعتبار سے  نفسیاتی اُلجھنوں  میں  پھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور اپنے  آپ کو دوسرے  ہم وطنوں  سے  برتر  اور  مختلف سمجھتی ہیں۔‘‘  

مرکزی خیال اہم ہے، ڈکشن میں  شاعر کا تربیت یافتہ ذہن ملتا ہے:

 

شام کے  دامن میں  پیچاں  نیم افرنگی حسیں

نقرئی پاروں  میں  اِک سونے  کی لاگ

رہ گزر میں  یا خراماں  سرد آگ

یا کسی مطرب کی لے، اِک تشنۂ تکمیل راگ!

 

ایک بحر بے  کراں  کی جھلملاتی سطح پر

 

ضو فگن افسانہ ہائے  رنگ و نور

نیلے  نیلے  دو کنول موجوں  سے  چور

بہتے  بہتے  جو نکل جائیں  کہیں  ساحل سے  دور

 

چاند سی پیشانیوں  پر زر فشاں  لہروں  کا جال

 

احمریں  اُڑتا ہوا رنگ شراب

جم گئی ہیں  اشعۂ صد آفتاب

گردنوں  کے  پیچ و خم میں  گھل گیا ہے  ماہتاب

 

عشرت پرویز میں  کیا نالہ ہائے  تیز تیز

 

اُڑ گیا دن کی جوانی کا خمار

شام کے  چہرے  پہ لوٹ آیا نکھار

ہو چکے  ہیں  ہو رہے  ہیں اور دامن داغ دار

 

اس کا زریں  تخت، سیمیں  جسم ہے  آنکھوں  سے  دور

 

جام زہر آلود سے  اُٹھتے  ہیں  جھاگ

چونک کر انگڑائیاں  لیتے  ہیں  ناگ

جاگ انطوفی  محبت سو رہی ہے  جاگ جاگ

 

            اختر الایمان کی اکثر نظمیں  قاری کے  ادراک کی تربیت میں  حصہ لیتی ہیں  مگر ایسا محسوس نہیں  ہوتا۔ یہی فنکاری ہے۔ ہر ایسی نظم اپنی تازگی کے  ساتھ سرگوشی کرتی ہے۔ انسان دوستی کا جذبہ موجود رہتا ہے، شاعر انسان کے  صحت مند محرکات کے  تئیں  بیدار کرتا رہتا ہے۔ ایسی نظموں  سے  لطف و بصیرت کی ایک عمدہ سطح اُبھرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’جواری‘   اور  ’انجام‘  یہ دونوں  نظمیں  موضوعات  اور  زبان و بیان کے  اعتبار سے  مکمل  اور  خوبصورت ہیں۔ درد وکرب کا اظہار مناسب لفظوں  میں  ہوا ہے۔ ہندی کے  میٹھے اور لطیف الفاظ خوب صورتی سے  استعمال ہوئے  ہیں۔ میرا جی کے  لہجے اور ان کی تکنیک کا اثر نظر آتا ہے۔ لہجہ متوازن ہے، شعور پختہ ہے، ادراک کی لطافت متاثر کرتی ہے۔ ’جواری‘  کے  یہ بند سنئے:

 

گہرے  سائے  ناچ رہے  ہیں  دیواروں  پر محرابوں  میں

سہمے  ہوئے  ہیں  ہار نے  والے، جیتنے  والے  ہار  رہے  ہیں

پونجی نقدی جو کچھ بھی ہے  لے  کر داؤ مار رہے  ہیں

چہروں  پر ہے  موت سی طاری آنکھیں  ناؤ گردابوں  میں

 

مٹتی آشا اُکساتی ہے، کھیل جواری کھیل جواری

جو بھی ہار ا ہار  چکا ہے، اب کی بازی جیت سمجھنا

ہار بھی تیری ہار  نہیں، یہ جیت نگر کی ریت سمجھنا

سانسیں  قیدی خوف کے  پہرے  گھیرے  ہے  اِک چار دواری

 

تجھ سے  پہلے اور کھلاڑی جیتے  بھی ہیں  ہارے  بھی ہیں

ہار  اور  جیت کا سودا ہے  یہ، دُبدھا کیسی ڈرنا کیسا

پانسا پھینک جھجکتا کیوں  ہے  جیتے  جی ہی مرنا کیسا

ویرانوں  میں  طوفانوں  میں  سائے  بھی ہیں  سہارے  بھی ہیں!

 

ایک ہی بازی، ایک ہی بازی، کوئی بیٹھا اُکساتا ہے

تن کے  کپڑے، سر کی پگڑی بیچ، یہ بازی اپنانی ہے

ہم چشموں  میں  بات رہے  گی، مایا تو آنی جانی ہے

ہار بھی تیری ہار  نہیں  ہے، من کو من ہی سمجھاتا ہے

 

ہونٹ چبائے  پہلو بدلے  سب کچھ بیچا بازی جیتی

پھر لالچ میں  آ کر بیٹھے، آنکھیں  چمکیں  من لہرایا

ایسے  کھوئے  خود کو بھولے، کھیل میں  کچھ بھی یاد نہ آیا

جب اٹھے  تو جیب تھی خالی کون یہ پوچھے  کیسی بیتی

 

گہرے  سائے  اندھے  دیپک ناچ رہے  ہیں  جاگ رہے  ہیں

دیواروں  کے  حلقے  میں  ہے  بازی داؤ  اور  جواری

کیا جانے  یہ اندھی بازی کس نے  جیتی کس نے  ہار ی

کیا جانے  کیوں  سانجھ سویرا آگے  پیچھے  بھاگ رہے  ہیں

 

ہم تو اپنی سی کر ہارے، کوئی بھی تعمیر نہ ٹوٹی

سب ہی جواری، سب ہی لٹیرے  کون کسی سے  بازی جیتے

بیت گئی ہے  جیسے  بیتی، باقی چاہے  جیسی بیتے

وہم و جنوں  کی، رنگ و فسوں  کی پاؤں  سے  زنجیر نہ ٹوٹی!

(جواری)

 

اس نظم میں  جیسے  کبیر کے  کسی دوہے  کا رس اُتر گیا ہو، تاثرات اہم ہیں، تاثراتی مصوری کی خصوصیات ملتی ہیں، آہنگ مدھم ہے۔ اختر الایمان کا ایمائی انداز موجود ہے۔ افسردگی  اور  درد مندی کے  تاثرات متاثر کرتے  ہیں۔ ’انجان‘  کا آہنگ بھی مدھم ہے، اس کا بھی ایمائی انداز متاثر کرتا ہے:

 

تم ہو کس بن کی پھلواری اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو، میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

 

چلتا پھرتا آ پہنچا ہوں، راہی ہوں، متوالا ہوں

ان رنگوں  کا جن سے  تم نے  اپنا روپ سجایا ہے

ان رنگوں  کا جن سے  تم نے  اپنا کھیل رچایا ہے

ان گیتوں  کا جن کی دھن پر ناچ رہے  ہیں  میرے  پران

ان لہروں  کا جن کی رو میں  ڈوب گیا ہے  میرا مان

میرا روگ مٹانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

 

میں  ہوں  ایسا راہی جس نے  دیس دیس کی آہوں  کو

لے  لے  کر پروان چڑھایا  اور  رسیلے  گیت بنے

چنتے  چنتے  جگ کے  آنسو اپنے  دیپ بجھا ڈالے

میں  ہوں  وہ دیوانہ جس نے  پھول لٹائے  خار چنے!

 

میرے  گیتوں اور پھولوں  کا رس بھی سوکھ گیا تھا آج

میرے  دیپ اندھیرا بن کر روک رہے  تھے  میرے  کاج

 

میری جوت جگانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

 

ایک گھڑی اِک پل بھی سکھ کا امرت ہے  اس راہی کو

جیون جس کا بیت گیا ہو کانٹوں  پر چلتے  چلتے

سب کچھ پایا پیار کی ٹھنڈی چھاؤں  جو پائی دنیا میں

اس نے  جس کی بیت گئی ہو برسوں  سے  جلتے  جلتے

 

میرا درد بٹانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو، میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

(انجان)

            ایسے  درد بھرے  لہجے اور ’پیتھوس‘  سے  جمالیاتی حس کو سکون ملتا ہے۔ زندگی کے  کانٹوں  پر چلتے  چلتے،  اور  دنیا والوں  کے  آنسو چنتے  چنتے  زندگی گزر گئی، دیوانے  نے  پھول لٹائے اور کانٹے  چنے، ایک لمحے  کا بھی سکھ مل جاتا ہے  تو راہی اسے  امرت سمجھتا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے  اس کے  دیپ اندھیرے  کی صورت اس کے  کام روک رہے  ہیں، اختر الایمان کی ہیومنزم کا جوہر اس نظم میں  موجود ہے، پوری زندگی کے  لیے  جینا  اور  دُکھ اٹھانا  اور  اس دُکھ سے  لذّت لینا آسان نہیں  ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’نئی صبح‘  میں  بھی گہری افسردگی  اور  درد مندی کی وجہ سے  تجربہ پُر کشش بنا ہے۔ زبان و بیان کا آہنگ متاثر کرتا ہے، صوتی ترتیب میں  فنکاری ملتی ہے:

 

کالے  ساگر کی موجوں  میں  ڈوب گئیں  دھُندلی آشائیں

جلنے  دو یہ دیئے  پرانے  خود ہی ٹھنڈے  سو جائیں  گے

بہہ جائیں  گے  آنسو بن کر روتے  روتے  سو جائیں  گے

اندھے  سایوں  میں  پلتے  ہیں  مبہم سے  غمگین فسانے

دُکھ کی اِک دیوار سے  آ کر ٹکرا جاتے  ہیں  پروانے

 

دور فسردہ کی انگڑائی لے  بن بن کر ٹوٹ رہی ہے

سُرخ زباں  کی نازک لو پر جاگ رہی ہے  ایک کہانی

ٹوٹے  پھوٹے  جام پڑے  ہیں، سونی سونی ہے  کچھ محفل

دھُوپ سی ڈھل کر بیت گئی ہے  ساقی کی مجبور جوانی

کیا جانے  کب سورج نکلے، بستی جاگے  غم مٹ جائیں!

            لہجہ متوازن ہے۔ انداز گفتگو میں  اعتدال  اور  توازن ہے۔ سچائی واضح کر نے  کے  لیے  مدھم  اور  دلنشیں  انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مایوسی  اور  اُمید دونوں  تجربے  کا جوہر بنے  ہوئے  ہیں، یہ حسیات کی شاعری ہے  جو منفرد حیثیت رکھتی ہے۔

            میرے  ایک سوال کے  جواب میں  اختر الایمان نے  مجھے  لکھا تھا:

 ’’بنگالی زبان کی شاعری یا ادب کا مجھ پر کوئی اثر نہیں  ہے، میں  نے  ایک زمانے  میں  کبیر پنتھی شاعر داد و کا مطالعہ کیا تھا۔ میں  سمجھتا ہوں  ٹیگور نے  اپنا طرز وہیں  سے  لیا تھا، غالب  اور  اقبال کی شاعری کا میں  نے  کوئی اثر نہیں  لیا، ابتداء میں  میر کو پڑھنے  سے  یہ احساس ہوا تھا، اس شاعر کے  لہجے  میں  خلوص  اور  صداقت بہت ہے، جو کسی اچھی شاعری کا بنیادی جزو ہے۔ میں  نے  اپنی شاعری میں  اس کا خیال رکھا ہے  ورنہ جہاں  تک  اور  دوسری روایات کا تعلق ہے  میرا خیال ہے  میری شاعری ان کی بالکل ضد ہے۔‘‘  (راقم الحروف کے  نام ایک خط سے )

            اس کی روشنی میں  ان تینوں  نظموں  کا مطالعہ کیجیے اور ان کے  ساتھ ’اجنبی‘   اور  بلاوا‘  کو بھی پیش نظر رکھئے  جن میں  ڈکشن کی صورت یہ ہے:

 

تو ہے  ایک پہیلی جس کو جو بوجھے  وہ جان سے  جائے

تو ہے  ایسی مٹی جس سے  لاکھوں  پھول چڑھیں  پروان

(اجنبی)

 

میں  ہوں  ایسا پات ہوا میں  پیڑ سے  جو ٹوٹے اور سوچے

دھرتی میری گور ہے  یا گھر، یہ نیلا آکاش جو سرپر

پھیلا پھیلا ہے اور اس کے  سورج چاند ستارے  مل کر

میرا دیپ جلا بھی دیں  گے  یا سب کے  سب رُوپ دکھا کر

ایک اِک کر کے  کھو جائیں  گے، جیسے  میرے  آنسو اکثر

پلکوں  پر تھرتھرا کر تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

جیسے  بالک مانگ مانگ کر نئے  کھلونے  سو جاتے  ہیں!

(بلاوا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’پگڈنڈی‘  میں  سکوت کی بلاغت  اور  خاموشی کی آواز ہے، خوبصورت نظم ہے، ایک پیکر سے  کئی خاکے  ذہن میں  اُبھرتے  ہیں، ایک کہانی میں  بہت سی حقیقتیں  شعری نزاکتوں  کے  ساتھ شامل ہو گئی ہیں۔ اس نظم کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے:

 

غم دیدہ پسماندہ راہی تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

پاؤں  راہ کے  رخساروں  پر دھُندلے  نقش بنا دیتے  ہیں

آنے  والے اور مسافر پہلے  نقش مٹا دیتے  ہیں

وقت کی گرد میں  دبتے  دبتے  ایک فسانہ ہو جاتے  ہیں

پگڈنڈی زندگی کا راستہ ہے۔ وقت  اور  لمحوں  کا مطالعہ اس علامت کے  ذریعہ کیا گیا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            ’پس منظر‘   اور  بعض ایسی نظموں  کو پڑھ کر ہی غالباً چند نقادوں  نے  اختر الایمان کو ’قنوطی‘  کہا تھا۔ اس زمانے  میں  ’قنوطی‘  ’رجائی‘  کی اصطلاحیں  استعمال ہوا کرتی تھیں  جو آج مضحکہ خیز بن گئی ہیں۔ یہ نظمیں  ایک حساس، بیدار  اور  مضطرب ذہن کی پیداوار ہیں، اختر الایمان کی تخلیقی صلاحیتوں  کا اظہار ایسی ہی نظموں  سے  ہوا ہے۔ ’پس منظر‘  بھی ایک اہم نظم ہے، ذہنی اُلجھنوں اور تنہائی کے  احساس کے  تاثرات مثاثر کرتے  ہیں۔ خارجی دباؤ کا ردِّ عمل  اور  سوچ کی کیفیتیں  لفظوں، پیکروں اور استعاروں  میں  نمایاں  ہیں۔ نظم کی ’سی مٹری‘  (Symmetry) توجہ چاہتی ہے۔ تربیت یافتہ رومانی مزاج کی یہ ایک عمدہ تخلیق ہے۔ یادوں  کی پرانی قبروں اور ان قبروں  کے  کتبوں  سے  شاعر کے  جذبات  اور  احساسات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ نظم کا مجموعی آہنگ  اور  تاثر متاثر کرتا ہے۔ فکر کے  مقابلے  میں  تخیل کی گرفت زیادہ مضبوط ہے۔ جذباتی تاثر گہرا ہے۔ فرد کا المیہ اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ لب و لہجے  کی درد مندی  اور  المناکی نظم کے  حسن کو بڑھاتی ہیں۔ اندرونی ویرانی  اور  تباہی کو علامتوں  میں  پیش کیا گیا ہے۔ قدروں  کا کھوکھلا پن بھی ظاہر ہوتا ہے، ایک یاد اندھیرے  میں  چمک کر پریشان کر دیتی ہے اور پھر کئی خاکے  ابھر نے  لگتے  ہیں۔ ماضی کے  بعض لمحے  روشن ہو جاتے  ہیں۔ شاعر اپنے  المیہ تجربوں  کو ان سے  دور رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ماضی کے  غم  اور  درد کو کہاں  تک سنبھالے  چونکہ پرانی قبروں  میں  نہ کسی کا ماس ہے اور نہ ہڈی  اور  نہ کسی کا رُوپ نہ چھایا  اور  اس کی مٹّی کی سوندھی خوشبو اُڑی جا رہی ہے، جس مٹّی میں  اس نے  اپنے  آنسو بوئے  تھے  اس لیے  وہ فیصلہ کرتا ہے:

 

۔۔۔ سوچ رہا ہوں  جو ہو

ان کتبوں  کو ان قبروں  میں  دفن کروں اور آنکھ بچا لوں

اس منظر کی تاریکی سے۔۔۔ جو رہ جائے  وہ اپنا لوں!

 

            بات یہ بھی ہے  کہ یادوں  کی قبروں  کو دیکھتے اور کھودتے  ہوئے  کچھ سائے  بھی نظر آئے  ہیں  درد کی صورت۔۔۔ وہ ان قبروں، ماضی کے  ان کھنڈروں  کو ہمیشہ کے  لیے  بند کر دینا چاہتا ہے  ’کتبے ‘  کی یاد کی علامت میں، ان ہی سے  قبر (ماضی) کی تمام باتیں اور یادیں  وابستہ ہیں۔ ایک یاد سے  جانے  کتنی باتیں  زندہ  اور  تازہ ہو جاتی ہیں اور وہ۔۔۔ اس علامت کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ان کتبوں  کو قبروں  میں  دفن کر کے  اندھیرے اور تاریکی سے  آنکھیں  بچا لینا چاہتا ہے۔ نظم یہ ہے:

 

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر

یوں ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  تنہا بیٹھا

کہیں  کسی کا ماس نہ ہڈی، کہیں  کسی کا رُوپ نہ چھایا

کچھ کتبوں  پر دھندلے  دھندلے  نام کھدے  ہیں  میں  جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں  ہی کو اپنے  من کا بھید بتا کر

مستقبل  اور  حال کو چھوڑے، دکھ سکھ سب میں  لیے  پھرا ہوں

ماضی کی گھنگھور گھٹا میں  چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں

کس کی یاد چمک اُٹھی ہے  دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر

بیٹھا قبریں  کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اِک مورت

درد سا بن کر ایک اِک سایا، جاگ رہے  ہیں  دور کہیں  سے

آوازیں  سی آ جاتی ہیں، گزرے  تھے  اِک بار یہیں  سے

حیرت بن کر دیکھ رہی ہے، ہر جانی پہچانی صورت

گویا جھوٹ ہیں  یہ آوازیں  کوئی میل نہ تھا ان سب سے

جن کا پیار کسی کے  دل میں، اپنے  گھاؤ چھوڑ گیا ہے

جن کا پیار کسی کے  دل سے  سارے  رشتے  توڑ گیا ہے

 اور  وہ پاگل ان رشتوں  کو بیٹھا جوڑ رہا ہے  کب سے!

 

میری نس نس ٹوٹ رہی ہے  بوجھ سے  ایسے  درد کے  جس کو

اپنی روح سمجھ کر اب تک لیے  لیے  پھرتا تھا ہر سو

لیکن آج اُڑی جاتی ہے  اس مٹّی کی سوندھی خوشبو

جس میں  آنسو بوئے  تھے  میں  نے  بیٹھا سوچ رہا ہوں  جو ہو

 

ان کتبوں  کو ان قبروں  میں  دفن کروں اور آنکھ بچا لوں

اس منظر کی تاریکی سے  جو رہ جائے  وہ اپنا لوں

 

’پس منظر‘ ۔۔۔۔ جدید اُردو نظم میں  ایک قابل قدر اضافہ ہے!

 

            ’ایک لڑکا‘  اختر الایمان کے  نرگسی رجحان کی عمدہ تخلیق ہے۔ جدید نظم ایک شاہکار ہے۔ نارسی سس (Narcissus) نے  جس دریا یا تالاب میں  اپنی صورت دیکھی تھی وہ وقت یا ’ٹائم‘  کا دریا تھا۔ اختر الایمان نے  بھی نارسی سس کی طرح وقت کی لہروں  میں  اپنی صورت دیکھی ہے۔ اس آئینے  میں  ان کے  ساتھ ایک پورا معاشرہ  اور  اس معاشرے  کی قدریں  نظر آ رہی ہیں۔ ماضی  اور  حال کا یہ رومانی تصور ہمہ گیر ہے۔ وقت کی ان لہروں  میں  انھیں  وہ اختر الایمان نظر آیا جو ایک معصوم لڑکا ہے، وہ نہیں  کہ جس نے  زمانے  کے  ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اس نظم میں  شاعر نے  اپنے  اس پیکر کو دیکھا ہے  جسے  وہ ماضی میں  چھوڑ آیا تھا، یہ پیکر متحرک ہے  زندہ ہے، لڑکے  کا یہ پیکر خود شاعر کی شخصیت کا ایک حصّہ ہے  سے  وہ اپنے  گاؤں  چھوڑ آیا تھا۔ وہ ہمزاد ہے، سایہ ہے، شاعر کے  لاشعور کی تاریکیوں  جسے  نکل کر یہ سایہ، یہ ہمزاد مسکراتا ہوا کچھ پوچھ رہا ہے۔

            والیرا کے  ایک افسانے  کی ہیروئن کہتی ہے  ’’میں  اپنے  جلتے  ہوئے  ہونٹ آئینے  کی سرد سطح پر رکھ دیتی ہوں اور اپنے  پیکر کو بے  اختیار چومتی ہوں۔‘‘  اختر الایمان نے  دراصل غیر شعوری طور پر اپنے  پیکر کو اسی طرح پیار کیا ہے، اس پیکر کو جوان کے  وجود سے  نکل کر بہت پیچھے  رہ گیا تھا، ماضی کے  دھندلکوں  میں۔۔۔ اس نظم کا لڑکا، انسان کے  سادہ، معصوم  اور  آزاد پیکر کی علامت بن جاتا ہے اور اس طرح اس نظم کی معنویت پھیل جاتی ہے۔ سادہ معصوم  اور  آزاد انسان کے  اس تصور سے  روسو کے  انسان کی یاد آ رہی ہے۔ اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’مجھے  اپنے  بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہا ہے اور یہ واقعہ ہی اس نظم کا محرک ہے۔ ہم ایک گاؤں  سے  منتقل ہو کر دوسرے  گاؤں  جا رہے  تھے، اس وقت میری عمر تین چار سال کی ہو گی۔ ہمارا سامان ایک بیل گاڑی میں  لادا جا رہا تھا  اور  میں  اس گاؤں  کے  پاس کھڑا اسی منظر کو دیکھ رہا تھا۔ میرے  چہرے  پر کرب  اور  بے  چینی تھی۔ میں  نے  کہا کہ میں  گاؤں  کو چھوڑنا نہیں  چاہتا تھا کیوں؟ یہ بات میں  اس وقت نہیں  سمجھتا تھا، اب سمجھتا ہوں، وہاں  بڑے  بڑے  باغ تھے، باغوں  میں  کھلیان پڑے  تھے، کوئلیں  کوکتی تھیں، پپہیے  بولتے  تھے، وہاں  جوہڑ تھے، جوہٍڑ میں  نیلوفر  اور  کنول کھلتے  تھے۔ وہاں  کھیتوں  میں  ہرنوں  کی ڈاریں  کلیلیں  کرتی نظر آتی تھیں، وہاں  وہ سب تھا جو ذہنی طور پر مجھے  پسند ہے  مگر وہ معصوم لڑکا اس گاڑی کو روک نہ سکا، میں  اس گاڑی میں  بیٹھ کر آگے  چلا گیا مگر وہ لڑکا وہیں  کھڑا رہ گیا۔‘‘  

(پیش لفظ یادیں )

            وہ لڑکا شاعر کے  لاشعور میں  زندہ رہا۔ شاعر دنیا کی کشمکش میں  الجھا رہا لیکن وہ لڑکا آزاد تھا، فطرت کی معصومیت  اور  نیچر کے  حسن میں  جذب رہا، تتلیوں  کو پکڑتا رہا، کھیتوں، پگڈنڈیوں  پر کھیلتا رہا۔ یہ لڑکا اس نظم میں  آزادی، فطرت کی معصومیت  اور  سچائی کا علامیہ بن جاتا ہے، شاعر کی زندگی کی پیچیدگی، کشمکش  اور  تضاد کا علامیہ۔

            اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’اس کے  بعد اس لڑکے  کو میں  نے  اکثر اپنے  گردو پیش پایا۔ یہ لڑکا جس کے  اختیار میں  کچھ بھی نہیں  تھا مگر جو آزاد تھا یا آزاد رہنا چاہتا تھا، جس کی فطرت  اور  نیچر دونوں  ایک دوسرے  سے  قریب تھیں  جو معصومیت، سچائی  اور  ستھرے  پن کا علامیہ تھا جو ملوث نہیں  تھا کسی کدورت سے  بھی!‘‘  (پیش لفظ۔۔۔ یادیں )

آگے  لکھتے  ہیں:

 ’’وقت کے  ساتھ اس لڑکے  کی تصویر میرے  ذہن سے  محو ہو گئی، میں  دنیا کی کشمکش میں  کھو گیا  اور  شاعر ہو گیا۔ پھر ایک بار میرے  ذہن میں  خیال آیا میں  ایک نظم کہوں، جس میں  اپنے  نام کا استعمال کروں، بظاہر یہ لڑکا  اور  اپنے  نام والا احساس دونوں  ایک دوسرے  سے  الگ ہیں  مگر دراصل ایک ہے، وہ لڑکا جس کی تصویر کبھی میرے  ذہن میں  تھی اس کا نام اختر الایمان ہے۔ احساس کی اس دوسری منزل کے  بعد مجھے  اس لڑکے  کا جگہ جگہ کا سفر یاد آیا۔ یہ لڑکا خانہ بدوش تھا، کوئی اس کا مستقل گھر نہیں  تھا، اس کے  پاس مناسب اسباب معیشت نہیں  تھے، اس کا کوئی پاس مستقبل نہیں  تھا، مجھے  اس لڑکے  سے  ہمدردی ہو گئی، یہ ہمدردی دراصل مجھے  اپنے  سے  تھی مگر چونکہ میں  نے  اپنے  کو اس لڑکے  سے  الگ کر لیا تھا اس لیے  میری شخصیت دب گئی۔ اس لڑکے  کی شخصیت اُبھر آئی۔ تخلیقی عمل کی چوتھی منزل یہ تھی۔۔۔ میں  نے  غیر شعوری طور پر اس لڑکے  کو اپنا ہیرو بنا لیا۔‘‘  

(پیش لفظ۔۔۔ یادیں )

            اس نظم کا حسن تصادم  اور  کشمکش میں  ہے، شاعر خود کو اپنے  معاشرے  کی کشمکش  اور  اپنے  عہد کے  تضاد میں  گرفتار دیکھتا ہے  لیکن جب اس کی نظر اس آئینے  پر جاتی ہے  تو وہ والیرا کی ہیروئن کی طرح اس لڑکے  کو غیر شعوری طور پر چوم لیتا ہے  جس کی صورت اس آئینے  میں  نظر آتی ہے۔

            نظم کے  پیچھے  اس جذباتی کشمکش  اور  کیفیت کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے، شاعر اپنے  ہمزاد  اور  اپنے  سائے  کو دیکھ اُلجھ گیا ہے  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ وہ اس کے  قریب ایک خاص قسم کا انبساط پا رہا ہے۔ چاہتا ہے  یہ پیکر اس کو پوچھے، یہ ظاہر ہو کہ معاشرتی ہیجانات سے  الگ اس سچائی  اور  معصومیت  اور  انسانیت کی روح  اور  ضمیر کی اہمیت کیا ہے  اس نظم کے  حسن میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ جب شاعر خود اپنے  تمدن  اور  معاشرے  کی علامت بن گیا ہے اور اس لڑکے  کو پوری انسانیت کے  ضمیر کا علامیہ بنا دیا ہے۔ اس طرح نرگسی رجحان  اور  ہمہ گیر ہو گیا ہے۔ اپنی شخصیت کو اس طرح دو حصوں  میں  تقسیم کر کے  شاعر نے  دو آئینے  سامنے  رکھ دیئے  ہیں۔ ایک آئینہ وہ جو عہد  اور  معاشرے  کا ہے  جس میں  فرد  اور  زمانے  کی سمجھوتہ بازی صاف دکھائی دے  رہی ہے اور دوسرا آئینہ وہ جس میں  پوری انسانیت کی روح  اور  پوری زندگی کا ضمیر نظر آ رہا ہے۔ یہ نظم داخلی  اور  خارجی کشمکش کو اچھی طرح نمایاں  کرتے  ہوئے  شاعر کی تخیلی فکر  اور  اس کی رومانیت کی ہمہ گیری کو سمجھاتی ہے۔ پیکر کی تقسیم میں  جذباتی پہچان  اور  رومانی گریز کے  عمل کو سمجھا جا سکتا ہے، المیہ کا احساس اس وقت بڑھ جاتا ہے  جب ہم یہ سنتے  ہیں:

 

یہ لڑکا پوچھتا ہے  جب تو میں  جھلا کے  کہتا ہوں

وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور اضطراب آسا

جسے  تم پوچھتے  رہتے  ہو کب کا  مر چکا ظالم

اسے  خود اپنے  ہاتھوں  سے  کفن دے  کر فریبوں  کا

اسی کی آرزوؤں  کی لحد میں  پھینک آیا ہوں

 اور  اس المیہ کا حسن اس وقت اُبھرتا ہے  جب:

یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے  کہتا ہے

یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں  زندہ ہوں!

 

            انسان کی جذباتی زندگی کا یہ آئینہ کتنا روشن  اور  تابناک ہے، غیر شعور کی تاریکیوں  میں  برسوں  سانس لینے  والا معصوم لڑکا پوری انسانیت کی روح بن کر اُبھرتا ہے۔ یہ لڑکا پرچھائیں  ہے، روح ہے، ضمیر ہے، معصوم  اور  پاکیزہ زندگی کے  خواب کی علامت ہے، آنے  والے  روشن لمحوں اور مستقبل کا روشن اشارہ ہے، اس نرگسی رجحان میں  موت کی جبلّت کو جس طرح اُبھارا گیا ہے  اس سے  شاعر کی فنکارانہ صلاحیتوں  کا گہرا احساس ملتا ہے۔ غیر شعوری طور پر اس پیکر کو توڑ دیا گیا ہے  جو تضاد  اور  تصادم کا شکار تھا، وہ پیکر زندہ ہے  جو معصوم ہے، جو پوری انسانیت کی روح ہے اور جو ایک نئی تاریخ  اور  ایک نئی زندگی کا عنوان ہے۔

            وہ لڑکا جو اونچے  ٹیلوں، آموں  کے  باغوں اور کھیتوں  کے  مینڈوں  پر اُچھل رہا ہے، جو جھیلوں  کے  پانی  اور  بستی کی گلیوں  میں  کھیل رہا ہے  جو تتلیوں اور تھے  پرندوں  کو چپکے  سے   پکڑ رہا ہے اور جو خوابوں  میں  بادل بن کر اڑ رہا ہے، وہ بھی شاعر کی رومانی فکر کا ایک پیکر ہے، وہ بھی ایک معصوم نرگسی کردار ہے، قدروں  کے  تصادم  اور  معاشرے  کے  تضاد کے  ساتھ اس نظم میں  داخلی کشمکش کے  کرب کی داستان ہے۔

            اس نظم کا گہرا طنز زندگی کی شکست و ریخت  اور  تضاد کے  ردِّ عمل سے  پیدا ہوا ہے۔ قدروں  کو تبدیل کر نے اور زندگی کو خوب صورت بنانے  کی ابدی تمنا بھی ہے اور ساتھ ہی اس حقیقت کا گہرا احساس کہ ہر عہد میں  اس تمنا کی شکست ہوئی ہے۔ اس آرزو کا خون ہوا ہے۔ خود شاعر نے  مجبور ہو کر وقت سے  سمجھوتہ کر لیا ہے۔ حالانکہ اس کے  دل میں  بھی زندگی کی قدروں  کو تبدیل کر نے اور حیاتِ انسانی کو خوب صورت  اور  زیادہ سے  زیادہ روشن کر نے  کی آرزو تھی۔ داخلی طور معصوم لڑکے  کی صورت یہ آرزو زندہ ہے۔۔۔ داخلی طور پر شاعر زندگی کے  حسن کو سب کچھ تصور کرتا ہے، ظاہری طور پر اس میکانکی، مشینی  اور  سرمایہ دارانہ زندگی کے  شکنجے  میں  گرفتار ہے۔ شاعر اس عہد کے  فرد کی علامت ہے اور ساتھ ہی نئے  ذہن کا ایک مکمل اشارہ۔ اس کی شکست اس لڑکے  کی شکست نہیں  ہے  جو اب بھی قدروں  کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ لڑکا فطرت کی معصومیت، جدوجہد  اور  پورے  انسانی وجود کی روشنی کا پیکر ہے۔

            زبان و زبان کے  اعتبار سے  بھی یہ ایک کامیاب نظم ہے۔ اختر الایمان کی انفرادیت کی پہچان ایسے  ہی اسلوب میں  ہوتی ہے۔ یہ ان کی ’پرسنل ڈکشن‘  ہے۔ جذباتی تلازمات (Emotional Association) کے  لیے  جن لفظوں  کا انتخاب کیا گیا ہے  وہ بھی توجہ طلب ہے، تکنیک کے  حسن کو تشبیہوں اور استعاروں، ڈرامائی عناصر  اور  خیال افروزی رمزیت  اور  ایمائیت  اور  لہجے  کی تیزی  اور  غنائی کیفیتوں  کے  پیش نظر دیکھئے  تو محسوس ہو گا یہ کتنا اہم شعری تجربہ ہے۔ جذباتی  اور  حسیاتی شعور میں  ایک پیکر کا خاکہ جذباتی تلازمات  اور  سماجی تلازمات کے  ذریعہ اُبھرا ہے اور کئی سچائیوں  کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اس فرد آشوب میں  پورے  معاشرے اور پوری انسانیت کے  ہیجانات ظاہر ہوئے  ہیں۔ ’’دیکھو میں  زندہ ہوں‘‘  کی آواز سے  وہی سکون ملتا ہے  وہی مسرت حاصل ہوتی ہے اور وہی لذت ملتی ہے  جو کسی اچھے  المیہ ڈرامے  سے  حاصل ہوتی ہے۔ ضمیر کی یہ آواز بہت اہم ہے اور اس آواز کو نہایت فنکارانہ انداز میں  اُبھارا گیا ہے۔ ہر فرد کے  دل کی آواز معلوم ہوتی ہے، لفظی صناعی اختر الایمان کے  داخلی ہیجانات کا پردہ بن گئی ہے۔ لیکن ہر لفظ ایک اشارہ ہے  اضطراب  اور  روحانی کرب کا اشارہ، ترشے  ہوئے  مصرعے  ملتے  ہیں، حسی تجربوں  کا اظہار متاثر کرتا ہے۔ موضوع  اور  اسلوب سے  اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے  کہ نیا آدمی ذہنی طور پر کتنا مختلف ہے، خارجی  اور  داخلی شکست و ریخت ڈرامائی تناؤ کے  ساتھ سامنے  آئی ہے، تخلیقی کرب کی پہچان کے  لیے  اس ڈکشن سے  مدد ملتی ہے۔

            ’ایک لڑکا‘  پڑھتے  ہوئے  مجھے  ورڈس ورتھ (Wordsworth) کی نظم ’ایک لڑکا تھا‘  (There was a Boy) بار بار یاد آئی۔ دونوں  نظموں  میں  نرگسی رجحان ملتا ہے۔ ورڈس ورتھ کی نظم کا لڑکا بھی اختر الایمان کے  لڑکے  کی طرح خود شاعر کا پیکر ہے، کہا جاتا ہے  کہ اس نظم میں  ورڈس ورتھ نے  پہلے  ’میں ‘  (I )  اور  ’میرا‘  (My) کا استعمال کیا تھا پھر ’وہ‘  (He)  اور  ’اس کا‘  (His) استعمال کیا، غالباً نظر ثانی کے  بعد  اور  کئی برسوں  بعد اس نظم میں  بچپن کی یادیں  ہیں۔ اس فردوس گمشدہ کی تلاش ہے، ورڈس ورتھ کو بچپن کے  لمحوں  سے  دلچسپی اس لیے  ہے  کہ اس لڑکے  کا گہرا رشتہ آزاد، خوبصورت  اور  اپنے  نشے  میں  جھومتی فطرت یا نیچر سے  ہے۔ ان لمحوں  کے  ذریعہ شاعر ’نیچر‘  میں  جذب ہونا چاہتا ہے، وہ ان لمحوں  کو پھر گرفت میں  لینے  کا خواہش مند ہے۔ اسی آرزو میں  ورڈس ورتھ کی رومانیت پوشیدہ ہے۔ اس کی آرزو مندی کا تجزیہ اس کی رومانیت کا تجزیہ ہے۔ اس نظم میں  بھی تاثرات بہت اہم ہیں۔ جذباتی آرزو مندی، تخیل پسندی، داخلی اضطراب  اور  بے  چینی، نگاہوں  کے  پیکر  اور  آوازوں  کی حسی تصویریں۔۔۔ یہ تمام باتیں  اہم ہیں۔ شاعر معصوم بچہ بن جاتا ہے، آبشاروں  کی آوازیں  سنتا ہے، پتھروں اور چٹانوں  سے  لطف اندوز ہوتا ہے، جنگلوں  میں  دیوانہ وار گھومتا ہے، چشمے  میں  آسمان کو چومتا ہے۔ انگریزی ادب میں  اس نظم کا ذکر بہت کم ملتا ہے، حالانکہ یہ ورڈس ورتھ کی ایک خوب صورت نظم ہے۔ فطرت کے  حسن  اور  لڑکے  کے  جذبے اور احساس کی ہم آہنگی غضب کی ہے۔ ورڈس ورتھ نے  ماضی کی قدروں اور ماضی کے  لمحوں  سے  جو بے  پناہ  محبت کی ہے  اس کی یہ عمدہ مثال ہے۔ چونکہ وہ لڑکا خود شاعر کا اپنا پیکر ہے  اس لئے  جذباتی  اور  حسیاتی کیفیت زیادہ متاثر کرتی ہے۔

            اختر الایمان کا پیکر وہی ہے  جو ورڈس ورتھ کا ہے  لیکن دونوں  شعراء کے  رجحانات مختلف ہیں۔ وقت  اور  زمانے  کے  اختلاف  اور  موضوع کی مختلف سطحوں  کے  اختلاف سے  دونوں  نظموں  کا مزاج مختلف نظر آتا ہے۔

            ’ایک لڑکا‘  اُردو شاعری میں  ایک اضافہ ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’ محبت‘  اس نظم کو پڑھتے  ہوئے  مجھے  ہیرک (Herrick) کی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔ جس کا موضوع بھی ’ محبت  اور  وقت‘  ہے۔ اس نظم کا مفہوم یہ ہے  ’زندگی مختصر ہے، لمحے  تیزی سے  بھاگ رہے  ہیں، لمحے  پگھل رہے  ہیں، ہر لمحہ پانی کا ایک قطرہ ہے، گم ہو گیا تو پھر ہم اسے  پا نہیں  سکتے، ہم بھی تو مٹتی ہوئی پرچھائیاں  ہیں،  محبت  اور  ہماری تمام مسرتیں۔۔۔ رات کی گہری تاریکیوں  میں  گم ہو جاتی ہیں، آؤ۔۔۔ میرے  پاس آؤ۔۔۔‘‘  

            اختر الایمان کا رجحان مختلف ہے۔ ان کے  رومانی ذہن نے  ’ محبت  اور  وقت‘  کے  روایتی  اور  ابدی موضوع کو احساس کا ایک نیا لہجہ عطا کیا ہے۔ موضوع  اور  ہیئت کے  اعتبار سے  یہ نظم جدید اُردو نظم میں  ایک اضافہ ہے۔ اختر الایمان کا ’ڈکشن‘  ایک ’وژن‘  عطا کرتا ہے۔ اس نظم میں  اسلوب کا حسن متاثر کرتا ہے۔ حسی فکر  اور  علامت سازی کے  عمل کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ زندگی کی کشمکش  اور  تصادم  اور  اذیتوں اور حسرتوں  کے  لمحوں  میں  روح کے  کرب کی پہچان بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی روح کی تابناکی  اور  اس کی ہمیشگی  اور  ابدیت کا احساس بھی گہرا ہوتا ہے۔ ’طائر‘  اسی روح کی علامت ہے۔ یہ حسی پیکر  اور  ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ نظم کے  آہنگ سے  شاعر کے  درد  اور  پیتھوس کو سمجھنے  میں  مدد ملتی ہے۔ آہنگ  اور  لہجہ پر وقار  اور  پُر اثر ہے۔ تیزی سے  بھاگتے  لمحوں  کی کیفیتوں  کو سمجھانے  میں  اس آہنگ  اور  لہجے  سے  مدد لی گئی ہے:

 

رات میں  دیر تک اُڑتے  بادل کھلے  چاند کی کشمش

ٹکٹکی باندھ کر ایسے  دیکھا کیا جیسے  یہ ماجرا

میری ہی داستاں  کا کوئی پارہ ہے، کون آوارہ ہے

تو کہ میں ؟ ایک چھوٹا سا طائر فضا میں  تھا نغمہ سرا

دور نزدیک پھر دور ہر سمت اِک تان کی گونج تھی

رات آہستہ آہستہ رُک رُک کے  ایسے  گزرتی رہی

جیسے  میں اور تو وقت کی وادیوں  سے  گزرتے  ہوئے

شہر کی سونی، سنسان خاموش گلیوں  میں  گم ہو گئے!

رات کی کالی دھاری سے  دن کی سفیدی الگ ہو گئی

دونوں  اِک دوسرے  سے  الگ ہو گئے  ہاں  وہ طائر مگر

یوں  ہی گاتا رہا، اُڑتے  بادل، کھلی چاندنی کا سماں

وقت کے  ساتھ ساتھ آپ تبدیل تحلیل ہوتا رہا

میں  تجھے  تو مجھے  ڈھونڈتی رہ گئی، وقت اُڑتا گیا

ان خنک سانولی بھیگی راتوں  کی پر  صنا

تھرا، دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتا ہے۔ز‘شوق تنہائیاں

صرف اِک داغ غم تاب کی شکل میں  منجمد ہو گئیں

پر وہ نغمہ، وہ حسن زمین و زماں، روشنی

اس پرندے  کی وہ دھیمی آواز، وہ میٹھی کلکاریاں

بنت آغاز و انجام کے  با کرہ بطن میں  رہ گئیں!

 اور  اِک نسل سے  دوسری نسل تک عکس روح ازل

عکس روح ابد ایسے  نشو و نما پائے  گا خون میں

جیسے  بنجر زمیں  قطرۂ ابر سے  سیر و شاداب ہو!

اُڑتے  بادل کھلی چاندنی کا سماں، میٹھی تنہائیاں

سب کی سب بن کے  مٹتی ہوئی پیاری تصویریں  ہیں

صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے

صرف حسن ازل  اور  حسن ابد کی مہک زندہ ہے

صرف اس طائر خوش ادا خوش نوا کی لہک زندہ ہے

ایک دن آئے  گا تو بھی مر جائے  گی میں  بھی مر جاؤں  گا!

 

            ’رات‘  اُڑتے  ہوئے  بادل، چاند کی کشمکش، ان سے  زندگی کی قدروں اور ان کے  تصادم  اور  لمحوں  کی کیفیتوں  کو سمجھانے  کی ایک فنکارانہ کوشش ہے۔ روح کی آواز کو دور نزدیک  اور  پھر دور کہہ کر شدت سے  محسوس کرانے  کی کوشش کامیاب ہے۔ طائر روح  اور  شخصیت کا پیکر ہے اور اس کی آواز  محبت کا نغمہ  اور  پیغام ہے۔ وقت گزر جاتا ہے  لیکن آواز زندہ رہتی ہے۔ شاعر نے  اسے  حسن زمین و زماں  کہا ہے۔ ازل سے  ابد تک کی جمالیاتی قدروں  کا احساس ایک جگہ سمٹ آیا ہے۔ داغ غم ہر دور  اور  ہر عہد میں  جانے  کہاں  کہاں  منجمد ہے۔ یہ نشان اسی حقیقت کی پہچان ہے  کہ ہر عہد میں  یہ روح زندہ رہی ہے  ایک نسل سے  دوسری نسل تک طائر کا سفر، روح کا سفر ہے،  محبت کا سفر ہے، شاعر کو یقین ہے  کہ یہ عکس روح ازل  اور  یہ عکس روح ابد خون میں  نشو و نما پائے  گا۔ مٹتی ہوئی خوبصورت  اور  دل فریب  اور  پیاری تصویروں  کے  ساتھ اس کا ارتقا ہوتا رہے  گا۔ موت تصویروں  کو مٹا دیتی ہے  لیکن اس روشنی کو نہیں  بجھا سکتی، ہر عہد میں  اس کی روشنی مختلف ہو جاتی ہے۔ یہاں  تخریب کے  عمل میں  تعمیر  اور  تشکیل کے  عمل کو پہچاننے  کا رومانی رجحان ملتا ہے۔ کیٹس کے  ’نائٹ اینگل‘  کی طرح اختر الایمان کا طائر بھی شاعر کے  وجود  اور  اس کی روح کی علامت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

            ’عمر گریزاں  کے  نام‘  میں  اختر الایمان نے  زندگی کو ایک حسین خوبصورت سی صورت دیکھنے اور محسوس کر نے  کی کوشش کی ہے، زاویۂ نگاہ منفرد ہے۔ محرومی  اور  ناکامی کا احساس گہرا ہے۔ عمر گریزاں  کا پیکر محبوب کا پیکر بن گیا ہے، تیزی سے  گزرتے  ہوئے  لمحوں  سے  شاعر اسی طرح مخاطب ہے  جس طرح وہ اپنے  محبوب سے  مخاطب ہوتا ہے۔ دلفریب نظم ہے:

 

عمر یوں  مجھ سے  گریزاں  ہے  کہ ہر گام پہ میں

اس کے  دامن سے  لپٹتا ہوں  مناتا ہوں  اسے

واسطہ دیتا ہوں  محرومی و ناکامی کا

داستاں  آبلہ پائی کی سناتا ہوں  اسے

خواب ادھورے  ہیں  جو دُہراتا ہوں  ان خوابوں  کو

زخم پنہاں  ہیں  جو وہ زخم دکھاتا ہوں  اسے

اس سے  کہتا ہوں  تمنّا کے  لب و لہجے  میں

اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں

سنتا ہوں  تو ہے  پری پیکر و فرخندہ جمال

سنتا ہوں  تو ہے  مہ و مہر سے  بھی بڑھ کے  حسیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  کہ ابھی تک میں  نے

جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں

صبح اُٹھ جاتا ہوں  جب مرغ اذاں  دیتے  ہیں

 اور  روٹی کے  تعاقب میں  نکل جاتا ہوں

شام کو ڈھور پلٹتے  ہیں  چراگاہوں  سے  جب

شب گزاری کے  لیے  میں  بھی پلٹ آتا ہوں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں

 اور  کرتا رہا اپنے  لیے  ہموار زمیں

آج لیتا ہوں  جواں  سوختہ راتوں  کا حساب

جن کو چھوڑ آیا ہوں  ماضی کے  دھندلکے  میں  کہیں

صرف نقصان نظر آتا ہے  اس سودے  میں

قطرہ قطرہ جو کریں  جمع تو دریا بن جائے

ذرّہ ذرّہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا

اپنی نادانی سے  انجام سے  غافل ہو کر

میں  نے  دن رات کیے  جمع خسارہ بیٹھا

جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں

اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں!

 

            اس نظم کو پڑھتے  ہوئے  بنگلہ کے  مشہور شاعر جیونند داس کی یاد آ رہی ہے، ان کی نظموں  میں  بھی زندگی اسی طرح خوابوں  کے  پیکروں  میں  ملتی ہے۔ خوابوں  کی پرچھائیاں  اہمیت رکھتی ہیں۔ چاند، تاریکی، بلی  اور  عورت جیونند داس کی محبوب علامتیں  ہیں۔ پر تبھی ملوک، (کائنات) لتاسن،  اور  ’ویرال‘  (بلی) ان کی مشہور نظمیں  ہیں۔ زندگی، خواب  اور  تیزی سے  گزرتے  لمحوں  کی باتیں  اختر الایمان کے  تاثرات سے  ملتی جلتی ہیں۔ عمر گریزاں  کو محبوب کی صورت دے  کر اختر الایمان نے  بھی اسی طرح بہت سے  تصورات اُبھارے  ہیں۔ زندگی گزار نے  کے  بعد محسوس ہوتا ہے  کہ اسے  ’پاس‘  سے  دیکھا بھی نہیں۔۔۔ زندگی سے   محبت  اور  عقیدت  اور  والہانہ کیفیت سے  اندازہ کیا جا سکتا ہے  کہ شاعر کے  احساسات کیا ہیں۔ زندگی کی میکانیت نے  زندگی کے  حسن کو محسوس کر نے  کی مہلت ہی نہیں  دی۔ شاعر اپنی محرومی، ناکامی  اور  آبلہ پائی کی داستان سناتا ہے۔ اپنے  زخموں  کو دکھا کر ادھورے  خوابوں  کا ذکر کرتا ہے اور اسے  مناتا ہے۔ اس بات کا احساس کہ وہ کچھ کرنہ سکا  اور  اس میکانکی زندگی میں  اپنی نادانی سے  انجام سے  غافل رہا  اور  نقصان برداشت کیا۔ گہرے  دُکھ کو پیار کرتا ہے۔ نظم میں  گہری افسردگی کی وجہ سے  جو تڑپ پیدا ہوئی ہے  وہ توجہ طلب بن گئی ہے۔

            بودیلیر (Baudelaire) زندگی  اور  وقت کی دہشت سے  حسن نچوڑنے  کی کوشش کرتا ہے۔ اختر الایمان زندگی  اور  وقت کی میکانیت میں  حسن و جمال کو شدت سے  محسوس کر رہے  ہیں۔ یہ احساس جمال ہی ہے  جس سے  تیزی سے  گزرتی زندگی کو اس طرح دیکھ  اور  محسوس کر رہے  ہیں۔ شاعر کے  جمالیاتی شعور کی پہچان ہو جاتی ہے۔ عام  اور  معمولی زندگی  اور  تیزی سے  بھاگتے  لمحے  جمالیاتی قدروں  کی علامت بن جاتے  ہیں۔ میکانکی زندگی کی سطح کے  نیچے  خوابوں  کی زندگی ہے، حیات انسانی کا حسن اس سطح کے  نیچے  نظر آتا ہے۔ غور کیجیے  تو محسوس ہو گا کہ شاعر کا جمالیاتی  اور  رومانی شعور وقت کے  بہاؤ سے  علیحدہ نہیں  ہے۔ زندگی کی میکانیت کی تصویر اس طرح سامنے  آتی ہے:

 

صبح اُٹھ جاتا ہوں  جب مرغ اذاں  دیتے  ہیں

 اور  روٹی کے  تعاقب میں  نکل جاتا ہوں

شام کو ڈھور پلٹتے  ہیں  چراگاہوں  سے  جب

شب گزاری کے  لیے  میں  بھی پلٹ آتا ہوں

 

            ایسے  اشاروں  کو دیکھ کر کچھ لوگ کہتے  ہیں  کہ ان میں  ’شعریت‘  نہیں  ہے۔ حالانکہ اس نظم میں  ان عام پیکروں  کی اہمیت ہے۔ اختر الایمان کے  بنیادی اسلوب کے  پیشِ نظر بھی ان عام پیکروں  کو دیکھنا چاہیے، بودیلیر نے  جب اپنی ایک نظم میں  زندگی کی دہشت  اور  وحشت، گہری اُداسی  اور  اُلجھنوں  کو عام پیکروں  میں  اُجاگر کیا  اور  پیرس کی گلیوں  میں  بوڑھے  مرد عورت، کیچڑ اور  مٹّی  اور  ٹوٹی ہوئی گاڑیوں  کے  پیکروں  کو پیش کیا تو ان تمام پیکروں  پر اسی قسم کے  اعتراضات کئے  گئے  تھے۔ بودیلیر نے  جواب دیا تھا کہ اس مشینی  اور  میکانکی زندگی میں  جہاں  ہر روز ایک نیا شہر بسایا جا رہا ہے۔ مجھے  چند پیکر ملے  ہیں اور میں  ان ہی پیکروں  سے  سچائیوں  کی جانب اشارے  کرتا ہوں۔ انسان جس جگہ کھڑا ہے  وہاں  ان کے  علاوہ  اور  ہے  کیا؟ کیچڑ اور  مٹّی، ٹوٹی ہوئی گاڑیاں، بوڑھی زندگی، پتھر  اور  کہاسہ! فنکاروں  کو چاہیے  وہ کچھ پیکر منتخب کر لیں اور ان پیکروں  کو اپنے  ’وژن‘  کی روشنی دیں۔۔۔ ان چار مصرعوں  میں  شاعر کا ’وژن‘  پرکھئے۔ عام پیکروں  میں  زندگی کے  چکر کو سمجھا دیا گیا  اور  نظم کی ’سمٹری‘  پر کوئی خراب اثر نہیں  ہوتا ہے۔ میکانکی مصروفیت کی تصویر سامنے  آ جاتی ہے۔ اس نظم کا بنیادی خیال یہی ہے  کہ میکانکی تگ و دو  اور  میکانکی مصروفیتوں  کی وجہ سے  زندگی  اور  فطرت کے  حسن و جمال کو دیکھا  اور  محسوس نہیں  کیا، لطف حاصل نہیں  کیا، لذت حاصل نہیں  کی  اور  زندگی تیزی سے  بھاگتی جا رہی ہے، موت کا احساس بھی موجود ہے اور ساتھ ہی زندگی کے  حسن کا شدید احساس بھی ہے۔۔۔ ایسے  احساسات کے  بغیر ایسے  تجربے  سامنے  نہیں  آتے، ایک طرف زندگی کے  خواب ہیں، زندگی کا جمال ہے  دوسری طرف موت (انجام) ہے، زندگی ہے  جو بس موت کی جانب بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس میکانکی زندگی میں انسان کو حسن و جمال کو پانے، دیکھنے اور محسوس کر نے  کی فرصت ہی نہیں  ملی۔ اختر الایمان کی علامتی فکر نے  زندگی کو ایک کردار دیا ہے اور اس کردار سے  کچھ کہتے  ہوئے  میکانکی تمدن کی تصویر اُجاگر ہوئی ہے۔ نئی زندگی کی المناکی نمایاں  ہوئی ہے۔

            اس نظم کا ’تجزیہ‘  کرتے  ہوئے  وزیر آغا نے  لکھا ہے:

 ’’زیر نظر نظم میں  شاعر نے  خوابوں  کی اس دنیا کو نہ صرف اصل زندگی بلکہ آرزوؤں  کا مرکز بھی قرار دیا ہے اور اپنی عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھا ہے  (؟) شاعر نے  اس بات کا اظہار کیا ہے  کہ وہ اپنی عام زندگی میں  اصل زندگی (یعنی خوابوں  کی فضا) کے  لیے  ذہن ہموار کرتا رہا لیکن اس کے  یہ خواب ہمیشہ شرمندہ، تعبیر رہے اور زندگی نے  کبھی اسے  اپنی جھلک نہ دکھائی۔‘‘  

            حیرت ہے  وزیر آغا نے  اس نظم کے  متعلق یہ رائے  قائم کی ہے۔ ’’اپنی تمام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھنے‘‘  کی کوئی بات ہی نہیں، یہاں  تو زندگی سے  بے  پناہ  محبت ہے، زندگی کے  حسن و جمال کا گہرا احساس ہے  پھر شاعر نے  اس خیال کا کہیں  اظہار نہیں  کیا ہے  کہ ’’وہ اپنی عام زندگی میں  خوابوں  کی زندگی کے  لیے، زمین ہموار کرتا رہا  اور  اس کے  یہ خواب ہمیشہ شرمندۂ تعبیر رہے‘‘  وہ تو یہ کہہ رہا ہے:

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

            نہایت خوب صورت۔ خیال ہے  ابھی تو اس نے  زندگی کے  جمال کو دیکھا ہی نہیں، زندگی کو خوبصورت بنانے  کے  خواب ہی دیکھے  ہیں، وہ ان تمام دلفریب خوابوں  کو حقیقت میں  بدلنا چاہتا ہے اور اس کے  لیے  زندگی کو روکنا چاہتا ہے، چاہتا ہے  زندگی پھیل جائے  گہری ہو جائے۔ اس کا تسلسل قائم رہے  اس کا ارتقا ہوتا رہے  تاکہ اس کا ہر خواب حقیقت بن جائے، ’’اپنی عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھنے‘‘  کا سوال ہی نہیں  ہے۔

            وزیر آغا نے  آگے  تحریر کیا ہے:

 ’’اس نظم کا مرکزی خیال زیادہ وضاحت  اور  حسن کے  ساتھ قاری کے  سامنے  آ جاتا  اگر  شاعر خواب  اور  زندگی کو آپس میں  گڈمڈ نہ کرتا لیکن ایسا نہ ہوا  اور  نظم میں  بلاوجہ ایک اُلجھاؤ پیدا ہوا۔ یہ اُلجھاؤ دراصل خیال کا نہیں  بلکہ ابلاغ کا اُلجھاؤ ہے۔ لفظوں  پر شاعر کی گرفت مضبوط نہیں اور لفظوں  کے  انتخاب میں  اس کی بے  پروائی واضح ہے۔ اس کے  علاوہ نظم کو بلا ضرورت پھیلا دیا گیا ہے،  اگر  شاعر کفایت (Economy) کو ملحوظ رکھتا تو نظم کا تاثر بری طرح مجروح نہ ہوتا۔‘‘  

            یہ بڑی نا انصافی ہے!حیرت ہوتی ہے  کہ وزیر آغا نظم کی روح تک پہنچ نہ سکے۔ حالانکہ یہ نظم آسان زبان میں  ہے اور اپنے  جوہر کا احساس فوراً دلا دیتی ہے۔

            ۳۱ مصرعوں  کی یہ ایک مختصر نظم ہے۔ دو مصرعے  دو بار آئے  ہیں (اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں )  اور  ۔۔۔ (جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں ) ان سے  تاثر کو بڑھایا گیا ہے۔ وزیر آغا نظم کی روح کو نہ سمجھ سکے  تو فیصلہ کر دیا کہ ’’شاعر نے  خواب  اور  زندگی کو گڈ مڈ کر دیا ہے اور اس سے  نظم میں  اُلجھاؤ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘  ، ’’خوابوں  کی دنیا کو اصلی زندگی قرار دیا ہے  ’ اور  ‘  عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھا ہے۔ اسی خیال سے  ’نقاد‘  کی اُلجھن شروع ہوتی ہے!

            حقیقت یہ ہے  کہ خیال یا ابلاغ کی کوئی اُلجھن نہیں  ہے۔ لفظوں  کے  انتخاب میں  بھی شاعر محتاط ہے۔ نظم پھیلی بھی نہیں  ہے۔ نظم کا تاثر مجروح نہیں  ہوا ہے۔ ’عمر گریزاں ‘  میں  نفرت کا جذبہ کہیں  بھی نہیں  ہے  البتہ میکانکی زندگی  اور  میکانکی تمدن کے  دباؤ کا شدید احساس ہے اور اسی دباؤ میں  انسان زندگی کے  حسن و جمال سے  لطف اندوز نہ ہو سکا، ہر لمحے  حسن کا شدید احساس ہے، اپنے  خوابوں  کو حقیقت میں  تبدیل نہ کر سکا، زندگی بڑی تیزی سے  انجام کی طرف چلی جا رہی ہے۔ نقاد کو میکانکی مصروفیت، زندگی کی المناکی، عمر گریزاں  کے  شخصی پیکر، شاعر کے  جمالیاتی شعور  اور  رومانی رجحان اقدار  اور  ضمیر کے  تصادم  اور  انداز تخاطب پر غور کرنا چاہیے  تھا۔ لفظوں  کے  انتخاب میں  کہاں  بے  پروائی ہے، کاش بتا دیتے۔ اسی طرح زندگی  اور  خواب کو آپس میں  گڈ مڈ کر نے  کا کوئی سوال ہی نہیں  ہے۔ خوبصورت زندگی کے  تصور سے  خوبصورت خواب پیدا ہوئے  ہیں۔ خوابوں  کی تعبیر دیکھنے  کے  لیے  وہ اب بھی چین ہے۔ حسرت تعمیر  اور  شہر آرزو کو بسائے  وہ تو یہ کہہ رہا ہے:

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  کہ ابھی تک میں  نے

جاننا تجھ کو کجا، پاس سے  دیکھا بھی نہیں

 

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

 

            یہ عام تجربے  ہیں، جنھیں  شاعر نے  جمالیاتی تجربوں  کی صورت دے  دی ہے۔ جذباتی  اور  ذہنی کشمکش میں  قدروں  کے  تصادم  اور  تضاد کو سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔ وزیر آغا کا تجزیہ افسوس ناک ہے، غیر ذمہ دارانہ جملے  اچھی تنقید کے  جملے  نہیں  کہے  جا سکتے۔ گمراہ کن تنقیدی بیانات کی یہ عمدہ مثال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’نیا شہر‘  چھوٹی سی نظم ہے:

 

جب نئے  شہر میں  جاتا ہوں، وہاں  کے  در و بام

لوگ وارفتہ، سراسیمہ، دکانیں، بازار

بت نئے، راہنماؤں  کے، پرانے  معبد

حزن آلود شفا خانے  مریضوں  کی قطار

تار گھر، ریل کے  پل، بجلی کے  کھمبے  تھیٹر

راہ میں  دونوں  طرف نیم برہنہ اشجار

اشتہار ایسی دواؤں  کے  کے  ہر اِک جا چسپاں

اچھے  ہو جاتے  ہیں  ہر طرح کے  جن سے  بیمار

اس نئے  شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے  مجھے

یہ نیا شہر نظر آتا ہے، خوابوں  کا دیار

شاید اس واسطے  ایسا ہے  کہ اس بستی میں

کوئی ایسا نہیں  جس پر ہو مری زیست کا بار

کوئی ایسا نہیں  جو جانتا ہو میرے  عیوب

آشنا، ساتھی، کوئی دشمن جاں، دوست شعار!

 

            مختصر سی نظم ہے، تجربہ صاف  اور  واضح ہے۔ طنزیہ رجحان توجہ طلب ہے، اس نظم میں  تہذیب کے  المیہ کے  ساتھ فرد کی ذہنی کیفیت ملتی ہے، ہنگامے اور بھیڑ میں  تنہائی کا احساس ملتا ہے اور اس احساس کی لذت ملتی ہے۔ اختر الایمان نے  اشاروں  میں  نئی زندگی کی سچائی کے  چند پہلو اُجاگر کئے  ہیں۔ طنز ایسا ہے  کہ معاشرے  سے  ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں  شہر، در و بام، لوگ، بازار، بت، پرانے  معبد، حزن آلود شفا خانے، تار گھر، ریل کے  پل، بجلی کے  کھمبے، نیم برہنہ اشجار، اشتہار، مریضوں  کی قطار کی باتیں  عام باتیں  ضرور ہیں  لیکن انھیں  پڑھتے  ہوئے  محسوس ہوتا ہے  کہ ان کے  بغیر یہ نظم ایسی تلخی لے  کر آ ہی نہیں  سکتی تھی۔ المیہ کا احساس ذرا کھردرے  اسلوب سے  دلایا گیا ہے  لیکن بڑی بات یہ ہے  کہ کھردرے  اسلوب ہی کی وجہ سے  چند توجہ طلب جہتیں  پیدا ہوئی ہیں اور تہہ داری آئی ہے۔ ایسی زندگی کے  اظہار کے  لیے  اسی قسم کے  لہجے  کی ضرورت تھی، وزیر آغا کی اُلجھن کا سبب یہی ہے، کہتے  ہیں۔۔۔ ’نظم کا خیال تو عمدہ ہے  لیکن شاعر نے  نظم کے  اسلوب (Diction) کی طرف پوری توجہ نہیں  دی۔ بعض اشعار تو صحافتی انداز کے  حامل ہیں، اسی لیے  نظم کا تاثر کمزور ہے۔‘‘  اس نظم کے  متعلق وزیر آغا یہ بھی لکھتے  ہیں۔ ’’اس نظم کا شاعر بھی بنیادی طور پر‘‘  آزاد منش ’’آدم ہے اور اسی لیے  اسے  نیا شہر اپنی کثافتوں، اُلجھنوں اور بیماریوں  کے  باوجود ایک جنت گمشدہ نظر آتا ہے۔ محض اس لیے  کہ اس نئے  ماحول میں  وہ زنجیریں اور بندھن موجود نہیں  جو اس کے  اپنے  شہر میں  موجود تھے اور جن کے  باعث اس کی روح گھٹ کر رہ گئی تھی‘‘  نظم کے  موضوع  اور  کلام کے  مزاج سے  الگ بات کہی گئی ہے  جو حیرت انگیز ہے۔ یہ ظلم ہے  کہ ہم شدت احساس  اور  جذباتی کیفیت کو نظر انداز کر دیں اور المیہ  اور  اس کے  احساس  اور  جذباتی کیفیت کی جانب توجہ نہ دیں۔ یہ تجربہ صرف کسی ایک فرد کا نہیں  ہے  اس عہد کے  ہر حساس فرد کا تجربہ ہے۔ بازار، دکانیں، لوگ، پرانے  معبد، بت، حزن آلود شفا خانے، مریضوں  کی قطار سے  جو تصورات اُبھرتے  ہیں  ہم انھیں  کس طرح نظر انداز کر دیں۔ ان سے  ایک فضا بنتی ہے  اس دور کا ایک آئینہ سامنے  آتا ہے، اختر الایمان کی بعض نظموں  میں  میکانکی  اور  مشینی تمدن  اور  نظام زندگی کے  تضاد، میکانکی مصروفیتوں اور بے  حسی، نت نئے  تماشوں اور بحران وغیرہ کے  تعلّق سے  جو اشارے  آئے  ہیں  وہ زندہ  اور  متحرک اشارے  ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’سبزۂ بیگانۂ، ’میرا نام‘ ،’میر ناصر حسین‘ ، ’کرم کتابی‘ ، ’قبر‘  وغیرہ عمدہ طنزیہ نظمیں  ہیں۔ ان نظموں  سے  اُردو شاعری میں  ایک منفرد طنزیہ رجحان پیدا ہوا ہے۔ اختر الایمان کی اکثر نظموں  میں  طنز کا تیکھا پن موجود ہے، یہ تیکھا پن تجربے  میں  گھلا ہوتا ہے اور ٹیس پیدا کرتا ہے۔ ان نظموں  میں  طنز کی لہریں  تیز ہیں۔ تیکھا پن حسن بن گیا ہے۔ لہجے  میں  جو تلخی ہے  اس سے  باطنی اضطراب کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی حساس فنکار پر معاشرتی اقدار کی شکست و ریخت کے  جو اثرات  اور  جو ردِّ عمل ہو سکتے  ہیں  ان کی یہ عمدہ تصویریں  ہیں۔

            ان نظموں  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اندازہ ہوتا ہے  کہ اختر الایمان طنز کرتے  ہوئے  سچائی کو نہایت خلوص سے  آہستہ آہستہ نمایاں  کرتے  جاتے  ہیں اور پھر۔۔۔ ایک ساتھ کئی تلخ سچائیوں  کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی  اور  جذباتی کیفیتیں  اس عہد کے  کسی بھی حساس شخص کی کیفیتیں  ہیں۔ طنزیہ نظموں  میں  لفظوں  کے  انتخاب  اور  ان کی ترتیب پر نظر گہری ہے۔ طنز کرتے  ہوئے  سچائیوں  کو اپنا دوست ساتھی بنا لینا آسان کام نہیں  ہے، سچائیوں  سے  جذباتی رشتہ قائم کر لینا  اور  پھر ان پر طنز کرنا بڑی بات ہے۔ ان نظموں  میں  احساس  اور  جذبے اور لہجے  میں  ہم آہنگی ہے اور شاعر ہماری تخیلی ہمدردی حاصل کر لیتا ہے۔

            شاعر المیاتِ زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ ’سبزۂ بیگانہ‘ ، ’قبر‘   اور  ’میر ناصر حسین‘  میں  کہانی سنانے اور قصّے  کو ڈرامائی طور پر پیش کر نے  کا انداز ہے۔ ’قبر‘  کے  آخری ایک مصرعے  سے  کہانی مکمل ہو جاتی ہے۔ نقطۂ عروج کے  فوراً بعد اختتام کی منزل ہے۔ ’سبزۂ بیگانہ‘  اس عہد کے  انسان کے  داخلی کرب اس کی شدید گھٹن کی داستان ہے:

 

حسب نسب ہے  نہ تاریخ و جائے  پیدائش

کہاں  سے  آیا تھا، مذہب نہ ولدیت معلوم

مقامی چھوٹے  سے  خیراتی اسپتال میں  وہ

کہیں  سے  لایا گیا تھا وہاں  یہ ہے  مرقوم

مریض راتوں  کا چلاتا ہے  مرے  اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے  اِک، نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے  یہ حبس دم ہے  خائف ہے

ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے  بچا لو اسے

 

            جذباتی ارتعاش میں  بھی توازن موجود ہے۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ مریض کے  وجدان  اور  اس کی ذہنی کیفیتوں  کی تصویریں  آتی جاتی ہیں۔ اس کی چیخ سے  وجدان  اور  ’وژن‘  دونوں  کے  ’ایکس رے ‘  (X.ray) کو پیش کیا گیا ہے۔ مریض کی باتیں  ایک بڑے  دائرے  کی صورت زندگی کے  اَنگنت موضوعات کو گھیر لیتی ہیں۔ شکست و ریخت کی داستانیں  ہیں، جنگ و جدل، ویت نام، کشمیر، تیل کے  چشمے، زمین کی موت، سرود و نغمہ، علم کے  گہوارے، سب کا ذکر کرتا ہے، بے  ربط باتیں، شکایتوں  کا ایک دفتر لیے  ہو جیسے۔۔۔ تحلیل نفسی ہوتی ہے، ڈاکٹر رائے  دیتے  ہیں  کہ یہ کوئی ذہنی مرض ہے۔ مریض چیختا رہتا ہے  درد کی دوا نہیں  ملتی، تمثیل نقطۂ عروج یا منتہا پر اس طرح پہنچتی ہے اور پھر کردار کا زوال ہوتا ہے:

 

غرض کہ نکتہ رسی میں  گزر گیا سب وقت

وہ چیختا رہا  اور  درد کی دوا نہ ملی

نشست بعد نشست  اور  معائنے  شب و روز

انھیں  میں  وقت گزرتا گیا شفا نہ ملی

پھر ایک شام وہاں  سرمہ در گلو آئی

جو اس کے  واسطے  گویا طبیب حاذق تھی

کسی نے  پھر نہ سنی درد سے  بھری آواز

کراہتا تھا جو خاموش ہو گیا وہ ساز

 

برس گزر گئے  اس واقعہ کو ماضی کی

اندھیری گود نے  کب کا چھپا لیا اس کو

مگر سنا ہے  شفا خانے  کے  در و دیوار

وہ گرد و پیش جہاں  سے  کبھی وہ گزرا تھا

خرابے، بستیاں، جنگل، اُجاڑ راہگزار

اسی کی چیخ کو دُہرائے  جا رہے  ہیں  ابھی

کوئی مداوا کرو ظالموں  مرے  اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے  اِک نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے  یہ، حبس دم ہے، خائف ہے

ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے، بچا لو اسے!

 

            تمثیل ختم ہو جاتی ہے۔ درد کی لہریں  اُٹھنے  لگتی ہیں، اختر الایمان کی نظموں  میں  ’پیتھوس‘  کا ذکر کیا ہے، طنزیہ نظموں  کے  باطن میں  بھی پیتھوس جوہر بنا رہتا ہے۔ درد سے  طنز جنم لیتا ہے اور طنز درد کا شدید احساس عطا کر دیتا ہے۔

            ’سبزۂ بیگانہ‘  اُردو کی عمدہ نظموں  میں  ایک اضافہ ہے۔

            نظم پڑھتے  ہوئے  محسوس ہوتا ہے  جیسے  شاعر نے  سچائیوں  کو بھینچا ہے۔ احساس و شعور سے  ہم آہنگ کیا ہے، انھیں  اپنا تجربہ بنایا ہے  اس تجربے  کے  درد کو شدت سے  محسوس کرتے  ہوئے  ایک تمثیل کی صورت پیش کر دیا ہے۔

            یہ ایک المناک ڈراما ہے  جو موضوع  اور  اسلوب کی خوبصورت ہم آہنگی کا احساس دلاتا ہے۔ اختر الایمان کے  منفرد ڈکشن کی کئی خصوصیات موجود ہیں  جو متاثر کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            ’تنہائی‘ ، ’ایک لڑکا‘ ، ’یادیں ‘ ، ’بنت لمحات‘ ، ’آخری ملاقات‘ ، ’پس منظر‘ ، ’آگہی‘ ، ’مسجد‘ ، ’موت‘ ، ’لغزش‘ ، ’آمادگی‘ ، ’تجدید‘ ، ’یوں  نہ کہو‘ ، ’ایک سوال‘ ، ’سرِ راہ گزارے ‘ ، ’جب  اور  اب‘ ، ’انجان‘ ، ’بے  تعلقی‘ ، ’اذیت پرست‘ ، ’نیا شہر‘ ، ’عمر گریزاں  کے  نام‘ ، ’پس دیوار چمن‘ ، ’وہ مکاں ‘ ، ’پرانی فصیل‘ ، ’باز آمد‘ ، ’مشفقی‘ ، ’پگڈنڈی‘ ، ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ ، ’پھیلاؤ‘ ، ’کہاں  تک‘ ، ’کالے  سفید پروں  والا پرندہ  اور  میری ایک شام‘ ، ’درد کی حد سے  پرے ‘ ، ’سبزۂ بیگانۂ، ’برندابن کی گوپی‘   اور  دوسری نظمیں  نمائندہ تخلیقات ہیں۔ ان نظموں  کی فضائیں  متاثر کرتی ہیں۔ ان کے  پیکر  اور  ’ا4‘  متاثر کرتے  ہیں۔ اکثر ایسے  جو لاشعور کے  اندھیرے  سے  جھانکتے  ہیں۔ اختر الایمان کی شاعری میں  جذباتی ردِّ عمل  اور  داخلی کیفیات کے  اشارے  اہمیت رکھتے  ہیں۔ بعض نظموں  کے  سیدھے اور دل نشیں  اندازِ بیان احساس دلاتے  ہیں۔ ایسی تمام نظموں  سے  اختر الایمان کے  رومانی رویوں اور عہد کے  انتشار  اور  پیچیدگیوں  کا شعور ملتا ہے۔ ’بنت لمحات‘ ، ’پیمبر گل‘ ، ’قافلہ‘ ، ’یادیں ‘ ، ’پس دیوار چمن‘ ، ’عمر گریزاں  کے  نام‘ ، ’پس منظر‘ ، ’ساتویں  دن کے  بعد‘ ، ’باز آمد‘  وغیرہ میں  ڈکشن کا حسن منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ تجربوں  کو شعری پیکر میں  ڈھالتے  ہوئے  فنکار تراکیب، تشبیہات  اور  استعارات کے  تئیں  چوکنّا ہے۔ کئی نظموں  میں  تمثیل  اور  ڈراما نے  ڈکشن کے  حسن میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ جذباتی  اور  تخیلی تو انائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ’اندھیروں  پر غنیم نور کے  حملے ‘ ، ’دیار درد میں  مسیحا کی آمد‘ ، ’خوشبو کے  قافلے ‘ ، ’خلائے  صبح میں  سحر کی شہنائی‘ ، ’سرمگیں  اُجالے ‘ ، ’لمحۂ گریزاں ‘ ،،عشق پیچاں  کی گھنی بیل‘  ان سے  ذہنی پیکر بنتے  ہیں، جمالیاتی تاثرات پیدا ہوتے  ہیں۔ تجربوں  کے  پیش نظریہ نظمیں  بہت صاف  اور  آسانی سے  ذہن نشیں  ہو جانے  والی ہیں۔ تجربوں  کے  مطابق فارم کی تشکیل ہوئی ہے۔ پیکروں اور لفظوں  کا جذبات پر اچھا اثر ہوتا ہے۔ ان پیکروں، علامتوں اور لفظوں  کی حسیاتی خصوصیتیں  ہیں۔ یہ قاری کے  تخیل کی رہنمائی بھی کرتے  ہیں اور معنویت کے  تئیں  بیدار بھی کرتے  ہیں، اختر الایمان نے  روایتی الفاظ  اور  کلاسیکی تراکیب میں  بھی اپنے  تجربوں اور ’ڈکشن‘  سے  نئی روح پھونک دی ہے۔ فسانۂ گل، نغمۂ شوق، حکایت بت، نگار صبح، دامن گل، ہنگام بہار، آتش گل، محفل زیست، غم حیات، چشم نم، نگار دل، منزل شوق، خم ابرو، کوئے  جاناں، غم زیست، غم تنہائی، جام شراب، جنون شوق، طلوع صبح، شام غم، دیوار چمن، سنگ گراں، خونِ جگر، کشمکش زیست، غنیم نور کے  ساتھ خزاں، بہار، صبح، شام، رات، کفن، پیرہن، رہگزار، آستیں، لہو، گل، خمار، لاش، لحد، پھول، شاخ، ڈالیاں، آسمان، بہشت، اہرمن، چاندنی، سامری، فرعون، وحشی، زلف، چمن، نسیم، منزل، سفر، شعلہ، فریاد، اُجالا، رنگ و بو، صبا، کوثر  اور  دوسرے  عام الفاظ ملتے  ہیں۔ ان سے  اختر الایمان نے  جذباتی کیفیتوں اور خارجی حقیقتوں  کو سمجھنے  کی کوشش کی ہے۔

            ’اُداس اُداس نقش پا‘ ، ’حلقہ ہائے  بندگی‘ ، ’نقش ہائے  عمر‘ ، ’حلقہ ہائے  روز و شب‘ ، ’درد کا ساماں ‘ ، ’معصوم زخموں  کا لہو‘ ، ’حنائی انگلیوں  کی جنبش‘ ، ’رات کا تاریک کفن‘ ، ’حسرت شام و سحر‘ ، ’دشت فراموشی میں  آواز خلیل‘ ، ’احساس کی زنجیر گراں ‘ ، ’اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں ‘ ، ’سینے  میں  اُلجھی ہوئی فریاد‘ ، ’موہوم تمنّا کا مزار‘ ، ’مغموم فضاؤں  کا الم ناک سکوت‘ ، ’سلگتی ہوئی شام‘ ، ’خون اُگلتے  ہوئے  چشمے ‘ ، ’کانپتی ہوئی راہ گزار‘ ، ’رخنوں  میں  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن‘ ، ’سائے  میں  رُک کر سانس لیتے  ہوئے  حال و ماضی‘ ، ’ویرانی سے  ویرانی کی سرگوشیاں ‘ ، ’پپوٹوں  میں  پتھرائی ہوئی آنکھیں ‘ ، ’شب کے  دامن پر سیہ کاری کے  دھبّے ‘ ، ’فردا کا پر پیچ دھندلکا‘ ، ’زرد پتوں  کا ڈھیر‘ ، ’درد جمال‘ ، ’آبلوں  پر رنگ حنا‘ ، ’تھکی ہوئی نگاہیں ‘ ، ’جبیں  شوق میں  ایک سجدے  کی قربانی‘ ، ’زمیں  کے  تاریک گہرے  سینے ‘ ، ’رات کے  چہرے  پرستاروں  کا کفن‘ ، ’ذروں  میں ماضی کا لہو‘ ، ’جلتے  ہوئے  زماں  و مکاں ‘ ، ’پھولوں  کی زرد لاشیں ‘ ، ’رگ آہن کا لہو‘ ، ’سنگ پاروں  سے  اُبلتی ہوئی شراب‘ ، ’قحبہ خانوں  کی مغموم، تابندگی‘ ، ’ماضی کے  اندھے  غاروں  سے  رنگوں  کا چشمہ‘ ، ’یادوں  کے  بوجھل پردے ‘ ، ’دشت ہویدا کا دیوانہ‘ ، ’رات کے  بطن میں  سوئی ہوئی آسودہ کرن‘ ، ’رویات دشت و در‘ ، ’سبزہ گل کا کفن‘ ، ’سحر کی آرزو میں  شب کا دامن‘ ، ’ماضی کی پارینہ کتاب‘ ، ’دھُندلے  دھُندلے   اور  اق‘ ، ’خوابوں  کے  افسردہ شہاب‘ ، ’لمحات جمیل‘ ، ’گہنائی ہوئی راتیں ‘ ، ’پرانے  معبد‘ ، ’آبلہ پائی کی داستان‘ ، ’زخم پنہاں ‘ ، ’عمر گریزاں ‘ ، ’سوختہ راتوں  کا حساب‘ ، ’ماضی کے  دھُندلکے ‘ ، ’بنت لمحات‘ ، ’غنیم نور کا حملہ‘ ، ’دیار درد میں  مسیحا کی آمد‘ ، ’خوشبو کے  قافلے ‘ ، ’سحر کی شہنائی‘ ، ’لمحہ گریزاں ‘ ، ’شورش‘ ، ’رائیگاں ‘ ، ’سنگ گراں ‘ ، ’یاد کی سبز پریاں‘‘  ۔۔۔ اختر الایمان کے  رجحان  اور  ذہنی رویے  کو ان سے  بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ احساس، جذبہ، رجحان، انداز فکر  اور  اُمنگوں اور تشنہ کامیوں  کی یہ مختلف تصویریں  ہیں، ذہنی پیکروں اور حسیاتی تصویروں  کا یہ البم شاعر کی شعوری  اور  لاشعوری کیفیتوں  کو سمجھتا ہے۔ شاعر کی اندرونی کشمکش  اور  اس کی اَنا  اور  سوپرایغو، کے  تصادم  اور  ذاتی تجربوں  کے  ساتھ اجتماعی لاشعور کو سمجھنے  میں  آسانی ہوتی ہے۔ انداز فکر نے  کتنا منظم، گہرا  اور  معتبر بنا دیا ہے، اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ شاعر کے  لہجے  کی گھلاوٹ  اور  نرمی  اور  سوز و گداز  اور  جذباتی کشمکش کی پہچان ہوتی ہے۔ ان ترکیبوں  میں  داخلیت کی رنگ آمیزی جذباتی شدت ہے، رمزیت  اور  اشاریت کی ہمہ گیری ہے۔ حسرتیں، یادیں، اندیشے، زندگی کی تیز رفتاری،بے  بسی، ماضی  اور  حال  اور  مستقبل کے  تصورات، غم  اور  درد، کرب  اور  اضطراب  اور  بے  چینی  اور  زخموں  کی صورتیں  سب کچھ ہیں۔ شخصیت کے  اظہار، تجربوں  کی گہرائی  اور  انفرادیت کی تشکیل کا مطالعہ کرتے  ہوئے  ان پیکروں، علامتوں اور لفظوں  کو پیش نظر رکھئے  تو جمالیاتی انبساط یقیناً زیادہ حاصل ہو گا۔

            چند تشبیہیں  ملاحظہ فرمائیے:

 

ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح

اپنے  اعمال پہ رو لیتے  ہیں  چپکے  چپکے

(مسجد)

تجھ سے  وابستہ وہ اِک عہد، وہ پیمان وفا

رات کے  آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا

(محرومی)

روز خورشید، دہکتے  ہوئے  تانبے  کی طرح

ایک لاوے  کے  سمندر میں  ڈھلک آتا ہے

(وِداع)

کتنا دلکش ہے  دھُندلکا سا اُفق کے  نزدیک

آسماں  چوم ہی لینے  کو ہے  تقدیر زمیں

(وِداع)

دُور تالاب کے  نزدیک وہ سوکھی سی ببول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ پھیلائے  برہنہ سی کھڑی ہے  خاموش

جیسے  غربت میں  مسافر کو سہارا نہ ملے

اس کے  پیچھے  سے  جھجکتا ہوا اِک گول سا چاند

اُبھرا بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے

(تنہائی میں )

قہقہے  سوگ میں  ڈوبے  ہوئے  آنکھیں  مغموم

جیسے  صحرا سے  چلا آتا ہے  دیوانہ کوئی

(خاک و خون)

 اور  اپنے  امکاں  میں

اس قدر نہیں  منہ کو

زخم کی طرح سی لیں

(وہ مکاں )

جیسے  میرے  آنسو اکثر

پلکوں  پہ تھرتھرا کر تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

جیسے  بالک مانگ مانگ کر نئے  کھلونے  سو جاتے  ہیں

(بلاوا)

بارہا یوں  ہوا کہ یہ دُنیا

مجھ کو ایسی دکھائی دی جیسے

صبح کی ضو سے  پھول کھلتا ہو

بارہا یہ ہوا کہ روشن چاند

یوں  لگا جیسے  ایک اندھا کنواں

یا کوئی گہرا زخم رستا ہوا

(سلسلے )

            یہ ذہنی تصویریں  بھی اہم ہیں۔ شعوری  اور  لاشعوری ہیجانات  اور  جذباتی آسودگی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تشبیہیں اور ذہنی تصویریں  اجنبی  اور  پُر اسرار نہیں  ہیں۔ داخلی تصادم  اور  جذبات کی شدت کو سمجھنے  میں  ان سے  مدد ملتی ہے۔ ورڈس ورتھ کی ایک ذہنی تصویر ہے:

                                    "It is a beauteous evening, cam and free,

                                    The holy time is quiet as a nun

                                    Breathless with adoration."

            شام کا تصور عبادت کرتی راہبہ کا تصور ہے۔ عبادت کرتی راہبہ کی طرح شام بھی خاموش ہے۔ یہ شام اس راہبہ کی طرح خوب صورت ہے۔ دراصل شاعر نے  شام کی مقدس خاموشی  اور  اسرار کو راہبہ کی صورت میں  متقل کر دیا ہے۔ اختر الایمان نے  ماضی و حال کو گنہگار نمازی کی طرح (اپنے  اعمال پر چپکے  چپکے  روتے ) دیکھا ہے۔ روشن چاند کو اندھا کنواں اور رستا ہوا گہرا زخم کہتے  ہوئے  انھوں نے  معاشرے  کی کیفیت  اور  فرد کی المناک زندگی پیش کر دی ہے۔

            اختر الایمان کی شاعری میں  تشبیہوں  سے  زیادہ پیکر تراشی  اور  ذہنی تصویروں  کی اہمیت ہے۔ وہ تشبیہوں  کو بھی ذہنی تصویریں  بناتے  ہیں۔ کلام میں  اس قسم کے  پیکر ملتے  ہیں، یہ ذہنی  اور  حسی تصویریں  ہیں:

 

میں  نے  دیکھا ہے  ٹپکتے  رگ آہن سے  لہو

سنگ پاروں  سے  اُبلی ہوئی دیکھی ہے  شراب

روز خورشید، دہکتے  ہوئے  تانبے  کی طرح

ایک لاوے  کے  سمندر میں  ڈھلک جاتا ہے

 

مری تنہائیاں  مانوس ہیں  تاریک راتوں  سے

مرے  رخنوں  میں  ہے  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

زمانہ جب گزرتا ہے، بدل لیتا ہے  پیراہن

 

اس کا زریں  تخت، سیمیں  جسم ہے، آنکھوں  سے  دور

جام زہر آلود سے  اٹھتے  ہیں  جھاگ

چونک کر انگڑائیاں  لیتے  ہیں  ناگ

 

جیسے  صدیوں  کے  چٹانوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصور کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

 اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

 

تڑپ کی آگ میں  جلتے  ہوئے  زماں  و مکاں

مٹے  نشاط میں  بھٹکے  ہوئے  خمار کے  گیت!

 

            اختر الایمان کی تشبیہوں، استعاروں، ذہنی تصویروں اور پیکروں  سے  حسی تصورات پیدا ہوتے  ہیں اور نظموں  کی معنوی کیفیت کا احساس ملتا ہے، لفظوں  کا آہنگ بھی متاثر کرتا ہے، جذبے  کی شدت سے  پیکر متحرک ہو جاتے  ہیں۔ ان کی نظموں  میں  بحروں  کے  انتخاب  اور  زبان کی نرمی، تیزی جوش  اور  ٹھہراؤ سے  فنکار کا احساس بڑھتا ہے۔ بحروں  کے  آہنگ میں  جذبات کا آہنگ شامل ہے۔ اُداسی، محرومی  اور  شکست کا احساس بحروں  کے  آہنگ سے  بھی ہوتا ہے۔ جذبات کی شدت بڑھ جاتی ہے  تو بحر کے  آہنگ میں  بھی شدت آ جاتی ہے۔ جذبات کی تیزی سے  آہنگ بھی بدل جاتا ہے۔ زندگی سے   محبت، زندگی کی حقیقت کا احساس، وقت کے  گزر جانے  کا احساس، زندگی  اور  لمحوں  کی تیز رفتاری  اور  شاعر کے  تلازمی تصورات کی شدت کا اندازہ بھی بحروں  کی روانی  اور  تیز رفتاری سے  ہوتا ہے۔ بحروں  نے  موضوعات کی مدد کی ہے۔ تاثیر بخشی ہے، شاعر کے  جذبات  اور  مزاج، تیور  اور  رجحانات کو بھی بحروں  کے  انتخاب سے  سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر، قلوبطرہ، آمادگی، جواری، تعمیر، ایک لڑکا، یادیں، پس دیوار چمن، بنت لمحات، اذیت پرست، باز آمد، دستک  اور  آمادگی کی بحروں  سے  ان حقائق کا احساس ہو گا۔

 

            اختر الایمان کی بعض نظموں  میں  عروضی قواعد کی پابندی سے  زیادہ تاثر کے  تسلسل  اور  صوتی آہنگ کی اہمیت ہے۔ قافیوں  کو ضرورت کے  مطابق استعمال کیا گیا ہے۔ عہد وفا، آخر شب، یادیں، دوسری کئی نظموں  میں  مصرعے  ٹوٹتے  ہیں۔ ایک مصرعہ دو حصوں  میں  مکمل ہوتا ہے  تو دوسرا مصرعہ تیسرے  مصرعے  کے  درمیان ختم ہوتا ہے۔ شاعر دراصل احساس کی شدت بڑھانا چاہتا ہے۔ تاثر کے  تسلسل کو قائم رکھنے اور قاری کے  شعور و احساس میں  شعری تجربوں  کو جذب کر دینے  کی خواہش رہی ہے۔ ’عہدِ وفا‘  ایک چھوٹی سی نظم ہے، شاعر بہت محتاط رہا ہے  ورنہ اس منظوم نثر میں  نقص پیدا ہو جاتا۔ اختر الایمان کو شعری ساخت کا خیال رہتا ہے۔ ان کی تکنیک کو فکر کی وحدت کے  پیش نظر رکھئے۔ الفاظ  اور  آواز کے  زیر و بم سے  وہ بہت سے  حقائق کا احساس گہرا کر دیتے  ہیں۔ مختصر نظموں  میں  بڑی معنویت ہے۔ دستک، عہد وفا، خاکدان، کتبہ، جب  اور  اب، ایک یاد، درد کی آواز، اعتماد، قیامت، شکوہ، سکون، سلسلے، خوبصورت مختصر نظمیں  ہیں۔ تاثرات گہرے  ہیں  جو متاثر کرتے  ہیں۔

            ’دور کی آواز‘  مختصر نظم ہے، ہر لحاظ سے  مکمل  اور  خوبصورت، ایک پوری کہانی دور کی آواز کے  ساتھ اُبھرتی ہے۔ اختر الایمان کی مختصر نظموں  میں  اسے  ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے:

 

نقرئی گھنٹیاں  سی بجتی ہیں

دھیمی آواز میرے  کانوں  میں

دُور سے  آ رہی ہے، تم شاید

بھولے  بسرے  ہوئے  زمانوں  میں

اپنی میری شرارتیں، شکوے

یاد کر کر کے  ہنس رہی ہو کہیں!

 

            رومانی فسانے  کا ’ابتدائیہ‘  ہے۔ چند مصرعوں  میں  ایک پورے  سفر کی داستان ہے، تنہائی میں  کسی کی آواز کا یہ تاثر بہت رومانی ہے۔ عاشق کی کیفیت ظاہر نہیں  ہوتی ہے  لیکن اس کے  المیہ کا تاثر یقیناً پھیل جاتا ہے۔ اندرونی کرب کو بھی سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔

            ’عہد وفا‘  مختصر نظم ہے۔  محبت کی اس مختصر کہانی میں  جیسے  صدیوں  کی داستان سمٹ آئی ہے۔ لہجے  کی دلکشی متاثر کرتی ہے۔

            یہی شاخ تم جس کے  نیچے  کسی کے  لیے  چشم نم ہو، یہاں  اب سے  کچھ سال پہلے  مجھے  ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے  میں  نے  آغوش میں  لے  کے  پوچھا تھا بیٹی: یہاں  کیوں  کھڑی رو رہی ہو، مجھے  اپنے  بوسیدہ آنچل میں  پھولوں  کے  گہنے  دکھا کر وہ کہنے  لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے  انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی جدھر اونچے  محلوں  کے  گنبد، ملوں  کی سیہ چمنیاں، آسماں  کی طرف سر اُٹھائے  کھڑی ہیں، یہ کہہ کر گیا ہے  کہ میں  سونے  چاندی کے  گہنے  ترے  واسطے  لینے  جاتا ہوں  رامی!

            اپنی مختصر نظموں  کے  متعلق اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’میری شاعری کا ایک اہم جزو مختصر نظمیں  بھی ہیں، کئی نقادوں  نے  ان نظموں  کا محرک جاپانی شاعری کو بتایا ہے  یا انھیں  ان نظموں  میں  جاپانی شاعری کی جھلک نظر آئی ہے، ایسا کیوں  ہوا مجھے  معلوم نہیں۔ مختصر نظم کہنے  کی تحریک مجھے  جہاں  ملی تھی وہ سارترے  کی ایک نظم ہے۔ نظم اس وقت میرے  ذہن میں  نہیں  صرف ایک مصرعہ یاد ہے:

            کبھی میرا بھی اِک گھر تھا!

یہ چھ سات مصرعوں  کی نظم تھی  اور  تاثر سے  بھرپور تھی یا مجھے  بھرپور نظر آتی تھی یا محسوس ہوئی تھی، ایسی نظمیں  خالصتاً احساس کی نظمیں  ہوتی ہیں، یہ اس قدر مختصر ہوتی ہیں، ان میں  کسی موضوع کو دخل ہوہی نہیں  سکتا، یہ نظمیں  دراصل اُڑتے  ہوئے  رنگ پکڑنے  والی بات ہے  مجھے  یہ صنف اسی لیے  بہت اچھی لگی تھی۔ اس میں  تاثر  اور  احساس بھرپور آتا ہے۔ یہ نظمیں  دراصل چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ کی تتلیاں  ہیں  جوہر طرف اُڑتی پھرتی ہیں اور جو کبھی پکٍڑ میں  آ جاتی ہیں، کبھی نہیں  آتیں۔‘‘  

(اختر الایمان )

            اختر الایمان کی ایسی مختصر ترین نظمیں  تاثر  اور  احساس سے  بھرپور ہیں۔ لمحاتی تجربوں  کے  رنگ ملتے  ہیں، لمحوں  کی روشنی  اور  لمحوں  کی خوشبو ملتی ہے۔ ایسی نظموں  میں  لمحے  گفتگو کرتے  ہیں، شاعر کی نظر الفاظ کے  انتخاب  اور  ترتیب پر گہری ہے، احساس  اور  لمحوں  کے  رنگوں  سے  ’وژن‘  پیدا ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دوسری نظمیں

            ’آج  اور  کل‘  میں  چھوٹے  چھوٹے  صرف سات مصرعے  ہیں:

 

ہزار بار ہوا یوں  کہ جب اُمید گئی

گلوں  سے  واسطہ ٹوٹا نہ خار اپنے  رہے

گماں  گزر نے  لگا ہم کھڑے  ہیں  صحرا میں

فریب کھانے  کو جا رہ گئی نہ سپنے  رہے

نظر اٹھا کے  کبھی دیکھ لیتے  تھے  اوپر

نہ جانے  کون سے  اعمال کی سزا ہے  کہ آج

یہ واہمہ بھی گیا سر پہ آسماں  ہے  کوئی

            نئے  ذہن کی کیفیت ہے، نئے  شعور کا تجربہ ہے۔ لمحوں  کا احساس ہے، اقدار و عقائد کے  چٹخنے  کی آواز ہے۔

            ’کتبہ‘  سنئے:

 

دل ہے  کہ اُجاڑ کوئی بستی

ہر سمت مزار جا بجا ہیں

میں  مرثیہ خواں  نہیں  کسی کا

لیکن وہ مزار لوح جس کی

شفّاف ہے  آئینہ کی مانند

کس کا ہے  چلو نہ آؤ دیکھیں

ہے  ہے  کوئی طفل آرزو ہے

کمسن ہے  کلی ہے  نو دمیدہ

 

’پس و پیش‘  بھی ایک پیاری سی نظم ہے:

 

خلش ہے  رنگ تبسم کی میرے  پہلو میں

جلو میں  رفتہ بہاروں  کو لے  کے  آئی خزاں

کوئی نہیں  بھری دنیا میں  ہم نفس میرا

وہ راہبر و ہوں  جسے  ہر قدم پہ ہے  یہ گماں

یہ سنگ میل کہیں  سنگ رہ نہ بن جائے

کہیں  فریب نہ ہو شوق منزل جاناں

کہیں  نہ ظلمت شب گھیرے  سر منزل

سیاہ رات نہیں  میرے  درد کا درماں

 

’اتفاق‘  صرف چھ مصرعوں  کی مکمل نظم ہے:

 

دیار غیر میں  کوئی جہاں  نہ اپنا ہو

شدید کرب کی گھڑیاں  گزار چکنے  پر

کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں

کسی اِک ایسی جگہ سے  ہو یوں ہی میرا گزر

جہاں  ہجوم گریزاں  میں  تم نظر آ جاؤ

 اور  ایک ایک کو حیرت سے  دیکھتا رہ جائے

 

            ’دستک‘  میں  نو مصرعے  ہیں  یوں  یہ سات مصرعوں  کی نظم ہے۔ ایک مصرعے  کو تین بار پیش کیا گیا ہے:

اس سے  پہلے  بھی یہ دروازہ کھلا

            مختصر نظموں  میں  مصرعوں  کو توڑ کر، پہلے  مصرعے  کو دوسرے  میں  مکمل کر کے اور دوسرے  مصرعے  کو تیسرے  مصرعے  کے  درمیان میں  ختم کر کے اور بعض مصرعوں  کو دُہرا کے  تاثر گہرا کیا گیا ہے۔ ایسی نظموں  میں  عموماً بنیادی المیہ رجحان ہر جگہ ہے اور ’پیتھوس‘  پیدا ہوا ہے  مثلاً:

 

کون سی راحت دوراں  جو میسر آئی

داغ دے  کر نہ گئی، کون سے  لمحات نشاط

ٹیس بن کر نہ اٹھے، زہر نہ چھوڑا مجھ میں

ہر نیا واقعہ اِک حادثہ تھا، ہر نئی بات

فال بد نکلی، کیا زخم دروں  کو گہرا

ہر نئے  موڑ پہ دنیا ہوئی ثابت وہ بساط

جس پہ انسان فقط مہرے  ہیں اُلٹے  سیدھے

پھر بھی وہ کون سا جادو ہے  جو ہر تازہ وفات

یوں  بھلا دیتا ہے  جی سے  کہ نشاں  بھی نہ ملیں؟

(سحر)

 

            اختر الایمان نے  ’رومانی دو شیزہ‘  یا ’عورت‘   اور  غم دوراں  کے  شکار عاشق کی بھی کہانی سنائی ہے۔  اگر چہ ان کے  کلام میں  عورت، رومان  اور   محبت کا روایتی تصور ملتا ہے  لیکن شاعر کے  زخمی دل  اور  اس کی بے  قرار روح کی بھی پہچان ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے  عمر کی ایک منزل پر دل نے  چوٹ کھائی ہے۔ سوز و گداز متاثر کرتا ہے۔

            اختر الایمان:

ابھی تو زیست کا عنواں  بدل نہیں  سکتا

 محبتوں  کو فسانہ بنا کے  دیکھ تو لوں

(محلکے )

کہتے  ہوئے اور فردا کا خیال کرتے  ہوئے  یہ سوچنے  لگے:

چوم لینے  دے  شہابی رخسار

کتنا تاریک ہے  فردا کا خیال!

(مآل)

 

            اختر الایمان نے  بعض خوبصورت رومانی نظمیں  کہی ہیں  لیکن ’محلکے ‘   اور  ’مآل‘  دونوں  ہلکی پھلکی نظمیں  ہیں۔ ’دیکھ تولوں ‘  کی ردیف میں  تجربوں  کا اظہار نہ ہو سکا ہے اور بعض مصرعے  ایسے  ہیں  کہ بس انھیں  پڑھ جائیے۔ ’مآل‘  میں  شاعر رومانی دوشیزہ کے  متعلق اس طرح سوچتا ہے:

 

مجھ کو اس وقت یہ احساس نہیں

جھوٹ گو جھوٹ ہے  رنگین تو ہے

تو کسی  اور  کی میراث نہیں

ایک ناکام سی تسکین تو ہے

 

شاعر کی پوری زندگی ایک ’آہ‘  میں  صرف ہو جاتی ہے۔ یہ دوشیزہ یا عورت کسی  اور  کی بن گئی ہے۔ اب شاعر کے  پاس یادوں  کے  سوا  اور  کچھ نہیں  ہے۔ وہ حنائی انگلیوں  کی جنبشوں  کو یاد کرتا ہے۔  اور  آنکھوں  میں  لہو کی بوند جذب کر لیتا ہے۔ تنہائی میں  سانس چل رہی ہے:

 

میں  اکیلا جا رہا ہوں اور زمیں  ہے  سنگلاخ

اجنبی وادی میں  میرا آشنا کوئی نہیں

راستے  کٹتے  ہوئے  ہیں  دھند میں

دھند سے  آگے  خلا ہے  راستہ کوئی نہیں

یہ کیوں۔۔۔؟ اس لیے  کہ:

 اور  تیری نرم بانہیں  مجھ سے  اب نا آشنا

 اور  ہی گردن کے  حلقے  میں  لپٹ کر سو گئیں

(لغزش)

تنہائی میں  بھولی بسری باتیں  یاد کر کے  عاشق اپنی سادگی پر مسکرا دیتا ہے، سوچتا ہے:

کس قدر تیزی سے  یہ باتیں  پرانی ہو گئیں 

            اس نظم میں  یادوں  کا سلسلہ بھی ہے اور تنہائی کا احساس بھی۔ ایسی نظمیں  عمدہ رومانی نظمیں  ہیں۔ شاعر کے  کرب کا اثر ہوتا ہے۔ اس کے  ہیجانات متاثر کرتے  ہیں۔ داخلی کیفیتیں  پر کشش ہیں۔ ’لغزش‘  ایک اچھی مکمل رومانی نظم ہے۔ اس میں  وہ بنیادی خامی نہیں  جو بعض دوسری نظموں  میں  ملتی ہے ’دور کی آواز‘  کا ذکر کر چکا ہوں، خوب صورت البیلی مختصر نظم ہے۔ مشفقی، اختر الایمان کی عمدہ نظموں  میں  شمار کی جا سکتی ہے۔ یادوں  کے  خوب صورت آہنگ میں  اسے  ایک بار پھر دیکھنے  کی آرزو کا جس طرح اظہار ہوا ہے  وہ اثر انگیز ہے:

 

رنگوں  کا چشمہ سا پھوٹا، ماضی کے  اندھے  غاروں  سے

سرگوشی کے  گھنگھرو کھنکے  گرد و پیش کی دیواروں  سے

یاد کے  بوجھل پردے  اٹھے، کانوں  میں  جانی انجانی

لوچ بھری آوازیں  آئیں  جیسے  کوئی ایک کہانی

دور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا پھولوں  سے  کہتا ہو

جیسے  جھرنا قطرہ قطرہ رِس رِس کر بہتا رہتا ہو

مدت بیتی ان باتوں  کو مضطر آج تلک رہتا ہے

 دشت ہویدا کا دیوانہ تند بگولوں  سے  کہتا ہے

آگ ہے  میرے  پاؤں  کے  نیچے  دُکھ سے  چور مری نس نس ہے

ایک دفعہ دیکھا ہے  اس کو ایک دفعہ کی  اور  ہوس ہے!

رومانی مزاج کی ایک خوبصورت تخلیق ہے!

            ’محرومی‘  میں  کیفیت یہ ہے  کہ شاعر کے  پاس کچھ بھی نہیں  ہے۔ اسے  کچھ باتیں  یاد ہیں  کچھ یاد نہیں، وہ ایک دورا ہے  پر کھڑا سوچ رہا ہے  کہ کس طرف جانا چاہیے، اس کی حالت یہ ہے:

 

خواب انگیز نگاہیں  وہ لب درد فریب

اِک فسانہ ہے  جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

میرے  دامن میں  نہ کلیاں  ہیں  نہ کانٹے  نہ غبار

شام کے  سائے  میں  داماندہ سحر بیٹھ گئی

کارواں  لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق

ایک اُمید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی

 

ایک دو را ہے  پہ حیران ہوں  کس سمت بڑھوں

اپنی زنجیروں  سے  آزاد نہیں  ہوں  شاید

میں  بھی گردش گہہ ایام کا زندانی ہوں

درد ہی درد ہوں  فریاد نہیں  ہوں  شاید

محبوبہ آئی ہے اور رو رہی ہے، شاعر کہتا ہے:

تیرے  آنسو مرے  داغوں  کو نہیں  دھو سکتے

تیرے  پھولوں  کی بہاروں  سے  مجھے  کیا لینا

’جمود‘   اور  ’آمادگی‘  میں  بھی اسی قسم کے  خیالات ہیں:

ساقی و بادہ نہیں، جام و لب جو بھی نہیں

تم سے  کہنا تھا کہ اب آنکھ میں  آنسو بھی نہیں

(جمود)

شاعر پر جمود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ’آمادگی‘  میں  کہتا ہے:

اب آؤ تو رکھا کیا ہے

چشمے  سارے  سوکھ گئے  ہیں

یوں  چا ہو تو آ سکتی ہو

میں  نے  آنسو پونچھ لیے  ہیں

(آمادگی)

 

            ’آمادگی‘  کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اچھی نظم ہے۔ خارجی عناصر کی تصویر میں  داخلیت کو اُبھارا گیا ہے۔ خوبصورت اشارے  ہیں۔ داخلی زندگی کی تباہی کی تصویر فنکارانہ انداز میں  پیش کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے  جیسے  شاعر کی ذات ایک عمارت تھی جو ٹوٹ گئی ہے۔ یہ عمارت ایک علامت ہے۔ ایک ایک اینٹ کے  گرنے، دیواروں  کے  کانپنے، شہتیروں  کے  ٹوٹنے،  اور  چونے  کی ایک پتلی سی تہہ کے  گرتے  گرتے  بیٹھنے  کے  تصورات خوبصورتی سے  اُبھارے  گئے  ہیں۔ محسوس ہوتا ہے  جیسے  آنکھوں  کے  سامنے  کوئی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔ آنکھوں  کے  سامنے  کوئی سسک رہا ہے۔ اس کے  بعد پھر ایک یاد رہ جاتی ہے:

 

میرے  دامن پہ کئی اشک ہیں  اب تک تازہ

میرے  شانوں  پہ وہی جنبش سر ہے  اب بھی

میرے  ہاتھوں  کو ہے  احساس، انھیں  ہاتھوں  کا

میری نظروں  میں  وہی دیدۂ تر ہے  اب بھی

آج آہٹ بھی نہیں  کوئی اشارہ بھی نہیں

کسی ڈھلکے  ہوئے  آنچل کا سہارا بھی نہیں

 

            یہ سب خوبصورت مختصر رومانی نظمیں  ہیں۔ عورت کے  آرچ ٹائپ سے  رشتے اور داخلی رشتے  کو سمجھانے  کی غیر شعوری  اور  نیم شعوری کوشش ہے۔ محرومی، اُداسی  اور  داخلی پسپائی کی رومانی تصویریں  ہیں  جن میں  فرد کے  ہیجانات  اور  جذبات  اور  حسی کیفیات کی اہمیت ہے۔ اختر الایمان نے  عام رومانی داستان کو اپنے  احساس  اور  جذبے  سے  ہم آہنگ کر کے  نئی تخلیق کی ہے۔ اپنے  مزاج کے  تیور، اپنی شخصیت کا سوز  اور  اپنی روح کی گرمی  اور  روشنی میں  تجربے  کو تپایا ہے۔ یہ تجربے  ان کے  شعری پیکروں  میں  ڈھل کر پُر کشش بن گئے  ہیں۔

            تصور، جبر، پس منظر،  محبت، اعتراف، اجنبی، تجھے  گماں  ہے، سلسلے  ٹوٹ گئے، ریت کے  محل، باز آمد، اچھی رومانی نظمیں  ہیں۔

**

 

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل عنایت کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور ای بک کی تخلیق: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔