08:38    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1363 0 0 00

ٹوبہ سے ٹوبہ تک

           ٹوبہ ٹیک سنگھ تو مشہور جگہ ہے جسے منٹو مرحوم نے اپنے ایک افسانے سے مشہور تر کر دیا ہے لیکن معلوم ہوا کہ دنیا میں ٹوبے اور بھی ہیں ۔ بہاولپور کے علاقے میں تو قدم قدم پر ٹوبہ ہے قائم ٹوبہ، مراد ٹوبہ، محراب ٹوبہ، جمالو والاٹوبہ، کھاریوالہ ٹوبہ، گل والا ٹوبہ، عین والا ٹوبہ، متوالی والا ٹوبہ، دادن والا ٹوبہ، یہ والا ٹوبہ اور وہ والا ٹوبہ، لیکن جاپان میں ہم ہفتے کی شام شاداں و فرحاں جس اسٹیشن پر جا کر اترے اس کا نام بھی ٹوبہ تھا۔

پنجابی میں ٹوبہ کا مطلب جوہڑ ہے، پانی کا تال۔ ہم نے اپنے جاپانی دوستوں سے کہا دیکھئے پنجابی اور جاپانی میں کتنی چیزیں مشترک ہیں ۔ اسی لفظ ٹوبہ ہی کو لیجئے ۔ ہم تھوڑی اور تحقیق کریں جس کے لیے آپ کی حکومت کو ہمیں وظیفہ دے کر بلانا چاہیے تو یہ ثابت کرنا مشکل نہیں کہ کسی زمانے میں پنجاب اور جاپان ایک ہی تھے یا کم از کم ان کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں ۔ ناموں میں دیکھئے پ ن ج ا دونوں میں مشترک ہیں بس ایک حرف ادھر سے ادھر ہو گیا ہے۔ خصوصیات بھی ملتی جلتی ہیں ۔ آپ لوگوں نے باہر کی مصنوعات کی نقلیں بناتے بناتے اتنی ترقی کی۔ ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ باہر کوئی فلم بنتی ہے تو دوسرے دن ویسا ہی بلکہ اس سے اچھا چربہ بنا لیتے ہیں ۔ آپ لوگ ریڈیو بناتے ہیں ۔ ہم ریڈیو سنتے ہیں ۔ آپ لوگ کاریں بناتے ہیں ۔ہم ان پر چڑھتے ہیں ۔ آپ ٹیپ ریکارڈ بناتے ہیں ۔ ہم ان پر گانے سنتے ہیں ۔ آپ جن چیزوں کو برآمد کرتے ہیں ۔ انہی کو ہم درآمد کرتے ہیں غرضیکہ کچھ لمبا چوڑا فرق نہیں آپ میں اور ہم میں ....

ہماری تقریر لمبی ہو رہی تھی۔ ہمارے جاپانی دوست نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ‘’تو گویا تمہارے ہاں بھی کوئی ٹوبہ ہے....’‘

ہم نے کہا ‘’ایک تھوڑی ہے۔ قدم قدم پر ٹوبہ ہے۔ صرف بہاولپور کے علاقے میں تین سو تینتالیس ٹوبے ہیں ۔’‘

بولے۔ ‘’تمہارے ہاں ٹوبہ کا کیا مطلب ہے؟’‘ ہم نے کہا ‘’ٹوبہ کا مطلب ہے جوہڑ ، پانی کا جوہڑ ۔ جیسے یہاں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سامنے پانی جو ہے ٹوبہ ہی ہے۔ ‘‘ کہنے لگے۔ ‘’ یہ جوہڑ تو نہیں ہے یہ تو بحر الکاہل ہے۔’‘ واقعی ہم سوچ رہے تھے کہ یہ ٹوبہ اتنا بڑا کیوں ہے۔ اس کا دوسرا کنارہ کیوں نظر نہیں آتا۔ ہم نے کہا اصل تو دونوں کی ایک ہی ہے۔ فرق چھوٹے اور بڑے کا ہے۔ بحر الکاہل بھی تو اﷲ میاں کا ٹوبہ ہی ہے۔’‘

فرمانے لگے ‘’جاپانی زبان میں اس کا مطلب ہے، پرندے کا پر۔’‘ ہم نے کہا ‘’ یہ نہیں ہو سکتا کوئی با ہوش آدمی بحر الکاہل کے اس ساحلی شہر کا اس قسم کا بے محل نام نہیں رکھ سکتا۔ ضرور پرانی جاپانی میں ٹوبہ کا مطلب جوہڑ ہو گا۔ جوہڑ کے کنارے ، مرغابیاں اور دوسرے پرندے آ کر بیٹھنے لگے اور پر پھڑپھڑانے لگے تو کسی لال بجھکڑ نے سمجھا کہ پرندے کے پر کو ٹوبہ کہتے ہیں ۔ یہ سارا معاملہ صاف ہو سکتا ہے اگر تھوڑی سی ریسرچ ہم پنجاب اور جاپان کے مشترک ورثوں پر کریں اور اس کے لیے حکومت جاپان ہمیں وظیفہ دے کر....

خیر ٹوبہ کچھ بھی تھا۔ تھی عجیب رومان پرور جگہ اور ہمارا ہوٹل ٹوبہ انٹرنیشنل عین سمندر کے نٹ پر تھا۔ سمندر سے کچھ خلیجیں اندر چلی گئی ہیں ۔ ان میں سے کچھ جہاز آ کر ہمارے سامنے لنگر انداز ہو رہے تھے۔ اسی نواح میں وہ جزیرے ہیں جہاں موتی ملتے ہیں ۔ جاپان کے مشہور موتی، مکی موٹو کے موتی۔ وہ سامنے کا جزیرہ کہلاتا ہے، پرل آئی لینڈ ہے یعنی جزیرہ مروارید۔ یہاں ہم نے موتیوں کو چمکانے کا کارخانہ بھی دیکھا۔ بالٹیوں اور تغاروں میں موتی بھرے تھے۔ جی چاہا ہم بھی جھولی بھر لیں پھر باز آئے۔ ایک تو اس لیے کہ ہماری طبیعت میں فقر اور درویشی ہے اور دوسرے اس لیے کہ ان کے پہرے دار دیکھ رہے تھے۔

٭....٭

یہ جگہ جس کے نواح میں ایسا شیما کے جنگلات واقع ہیں جن کو نیچرل پارک کہتے ہیں جاپان کے جنوب مشرقی ساحل کے پاس واقع ہے۔ ٹوکیو سے ہکاری اور پھر وہاں سے نگویا جائیے۔ دو گھنٹے کی راہ ہے۔ وہاں سے دوسری ریلوے لائن لے کر ٹوبہ۔اس میں دو گھنٹے مزید لگیں گے۔ ہکاری کو بلٹ ٹرین بھی کہتے ہیں یعنی گولی ٹرین کیونکہ یہ دنیا کی سب سے تیز رفتار گاڑی مانی جاتی ہے۔ رفتار اس کی ہے تیس میل فی گھنٹہ ۔ ہم نے کبھی گولی چلائی، نہ کبھی گولی کھائی۔ اس گاڑی کی رفتار سے گولی کی رفتار کا اندازہ بھی ہوا۔ پاکستان میں یہ ٹرین چلے تو کراچی سے لاہور کی مسافت چھ گھنٹے کی رہ جائے۔

ہم نے ایک بار پہلے بھی اس سے سفر کیا ہے جب کشفی صاحب سے ملنے اوساکا گئے تھے۔ کیا صاف ستھری ٹرین ہے اور جب ساتھی ہوں تو ہنستے کھیلتے گاتے بجاتے منزلیں طے کرتے جاتے ہیں ۔ جاپان کی خوب صورتی کے کیا کہنے کہ اس کی صورتوں میں بھی ہے۔ اس کے مناظر میں بھی ہے۔ اس کے اطوار میں ہے لیکن اب تک جنتے قریے قصبے دیکھے۔ ٹوبہ اور اس کے نواحات ان سب سے بڑھ کر پر بہار اور دل نشیں پائے۔

جی یہ کہتا تھا یہاں سے نہ اٹھاؤ ڈیرے

ہم کو وطن عزیز بہت یاد آیا

جاپان میں اب کے ہمیں وطن عزیز بہت یاد آیا۔ ایک روز تو بہت ہی یاد آیا۔ ہائے یہاں کی آزادی کہ کوئی روکنے والا نہیں ، کوئی ٹوکنے والا نہیں ۔ سگریٹ کا ٹکڑا تو خیر معمولی چیز ہے۔ آپ کسی بھی دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کسی بھی سینما کے غسل خانے میں ہاتھ دھوتے ہوئے دیوار پر پان کی پیک پھینک سکتے ہیں ۔

ایک روز ہمیں پیاس لگی۔ لگتی تو روز ہی تھی لیکن یہ واقعہ ایک ہی روز کا ہے۔ ہم امان اﷲ سردار کے ساتھ ان کی کار میں جا رہے تھے ہم نے کہا کچھ پینے کو جی چاہتا ہے ۔ کوکا کولا وغیرہ۔ سامنے ہی مشین تھی۔ اس میں سکے ڈالے اور ایک ڈبہ کوکا کولا امان اﷲ سردار نے لیا، ایک ہم نے پیا۔ پی تو لیا اب سوال یہ تھا کہ خالی ڈبہ کہاں پھینکئے۔ اپنا ملک ہوتا تو تردد کی کوئی بات نہ تھی۔ گھما کے بیچ سڑک کے پھینک سکتے تھے اور اس کے لڑھکنے کا تماشہ دیکھ سکتے تھے۔ ورنہ فٹ پاتھ پر ڈال دیتے۔ جاپان میں ایسی آسانیاں نہیں ۔ سڑکوں فٹ پاتھوں پر گھاس کا تنکا نہیں ہوتا۔کاغذ کا پرزہ تک نہیں ہوتا۔ ناچار خالی ڈبے کار ہی میں رکھ لیے۔ ایک ویران سی جگہ پر کھمبے کے ساتھ ٹکانے کو تھے کہ پاس کے ہوٹل سے ایک چوکیدار نکل آیا۔ اس نے ہمیں غور سے تاڑا۔ ہم پھر کار میں آ کر بیٹھ گئے۔ ایک پارک کی باڑ کے ساتھ پھینکنے کے لیے ہاتھ اونچا کیا ہی تھا کہ ایک سنتری نے سیٹی بجا دی۔ایک گٹر نظر آیا۔اس کا منہ کھلا ہوتا تو اس میں ڈال دیتے لیکن وہاں گٹروں کے ڈھکن کوئی نہیں چراتا اور ہمارا اس کام کے لیے ڈھکن اٹھانا ہمیں اپنی شان کے خلاف نظر آیا۔ اس کے چند روز بعد پھر، ہم ان کی کار میں بیٹھے ۔ کوکا کولا کے دونوں ڈبے ان کی ڈگی میں پڑے تھے اب تک پڑے ہوں گے۔ آپ ہی کہئے ایسے میں وطن یاد آتا کہ نہ آتا۔ ہماری تو آنکھوں میں آنسو تک بھر آئے تھے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔