ایک آدمی پرندوں کی دوکان میں بطور مینجر کام کر رہا تھا۔ پرندے فروخت کرنے کے علاوہ یہ بات بھی اس فرائض میں شامل تھی کہ وہ اپنے معزز گاہکوں کے پالتو پرندوں کے پروں کو سنوارے اور چمکائے تا کہ وہ مزید خوبصورت دکھائی دینے لگیں۔ ایک روز ایک ادھیڑ عمر خاتون اپنا طوطا لے آئیں وہ ایک طوطے کے پر سنوار رہا تھا کہ اس کمبخت نے انگوٹھا زور سے کاٹ کھایا‘ بے ساختہ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی۔ اس نے بمشکل اپنے غصے پر قابو پایا اور ان گالیوں کو روک لیا جو وہ اس طوطے کو دینا چاہ رہا تھا۔ دوکان میں ایک بد زبان اور بد مزاج طوطا بھی تھا جسے اس کے مالک نے کئی گالیاں سکھا رکھی تھیں‘ وہ شریر طور اس لمحے گالیاں بکنے لگا۔ اس طوطے کی اس بدتمیزی پر وہ ادھیڑ عمر خاتون سے معذرت چاہنے لگا مگر اس خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور مسکرا کر بولیں۔ ”میرا خیال ہے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ اس شریر طوطے نے کہہ دیا ہے۔“