ڈاکٹر رحمت یوسف زئی
پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
رسول محور کائنات، رسولؐ محبوب رب ذوالجلال، رسول سر چشمہ انسانیت زبان پر جب نام محمد آ جاتا ہے تو بے ساختہ نطق زبان کے بوسے لینے کے لیے بے چین ہو اٹھتا ہے۔ شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے اسلام کا شیدائی ہونے کے باوجود نعت نہ لکھی ہو ۔ اردو میں نعت گوئی کی روایت بہت قدیم ہے۔ بلکہ بلا تکلف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے آغاز سے ہی نعت گوئی شعار عام بنی رہی اور نہ صرف آج تک یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ تا قیامت جاری رہے گا۔
نعت تقریباً ہر ہیئت میں لکھی گئی ہے ۔ اور سینکڑوں نعتیہ مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں اور غزل کی ہیئت عام طور پر مقبول رہی ہے ۔ اور جب آزاد نظم کا چلن ہوا تو شعرا نے اس ہیئت میں بھی اپنے دلی جذبات و احساسات پیش کیے لیکن ایک اشائیہ آزاد نظم کی ہیئت میں نعتیہ شاعری کا کوئی مجموعہ کم از کم میری علم میں نہیں ہے۔
ڈاکٹر ایس ایم عقیل۔ؔ میرے کرم فرما ہیں اور جب معلوم ہوا کہ انہوں نے نعتیہ مجموعہ شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے تو مجھے بے پناہ خوشی ہوئی۔ یہ ان کی ذات رسول اکرم ﷺسے بے پناہ عشق کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے منصب کی ضروریات یعنی نثری، تحقیق و تنقید کتابوں کی اشاعت پر نعتیہ مجموعے کو فوقیت دی۔
نعت گوئی کوئی آسان قسم کا تخلیقی عمل نہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ وہ ہے جہاں فرشتوں کے بھی پر جل جائیں ۔ حمد پر وقار لکھنی ہو تو زیادہ بڑا مسئلہ نہیں لیکن نعت گوئی میں حد درجہ احتیاط لازم ہے۔ اسی لیے کے کہا گیا ہے کہ
با خدا دیوانہ ہاشو با محمد ہوشیار
اور پھر یہ بھی ہے کہ یہ ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ۔ شاعری کی ایک وصف غلو ہے ۔ لیکن نعت میں غلو ہو جائے تو پھر اس کا مواخذہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔ جذبات کی شدت میں اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ شاعر اپنی حدوں سے آگے بڑھ کر غلو کی منزلوں میں داخل ہو جائے لیکن ہوش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ذی شان ہستی کی مدحت کرتے ہوئے مراتب کا بھی خیال رکھا جائے اور ساتھ ہی کوئی بات ایسی نہ کہ دی جائے جو غلو کی وجہ سے حضور ﷺ کے مزاج مبارک کے خلاف جائے۔
اس مجموعہ کی پہلی نعت ہی ذہن و دل کو متاثر کرتی ہے۔ اس نعت میں ۱۴ مصرعے ہیں ۔ لیکن ہر مصرع میں امڈتے ہوئے جذبات کا ایک بے کراں سمندر موجزن نظر آتا ہے اور قاری پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کا بیان لفظوں میں نہیں ہو سکتا۔
نعت کہنے کا جب بھی ارادہ کیا
ذہن و دل پر عجب خوف طاری ہوا
کس زباں سے کروں
ان کی حمد و ثنا
میں خطا کار ہوں
وہ حبیب خدا
ان مصرعوں میں نہ تو مفرس و معرب تراکیب کا جال بنا گیا ہے اور نہ ہی علم بیان اور علم کلام کی خوبیوں سے تزئین پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیدھا سادھا جذباتی اظہار ہے لیکن علانیہ طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے۔ ایک ایک لفظ میں عقیدت اور ذات رسول اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت جھلکتی ہے۔ اور ایک ایسا دیر پا تاثر پیدا ہوتا ہے جو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یہ مجموعہ ۶۲ نعتوں پر مشتمل ہے اور تمام نعتیں آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں ۔ ۶۲ کے عدد میں بھی ایک معنویت ہے کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی جہات ارضی ۶۲ سال تھی۔ ان ۶۲ نعتوں میں عقیلؔ نے دیانت سیرت مبارکہ کے کچھ اہم پہلو پیش کیے ہیں جن کو پڑھتے ہوئے حضور کی زندگی کا ایک ایک باب کھل جاتا ہے۔ عہد طفلی، نوجوانی، حجر اسود کے نصب کرنے پر ، اہل مکہ کا آپس میں جھگڑا اور اس مسئلہ کو حضور کا سلجھانا، غار حرا میں پہلی وحی کا نازل ہونا، دعوت دین، ورقہ بن نوفل کی تصدیق وحی ، واقعہ معراج، ہجرت، قیام مدینہ، فتح مکہ ، حجۃ الوداع غرض ساری حیات رسول اکرم نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اور شاعر کا کمال یہ ہے کہ تفصیل کو اجمال میں پیش کر کے نعت گوئی کا حق ادا کریدا۔
یہ کتاب یقیناً اس قابل ہے کہ اس کی پذیرائی کی جائے۔ مجھے قوی امید ہے کہ شمع محمدی کے پروانے اس مجموعے کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
٭٭٭
نعت کہنے کا جوں ہی ارادہ کیا
ذہن و دل پر عجب خوف طاری ہوا
کس زباں سے کروں
ان کی نعت و ثنا
میں خطا کار ہوں ،
وہ حبیبِ خدا
خالق دوجہاں ، قادر کن فکاں
ان کا رطب الساں
پڑھ کے صلی علیٰ ، جب اٹھایا قلم
انگلیوں میں قلم تھر تھرانے لگا
عشق احمدؐ نے دکھلایا دنیا اثر
نعت پر نعت کہنے لگا دم بدم
ایک بھی اس میں مقبول ہو جائے گر
زندگی میری نورٌ علیٰ نور ہو
٭٭٭
اونٹنی تھی حلیمہ کی لاغر بہت
اس پہ جب شاہِ عربیؐ بٹھائے گئے
اونٹنی میں تغیر ہوا رونما
دیکھنے والے حیرت سے تکتے رہے
آپؐ کے ساتھ رحمت کا ہے سلسلہ
برکتیں آپؐ کے دم سے قائم ہوئیں
سب سے پیچھے جو تھی قافلے بھی کبھی
اونٹنی آگے آگے تھی ہر ایک سے
پیچھے چلنا خدا کو گوارہ نہ تھا
رہبری آپؐ کا مقصد زندگی
اک نئے دور کی ابتدا آپؐ ہیں
٭٭٭
ابھی چڑھتی جوانی تھی
کہ عہد تام کے ذریعہ
جوانوں کو
اخوت کا،
حمیت کا،
صداقت کا،
امانت کا،
سبق ایسا پڑھایا
کہ دنیا محو حیرت تھی
یہ جس کے نقشِ اول تھے
وہی استادِ کامل ہیں
٭٭٭
وہ پتھر ایک تھا
لیکن! قبائل ایک سے زائد
وہ کار خیر تھا
لیکن!
رکاوٹ آ گئی اس میں
قبیلہ کوئی بھی اس بات پر راضی نہ ہوتا تھا
کہ کار خیر ہے، اور خیر سے انجام کو پہنچے
بضد ہر اک قبیلہ تھا
کہ پتھر کو وہی رکھے
نتیجہ صاف ظاہر ہے
ہر اک کے ہاتھ میں تلوار تھی
آنکھوں میں غصہ تھا
کسی کو اس پہ حیرت تھی
نہ کوئی غمزدہ اس سے
مگر سمجھوتہ کر لینا
اچانک نوجواں اک سامنے آیا
کہ جس کے مشورہ پر
متفق سارے قبائل تھے
امین وقت نے اس دم
خود اپنے دست اقدس سے
ادائے امن کو پھیلا دیا دھرتی کے سینے پر
اسی چادر میں رکھا
حجر اسود کو محمد نے
سبھی ہاتھوں نے جب چادر کو تھاما
ہو گئے شاداں
عداوت مٹ چکی تھی
امن کا سورج منور تھا
٭٭٭
وہ چرواہا،
گزاری جس نے ساری عمر صحرا میں
وہی اوّل وہی آخر
نگہبانی میں بھیڑوں کی
مشقت، صبر اور ہمت ضروری ہے
مگر اس سے ضروری ہے
محبت بکریوں سے
خدا نے اتنا مشکل کام سونپا تھا محمدؐ کو
نگہبانی کی ساری تربیت
تکمیل کی منزل پہ پہنچی ہے
کہ اک دن ان کو کرنی تھی
جہاں بھر کی نگہبانی
کبھی ہادی کی صورت میں ،
کبھی رحمت کی صورت میں
٭٭٭
ہر جگہ اور ہر دو ر میں یوں ہوا
جس کی تعریف سارے جہاں میں ہوئی
اس کی بیوی نے اس کو نکما کہا
بیوی واقف ہے شوہر کہ ہر راز سے
اُس کا کہنا غلط ہے،
یہ کیسے کہیں
عظمت مصطفی ؐ کی ہے پہلی سند
سب سے پہلے ،
خدیجہؓ مسلماں ہوئیں
٭٭٭
وہ ہادی
جس کو فکر دو جہاں لاحق تھی برسوں سے
مسائل ذہن میں تھے
اور نظر تھی سارے عالم پر
زمانے بھر کی بد چلنی نے جب بیتاب کر ڈالا
قدم بڑھنے لگے،
اک پر سکوں ماحول کی جانب
جہاں فرصت ملے سنجیدگی سے غور کرنے کی
ہر اک پہلو سے جب غار حرا بہتر نظر آیا
تو ہادی نے اسی کو عارضی مسکن بنا ڈالا
کئی راتوں کی بے خوابی
کئی برسوں کی بیتابی
یقیناً ختم ہونی تھی
کہ پہنچا قاصد اول
سنایا حکم ربانی
پڑھائے چار جملے،
دونوں عالم ہو گئے روشن
وہ ہادی حامل قرآن ہے
اذنِ خدا ہے
یقیناً محسن انسانیت ہے
سارے عالم کا
٭٭٭
پریشاں حال انساں تھا
شرافت اور محبت کا نہ تھا نام و نشاں باقی
جہالت کا یہ عالم تھا
کہ بیٹی کا جنم لینا
قبیلہ بھر میں والد کے لیے ذلت کا ساماں تھا
اسے درگور کر دینا
اصولِ زندگانی تھا
کہاں عورت کی وہ درگت
کہاں عورت کا یہ رتبہ
کہ اس کے پاؤں کے نیچے
بسا ڈالا ہے جنت کو
یہ جس کا کارنامہ ہے
وہ محبوب خدا ہے
محسنِ جن و بشر بھی ہے
٭٭٭
وہ امی!
جس کی باتیں اک خزانہ علم و عرفاں کا
وہ امی!
زندگی جس کی نمونہ ہے شرافت کا
وہ امی!
جس نے صبر و شکر کی تعلیم بخشی ہے
وہ امی!
جس کی نظروں میں قیامت تک کا منظر ہے
وہ امی میرا رہبر ہے
کوئی د نیا کا عالم، گر پڑھا دیتا محمدؐ کو
تو استادِ محمدؐ
مرتبہ میں ان سے بڑھ جاتا
خدا کی مصلحت تھی،
اس نے امی رکھ دیا ان کو
وہ سب کا رہبر ہے
٭٭٭
رسول اللہؐ نے جب دعوت حق دی زمانے کو
تو مکہ میں بہت کم لوگ ان کی راہ پر آئے
خیال آیا،
کہ طائف میں کریں تبلیغِ دین حق
مگر رد عمل کیا ہوگا
اندازہ نہ تھا اس کا
لہو جسم مبارک کا
گرا دھرتی پہ طائف کی
دعا فرمائی اس دم
ہادیٔ برحق نے طائف میں
خدایا!
یہ بڑے نادان ہیں ان پر رحم فرما
یہ جاہل ہیں خدایا!
ان کی نسلوں پر کرم فرما
دعا قبول ہوتے ہی،
لہو نے رنگ دکھلایا
سنبھالا ہوش بچوں نے
تو تیور ہی نرالے تھے
یہ تاریخی حقیقت ہے
کہ ایسا آ گیا اک دن
جہاں سے ہادیٔ برحق
بہت مایوس لوٹے تھے
اسی طائف کی دھرتی پر
کوئی کافر نہ تھا باقی
٭٭٭
کہا تھا ایک دن
ورقہ بن نوفل نے کبریٰؓ سے
فرشتہ جو بھی آیا ابن عبداللہ سے ملنے
وہ ان سے پہلے آیا تھا
کبھی موسیٰ کی خدمت میں
کبھی عیسیٰ کی خدمت میں
نبوت کا کریں گے جب بھی دعویٰ ابن عبد اللہؐ
بڑی دشواریاں ہوں گی
بڑی ہی مشکلیں ہوں گی
خود ان کے اپنے رشتہ دار
دشمن بن کے اٹھیں گے
بڑے ہی صبر سے اور استقامت سے
انہیں یہ کام کرنا ہے۔
اگر زندہ رہا میں ، تو حمایت کے لیے آ کر
رسول اللہؐ کی خدمت میں خود کو
پیش کر دوں گا
٭٭٭
احساں رقم ہو کس طرح
میرا قلم محدود ہے
فیضان لا محدود ہیں
میرا بیاں محدود ہے
کیا ذکر ہوا کرام کا
میری زباں محدود ہے
محسن ہیں جو ہر ایک کے
ان کے لیے بس یہ کہوں
صلّو علیہ و آلہ
٭٭٭
طائف کے بچے بالیقیں
نادان تھے، انجان تھے
جسم مبارک آپؐ کا
زخموں سے چھلنی کر گئے
آ کر فرشتوں نے کہا
ہم کو اجازت دیجئے
برباد کر دیں شہر کو
فرمایا! یہ انجان ہیں
مجھ سے مرے پیغام سے
کل آنے والی نسل کو
توفیق دینے کے لیے
اس شہر کو محفوظ رکھ
٭٭٭
بڑھیا کی تم لاٹھی بنے، مجبور کا ساتھی بنے
اک تم بھی ہو اس شہر میں
اک وہ بھی ہیں اس شہر میں
جن کے سحر کے خوف سے
ترکِ وطن کرتی ہوں میں
بیٹا تمہارا نام کیا
نام محمدؐ جب سنا
حیراں ہوئی وہ پیر زن
فوراً کہا! صد مرحبا، صد مرحبا، صد مرحبا
دیکھا تو یہ ثابت ہوا
جو کچھ سنا تھا سب غلط
بے کار گزری زندگی
پیری میں یہ عزت ملی
یہ آپ کا احسان ہے
لب پر خدا کا نام ہے
اے رہبر انسانیت
قربان جاؤں آپؐ پر
٭٭٭
ایک ہرنی کو ہے احترامِ نبیؐ
لوٹ آئی بیاباں سے پھر قید میں
آپؐ کا قرب حاصل ہوا دو گھڑی
کنکریوں کو گواہوں کا رتبہ ملا
اس تکلم پہ قربان دونوں جہاں
جس کا ہر لفظ
تفسیر قرآن ہے
٭٭٭
وہ بھی عورت کا فرہ تھی
پھینکتی تھی روز ۔ کوڑا جسم اطہر پر
بہی معمول تھا اس کا
اچانک فرق اس میں
آپؐ نے محسوس فرمایا
سکت باقی نہ تھی عورت میں
آنکھیں بھی ملانے کی
عیادت کے لیے ہر دن چلے آتے ہیں بلا ناغہ
اثر ایسا ہوا عورت پہ
اخلاق حمیدہ کا
نکل آئی مقام کفر سے اقرار کی جانب
٭٭٭
گڑھا کھودا گیا تھا راہ میں حضرت محمدؐ کے
اندھیرے میں محمد مصطفیؐ اس راہ سے نکلے
بخیر و عافیت گزرے
سویرا جب ہوا
بو جہل خود ہی گر گیا اس میں
گڑھا چھوٹا بہت تھا
اور رسی تھی بڑی ۔ لیکن
سرا لگتا نہ تھا بو جہل کے ہاتھوں
معمہ تھا
صحابی اک وہاں سے جا رہے تھے
انہوں نے ہاتھ رسی کو لگایا
سرا بو جہل کے ہاتھوں میں آیا
صحابی کا یہ رتبہ ہے جہاں میں
تو کیا ہو مرتبہ خیر البشرؐ کا
کوئی سمجھائے مجھ کو
شانِ رحمت
٭٭٭
ایک تاجر پریشاں تھا بو جہل سے
اک جماعت سے جا کر یہ کہنے لگا
کہ مجھے میرا روپیہ دلا دیجئے ۔
اس جماعت میں جتنے تھے کفار تھے
سب نے فوراً کیا
ابن عبداللہ کعبہ میں بیٹھے ہیں اب
جا کے ان سے کہو
کام بن جائے گا
ماجرا سن کے نکلے رسول خدا
جا کے بو جہل سے آپ نے یوں کہا
ان کا روپیہ ادا کیجئے گا ابھی
ایک لمحہ میں روپیہ ادا ہو گیا
طنز کے تیر برسے ابو جہل پر
دوستوں نے کہا
اس قدر تم محمدؐ سے ڈرتے ہو کیوں
اس گھڑی جو کہا تھا ابو جہل نے
اس میں نعتِ محمدؐ کا انداز ہے
آپ سوچیں ! کہ اتنا بڑا آدمی
جب تقاضہ کرے
میرے در پر کھڑے
کیسے جرأت کروں حرفِ انکار کی
٭٭٭
فرش سے عرش پر جب بلائے گئے
نار دوزخ سے گرمی اٹھا لی گئی
واں تھے موسی طلبگار دیدار حق
یاں طلبگار ہے خالق دو جہاں
عرش پر آ گئے احمد مصطفی
اپنے پاؤں میں نعلین پہنے ہوئے
آپؐ اقدس کا رکھا خیال
کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی
قرب احمدؐ کے صدقے میں نالی کو
عرش والے کا دیدار حاصل ہوا
٭٭٭
لن ترانی کی تسبیح پڑھتے ہوئے
زندگی کے کئی سال کاٹے گئے
اک تجلی کا پردہ گرایا گیا
طور جلنے لگا
موسیٰ بے ہوش تھے
یاں کوئی پردہ حائل نہ تھا درمیاں
صرف قوسین کا فاصلہ رہ گیا
ہمت مصطفی ؐ
جرأت مصطفیؐ
وہ نہ بے ہوش تھے
نہ پریشان تھے
دوستوں کی طرح گفتگو ہو گئی
دوستوں کی طرح رخصتی ہو گئی
٭٭٭
شب معراج جب چلنے لگے وہ عرش کی جانب
سنائی دی وہاں قدموں کی آہٹ
شاہ بطحیٰؐ کو
یہ آہٹ تھی مدینہ کے مؤذن کی
ذرا آگے بڑھے تو
آپؐ نے حضرت عمرؓ کی جھلک دیکھی
ملائک جہاں پر
پاؤں اپنے رکھ نہیں سکتے
غلامانِ نبی ان منزلوں کے پار جا پہنچے
عروج آدم خاکی ہے
قدموں میں محمدؐ کے
٭٭٭
متفق تھے سبھی جن کی ہر بات پر
جب انہوں نے احد کا تصور دیا
تو زمانے کے تیور بدلنے
ہم نوا سارے دامن بچانے لگے
ان کو اپنے وطن سے نکلنا پڑا
پھول گلشن سے توڑا گیا جس گھڑی
اس کو عزت ملی،
اس کو رتبہ ملا
جو سمجھنے سے قاصر تھے اہل قریش
اس حقیقت یہ قربان زمانہ ہوا
٭٭٭
قیام شیر مکہ کی یقیناً آخری شب تھی
وہ گھر جو باب رحمت تھا
امڈ آئے تھے بادل ظلم کے
اس بابِ رحمت پر
مسلح دشمنانِ حق نے
اس کو گھیر رکھا تھا
نکلنا گھر سے باہر،
موت کو آواز دینا تھا
شجاعت اور ہمت آپؐ کی
ہے دید کے قابل
وہ ایسے نکلے سب کے درمیاں سے
کہ جیسے تیر نکلا ہو کماں سے
٭٭٭
ہوا جب حکم ہجرت
آپؐ نے فرمایا حیدرؓ سے
امانت جن کی میرے پاس ہے
وہ ان کو لوٹا دو
یہ میرا کام ہے
جو اب تمہیں انجام دینا ہے
وگرنہ حشر میں شرمندگی کا سامنا ہوگا
امانت پاس رکھنے
اور لوٹانے کا یہ منظر
کسی کی آنکھ نے دیکھا ہے
اور نہ دیکھ سکتی ہے
یہ اعمال محمدؐ ہیں
یہ تعلیم محمد ہے
٭٭٭
رفتہ رفتہ گھٹ رہی تھی طاقت صبر و سکوں
ضبط گر یہ غیر ممکن ہو گیا
آنسؤں کے چار قطرے
روئے انور پر پڑے
نیند سے بیدار ہو کر وجہ پوچھی آپؐ نے
جب کیا صدیقؓ نے،
دشمن ہے کوئی غار میں
ڈس رہا ہے ایڑیوں کو دیر سے
ایڑیوں جب ہٹایا
سانپ باہر آ گیا
چوم کو حضرت محمدؐ کے قدم
اپنے مسکن کی طرف واپس ہوا
ایڑیوں کے گھاؤ پر صدیق کے
جب لعاب دہن کا پھایا رکھا
ہر طرح فوراً افاقہ ہو گیا
قبل ازیں جتنے پیمبر آئے تھے
جس قدر ان کو ملے تھے معجزے
سب کے سب موجود تھے سرکار میں
جو ضرورت کے تحت ظاہر ہوئے
٭٭٭
مسافر تین تھے،
صحرا تھا اور یثرب کا رستہ تھا
مگر پیچھے سے دشمن تیز رو گھوڑے پہ آتا تھا
نظر حضرتؐ پہ تھی،
اور ذہن میں اونٹوں کا لالچ تھا
گھڑی حیرت کی ہے،
جو فکر کا پیغام دیتی ہے
کہ جب بھی آپؐ زد میں آ گئے تھے
دشمن جاں کے
زمیں میں پاؤں دھنس جاتے تھے
دشمن کی سواری کے
یقینی بات ہے
دشمن کا گرنا لازمی ٹھہرا
گرا کئی مرتبہ،
اس کا سنبھل جانا ضروری تھا
صبح کا بھولا تھا جو شام کو گھر لوٹ کر آیا
بجز لینے کے سر دینے کا جذبہ ہو گیا پیدا
سمجھ میں آگیا اس کی،
رسول اللہؐ کا رتبہ
٭٭٭
خدا کا حکم تھا،
اور وقت کا فطری تقاضہ
علی کرم کو چھوڑ کر حضرتؐ کا مکہ نکل جانا
کہاں اونٹوں کی قیمت
اور کہاں سرکار کا رتبہ
سرِ اقدس کی قیمت باندھتے تھے سرخ اونٹوں سے
بڑے نادان تھے
حفظِ مراتب بھول بیٹھے تھے
٭٭٭
شہید ہو گئے حمزہؓ
تو قاتلہ کا جنوں
زمانے بھر میں جہالت کا اک نمونہ تھا
اک ایسا وقت بھی دکھلایا
حق تعالیٰ نے
تمام راستے ظلم و ستم کے بند ہوئے
نبیٔ رحمت عالم کا ظرف کیا کہنے
جو غم دیا تھا
اسے آپؐ نے معاف کیا
اسے بھی دولت رحمت سے
سرفراز کیا
٭٭٭
بکھرتا جا رہا تھا رفتہ رفتہ شب کا سناٹا
کرا ہوں کی صدائیں
آ رہی تھیں ں شاہِ بطحیٰ کو
کراہوں کی صداؤں نے
چرا لی نیند آنکھوں سے
بدر کے قیدیوں کو باندھ رکھا تھا مدینہ میں
یہ دشمن دینِ حق کے تھے
سنایا تھا انہوں نے آپؐ کو
ایمان والوں کو
تعاقب میں کراہوں کے
نکل کر اپنے حجرے سے
بلا کر قید خانے کے محافظ کو
یہ فرمایا
خدارا! قیدیوں کو
چین سے سونے کی مہلت دو
تم ان کے بندھنوں کو ڈھیلے کر دو
کراہیں رک گئیں
تب چین آیا شاہِ بطحیٰؐ کو
یہی ہے شانِ رحمت
اور یہی ہیں رحمت عالم
٭٭٭
سوکھی ڈالی کو ہلایا
پھر کہا
جس طرح گرتے ہیں پتے شاخ سے
اس طرح اس کے گنہ دھل جائیں گے
جو بلا ناغہ وضو کرتا رہے
رحمتِ عالمؐ کی رحمت کے طفیل
راستہ بخشش کا آساں ہو گیا
٭٭٭
اک ہری ڈالی کو توڑا پیڑ سے
قبر پر اس کو لگایا
پھر کہا
جب تلک اس شاخ میں ہے تازگی
بالیقیں تب تک عذاب قبر سے
قبر میں مردے کو ملتی ہے نجات
رہبر انسانیت ہیں آپؐ
زندوں کے لیے
اور مرحومین پر بھی ہے
عنایت کی نظر
اس لیے رب نے کہا ہے
رحمت اللعالمین
٭٭٭
امت عاصی سے فرمایا
رسول اللہؐ نے
سارے رشتے ٹوٹ کر بکھریں گے جب
روز حساب
ایک اک ساجد کو میں
ہمراہ لے کر جاؤں گا
٭٭٭
ایک سوئی اندھیرے میں گم ہو گئی
ڈھونڈھتی رہ گئیں
حضرتِ عائشہؓ
آپؐ حجرے میں آئے
تبسم کیا
اس بہانے سے اک راز افشا ہوا
راز نور محمدؐ عیاں ہو گیا
٭٭٭
جو خلیق تر ہے وہ آدمی
جو شریف تر ہے وہ شخصیت
جو امینِ وقت ہے بالیقیں
وہی ابتدا، وہی انتہا
وہ رسولؐ ، سرور انبیاؐ
جو جھکی تو دل میں اتر گئی
جو اٹھی تو رہبر دو جہاں
جو پڑی دلوں کو بدل گئی
جو گئی ، تو حشر تلک گئی
وہ نگاہِ ناز رسولؐ ہے
جو فصیح ہے
جو بلیغ ہے
وہ بیانِ سر ور دوجہاں
وہ کلامِ سید انبیاؐ
مجھے جس کا ذکر عزیز ہے
وہ ہے ذکر احمد مصطفی ؐ
٭٭٭
قبائل میں کئی صدیوں سے
جاری جنگ رہتی تھی
عداوت بخش دی تھی باپ دادا نے
وراثت میں
مہاجر میں ہوا،
تو غیر کو انصار کر ڈالا
کہ میں انصار کا ، اور وہ مرا
حقدار بن بیٹھا
یہ احسانِ محمدؐ ہے
یہ تعلیم محمدؐ ہے
٭٭٭
یقیناً آپؐ کے تئیس برسوں کی
مشقت نے
اخوت کا مرے سینے میں ایسا بیج بویا ہے
کہ جب بھی ظلم ہوتا ہے
کسی خطہ میں دنیا کے
تو اس بھائی کی خاطر،
دل مرا مغموم ہوتا ہے
یہ کیسا جذبۂ الفت
ملا ہے آپؐ کے گھر سے
کہ مجھ کو ساری دنیا
میرا گھر معلوم ہوتی ہے
یہ جذبہ محسن انسانیت کا کارنامہ ہے
٭٭٭
روح الامیں نے ایک دن
دعویٰ کیا
یا مصطفی ؐ
آپؐ مجھ سے عمر میں کیسے بڑے ہو جائیں گے
میں ! خدا کا قاصد اول بھی ہوں
اور قاصد آخر بھی ہوں
مسکرا کر آپؐ نے پوچھا
کہ اے روح الامیں
عمر کیا ہے آپ کی
فرمایا تب جبرئیل نے
اک ستارہ میں نے دیکھا ہے ہزاروں مرتبہ
وہ ابھرتا ہے افق پر ایک بار
جب گزرتے ہیں برس ستر ہزار
کب سے وہ محفوظ ہے آفاق میں
علم اس کا ہے فقط اللہ کو
آپ نے پوچھا کہ اے روح الامیں
دیکھنے کی آرزو ہے پھر اسے
ہاں کہا جبرئیل نے تو آپؐ نے
اپنے سینہ سے ہٹایا پیرہن
وہ ستارہ سینۂ اقدس پہ ظاہر ہو گیا
٭٭٭
روز ازل سے آج تک
آئے بہت سے رہنما
تاریخ کے صفحات میں
محفوظ ہیں وہ ہستیاں
گر غور سے ان کو پڑھیں
اک راز سے پردہ اٹھے
پوری کی پوری زندگی
ناپید ہے تحریر میں
ان کے مقابل دیکھئے
سیرت رسول اللہؐ کی
دنیا کے آگے آج بھی
آئینہ ہے وہ زندگی
کفار کے ظلم و ستم
صبر و تحمل آپؐ کا
معراج کی سب منزلیں
ہجرت کے سارے مرحلے
بھیڑوں کی چرواہی بھی ہے
درس شہنشاہی بھی ہے
جلوت بھی ہے، خلوت بھی ہے
اعمال بھی، اقوال بھی
اک ایک لمحہ آپؐ کا
محفوظ ہے تحریر میں
اتنی مکمل زندگی، ہم کو ملے گی، ہم کو ملے گی پھر کہاں
سیرت کی یہ معراج ہے
جو معجزہ سے کم نہیں
٭٭٭
یہ کمالِ ذکر رسولؐ ہے
کہ جمالِ سرور انبیاؐ
جو سنا،
بہت ہی حسین تھا
جو پڑھا،
وہ اس سے حسین تر
وہ عظیم ہستیاں بن گئیں
جنہیں قرب آپ کا مل گیا
٭٭٭
سرحد اور اک سے آگے تخیل آپؐ کا
آپؐ کی نظروں کا مرکز، ماورائے کن فکاں
جس گھڑی کفار مکہ نے
جرح کی آپؐ سے
جو بھی پوچھا!
آپؐ نے فوراً دیا اس کا جواب
آپ کی نظروں میں تھا
بیت المقدس سر بسر
دنیوی سرحد کوئی روکے گی کیسے آپؐ کو
آپؐ کی نظروں نے دیکھا آنے والے وقت کو
جب سراقہ سر جھکایا،
اور شرمندہ ہوا
آپؐ نے فوراً کہا،
کنگن ہیں تیرے ہاتھ میں
خواب کی سی بات تھی
تعبیر کب ظاہر ہوئی
وہ عمرؓ کا تھا
ایران پر قبضہ ہوا
وقت کی سرحد سے بھی آگے ہے سرحد آپؐ کی
جبکہ طاقت کا قانون جاری ہوا
فیصلے سارے تلوار کرنے لگی
آدمی، آدمی سے ہی بیزار تھا
ایسے ماحول میں ، پر خطر دور میں
ایک پیکر محبت کا پیدا ہوا
اس نے ایسا دیا درس انسانیت
علم و حکمت کے دروازے کھلنے لگے
ٹوٹے رشتے محبت سے جڑنے لگے
صرف تئیس برسوں میں ایسا ہوا
ساری دنیا کی کایا پلٹ ہو گئی
٭٭٭
زندہ درگور ہوتی تھی بیٹی کبھی
آج اس کو تحفظ عطا ہو گیا
باپ کے مال کی بیٹی وارث بنی
حشر میں وہ شفاعت کا باعث بنی
احمد مصطفی کا یہ احسان ہے
ماں کے قدموں میں جنت بچھا دی گئی
٭٭٭
ترستی تھیں نگاہیں دیکھنے پھر شیر مکہ کو
جسے قربان کر ڈالا تھا
اذنِ حکم باری سے
وہ دن دکھلایا حق نے
آٹھ برسوں بعد حضرتؐ کو
نکلنا مختلف تھا
داخلہ اس سے نرالا
جو کل تھے ابن عبداللہ
وہ اب ہیں فاتح مکہ
کسی ظالم میں بھی جرأت نہ تھی
آنکھیں ملانے کی
ہر اک ظالم سمجھتا تھا
کہ اس کے دن ہوئے پورے
سواری چل رہی تھی
فاتح مکہ کی سڑکوں پر
نظر نیچی تھی،
اور شکر خدا کا ورد تھا لب پر
کوئی فاتح زمانے میں نظر آیا نہ تھا ایسا
فلک نے بھی وہ منظر
صرف پہلی بار دیکھا تھا
٭٭٭
اک مسافر
جس کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے
کوششیں رات دن
راہِ حق سے ہٹانے کی ہوتی رہیں
وہ تھا ثابت قدم
صرف چلتا رہا
اس مسافر نے رکھے جہاں بھی قدم
وہ جگہ سجدہ گاہوں سے افضل ہوئی
جس گلی سے بھی گزرا وہ مردِ خدا
اس گلی کی فضائیں معطر ہوئیں
اس کی چاہت ہوئی
اس کو ڈھونڈھا گیا
اس کے قدموں کی آہٹ سنائی نہ دی
اس کے نقشِ قدم کا نشاں نہ ملا
کان اپنے سماعت سے محروم تھے
اپنی آنکھوں میں ذوقِ بصیرت نہ تھا
جب سماعت ملی
تو سنائی دیا
دل کے نزدیک قدموں کی آہٹ لگی
جب نظر کو بصیرت عطا ہو گئی
تو نگاہوں نے حیرت سے دیکھا کیا
اس کے نقشِ قدم
شاہراہوں میں تبدیل ہونے لگے
شاہراہوں کا اک سلسلہ ہو گیا
ساری دنیا میں اک جال سا بچھ گیا
٭٭٭
خطاؤں پر شفاعت کی ردائیں ڈالنے والے
شبِ معراج بھی امت کی خاطر سوچنے والے
طہارت بخشنے والے
دلوں کو پھیرنے والے
تمہارے دم سے دنیا کو ملی
تفریقِ خیر و شر
زمیں والوں کو جینے کا چلن تم نے سکھایا ہے
تمہاری شخصیت اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے
سلیقہ تم سے قائم ہے
محبت تم سے قائم ہے
بیانِ اسوۂ حسنیٰ
پرے ہے لفظ و معنی سے
قلم محدود ہے میرا
زباں محدود ہے میری
تم ایسی ذات اقدس ہو
بیاں ممکن نہیں جس کا
جسے خیر البشر کے نام سے
حق نے نوازا ہے
٭٭٭
در خیبر رہا ثابت
کسی سے کچھ نہ پایا
رسول اللہؐ نے فرمایا
بلا لاؤ علیؓ کو وہ اکھاڑیں گے در خیبر
کیا لبیک!
اور حاضر ہوئے دربار اقدس
علیؓ ابن طالب کی آنکھیں
درد کرتی تھیں
نظر بھر کر کسی کو دیکھا بھی
بار خاطر تھا
جلن آنکھوں میں تھی،
جو سرخ تھیں آشوب کی خاطر
شکایت کا پتہ چلتے ہی،
سرکار دو عالمؐ نے
لعاب دہن کو اپنے، لگایا ان کی آنکھوں میں
محض دوچار لمحوں میں
شکایت لاپتہ تھی
اب در خیبر کا کیا ہوگا
٭٭٭
ایک دن فاطمہؓ اپنے شوہر کے گھر
جبکہ روٹی پکانے میں مصروف تھیں
کام اچانک کوئی یاد آیا انہیں
چند لمحوں کی خاطر وہ باہر گئیں
روٹی جلنے لگی
اتفاقاً وہیں تھے رسول خداؐ
اپنے ہاتھوں سے روٹی کو الٹا دیا
دیر تک آگ چولہے میں جلتی رہی
روٹی پک نہ سکی
آپ حیران تھیں
وجہ پوچھیں تو گویا ہوئے مصطفی ؐ
جس کو میں نے چھوا، وہ جلے کس طرح
لمس میرا تو رحمت کی پہچان ہے
٭٭٭
چار دن کے لیے
عالم آب و گل میں اتارا گیا
زندگی بس مسائل کا انبار تھی
خیر و شر اپنی پہچان کھونے لگے
ظلمتوں کا تسلط ہوا ہر طرف
دشت و صحرا کے تاریک ماحول میں
نور کا ایک پیکر نمایاں ہوا
تا قیامت ہر اک امتی کے لیے
رہنمائی کی قندیل ثابت ہوا
ظلمتیں خود بخود دور ہونے لگیں
٭٭٭
کفر و الحاد کے
شہر آشوب میں
ایک امی لقب
لب کشا جب ہوا
علم و حکمت کے اسرار کھلنے لگے
اس کے نقشِ قدم
راہبر جب ہوئے
راستے خود ہی رستہ دکھانے لگے
زندگی اس کی معیار انسانیت
تا قیامت کوئی اس کا ثانی نہیں
٭٭٭
جو مسافر حرم سے چلا تھا کبھی
آج بھی وہ مسافر ہے گرمِ سفر
آرزو ہے مری،
وہ مسافر کبھی،
اس طرف رخ کرے
اس کی راہوں سے کانٹے ہٹاؤں گا میں
اس کی راہوں میں آنکھوں بچھاؤں گا میں
پڑھ کہ صلی علیٰ
منتظر ہوں کھڑا
وہ مسافر کبھی
اس طرف رخ کرے
٭٭٭
مہماں کو بستر دے دیا
خود بوریے پر سو گئے
مہماں کو بس مہماں کہا
اپنا ہو یا کہ غیر ہو
تاریخ کے صفحات میں
ایسی مثالیں پھر کہاں
انسانیت کا درس ہیں
اخلاق کی تصویر ہیں
بھوکے بھی ہیں ، پیاسے بھی ہیں
تبلیغ میں مصروف ہیں
کیا شانِ احمد مصطفی ؐ
صلو علیہ و آلہِ
٭٭٭
جب قلم نے کبھی نام احمدؐ لکھا
اس کو سینے سے اپنے لگا کر رکھا
جس ورق پہ تھا تحریر صلی علیٰ
اس ورق کو شب و روز چوما گیا
جس تصور میں آئے شبیہِ نبیؐ
وہ تصور،
تصور کی معراج ہے
جس تخیل میں آئے مقامِ نبیؐ
اس تخیل پہ قربان دونوں جہاں
جس عمل کا تعلق ہو سرکار سے
اس سے بہتر عمل کوئی ممکن نہیں
ساری باتیں سمجھ جائیں گے بالیقیں
شرط ہے جذبۂ عشق قائم رہے
امتی اپنا رشتہ نبھاتا رہے
٭٭٭
عالم و ہاں مجبور ہو
جاہل کی حالت غیر ہو
مغرور بھی غمگین ہو
رستم پریشاں حال ہو
محشر میں ہر چھوٹا بڑا
بخشش کا متمنی بنے
سب پر عنایت کی نظر
ڈالیں گے جب خیر البشرؐ
ہے ساختہ ہر اک کہے
صلو علیہ و آلہِ
٭٭٭
جب لگی پشت اقدس گھڑی دو گھڑی
پیڑ کی سوکھی شاخیں ہری ہو گئیں
ابر سایہ کیسے ساتھ چلتا رہا
دھوپ منزل بہ منزل بھٹکتی رہی
جن کے قدموں سے حاصل تقدس ہوا
آج بھی ان کا ممنون غارِ حرا
تا قیامت ملے گا نہ اس کا جواب
پیڑ بھی ان کی فرقت میں روتا رہا
شیر جنگل میں جن کی حفاظت کرے
سانپ بھی جن کے دیدار کا منتظر
جب ہوا اس کو احساس تشنہ لبی
بوڑھی بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے
اور تفصیل کی اب ضرورت نہیں
جھلکیوں سے ہی ثابت ہیں خیرالوریٰ
٭٭٭
جلوہ فرما ہوئے اونٹنی پر حضورؐ، مثل انجم صحابہ تھے چاروں طرف
پھر کہا آپؐ نے
آپ تک میں نے پہنچایا دینِ مبیں
گر گماں ہو کسی کو تو اظہار ہو
اک زباں ہو کے اقرار سب نے کیا
جب خدا کو گواہی میں شامل کیا
روئے انور خوشی سے چمکنے لگا
٭٭٭
مرے ہونٹوں کو،
کلمے کی روانی جس نے بخشی ہے
مرے ماتھے کو،
سجدوں کی ہدایت جس نے بخشی ہے
مری دولت میں ،
اوروں کا بھی حصہ جس نے رکھا ہے
مری سوچوں میں ،
یوم آخرت جس نے بسائی ہے
مرے محسن بھی ہیں
وہ میرے راہبر بھی ہیں
٭٭٭
ناشرین کی اجازت سے اور پروفیسر رحمت یوسف زئی کے تشکر کے ساتھ جن سے فائل کا حصول ہوا۔
ان پیج سے اردو تحریر میں تبدیلی، تدوین، ای بک کی تشکیل : اعجاز عبید