وہ خود انتظار کرتے کرتے اب ظفر سے استاد ظفری بن چکا تھا۔
لو ایک اور۔۔۔۔۔ جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہونی چاہیے۔ وہ گاڑیوں کی کالک میں کالے ہوں۔ استاد ظفری نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا جو کہ گیراج کا چیف مکینک تھا۔ اس کی نگاہیں سات آٹھ سالہ بچے پر جم کر رہ گئیں۔ جسے کچھ دیر پہلے ہی گیراج کے مالک نے کام پر لگایا تھا۔ گو کہ ملک بھر میں چائلڈ لیبر جاری تھی۔ دوکانیں، ہوٹل، ٹھیلے فیکٹریاں غرض زندگی کا کون سا ایسا شعبہ تھا جہاں معصوم بچے محنت مزدوری نہ کر رہے تھے جن کی عمریں کھیلنے کودنے اور اسکول جانے کی تھیں لیکن گیراج پر جب بھی کوئی بچہ کام کے لیے آتا، استاد ظفری کو بڑی تکلیف ہوتی لیکن وہ ہمدردی میں سرد آہ بھرنے کے سوال کچھ کر بھی تو نہ سکتا تھا۔
آج آنے والے نئے بچے میں نجانے کیا بات تھی کہ استاد ظفری دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ اس نے بچے کو جسے "بالا" کہہ کر تعارف کروایا گیا، کام پر لگانے کا آغاز حسب معمول گاڑیوں اور پرزوں کی صفائی سے کیا۔ بالا ہاتھ میں کپڑا پکڑے گاڑیوں کی مرمت کے لیے نکالے گئے پرزوں کو مٹی کے تیل سے دھونے لگا۔
استاد ظفری نے محسوس کیا کہ بالا دیگر بچوں کے مقابلے میں ذہین، محنتی اور زیادہ فرمانبردار ہے اور جس کام پر لگا دیا جائے خاموشی سے اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ اس کی اچھی عادات کی وجہ سے استاد ظفری خصوصی دلچسپی سے اسے کام سکھانے لگا اور محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے لگا۔ شہر بھر کے گیراجوں پر بچوں کو "چھوٹے" کہہ کر پکارا جاتا تھا لیکن استاد ظفری کو اس لفظ سے شدید نفرت تھی لہذا اس نے سختی سے اس بات کو یقینی بنا رکھا تھا کہ کسی کو چھوٹا نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ اس کا نام لے کر مخاطب کیا جائے۔ بھلا وہ کیسے بھول سکتا تھا کہ جب وہ اس عمر میں پہلے دن گیراج پر آیا تھا تو اس لفظ سے اسے کتنی تکلیف پہنچی تھی۔
"بالے ذرا آٹھ نمبر کا پانہ تو دینا۔" استاد ظفری جو کہ گاڑی کے نیچے سیٹ ڈالے لیٹا ہوا گاڑی کی مرمت کر رہا تھا۔ زور سے بولا۔ دو تین بار آواز لگانے کے باوجود جب نہ تو بالا آیا اور نہ ہی جواب ملا۔ استاد ظفری گاڑی کے نیچے سے سرکتا ہوا باہر نکلا۔ متلاشی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ بالا کچھ ہی دور کھڑا سڑک کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا جہاں ایک بچہ اسکول یونیفارم میں کندھے پر بستہ لٹکائے اپنے والد کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر استاد ظفری نے افسوس سے سر جھٹکا اور خود ہی پانہ اٹھا کر دوبارہ گاڑی کے نیچے سرک گیا اور کام کرنے لگا۔
وقت گزرتا رہا۔۔۔۔۔ کام میں دلچسپی کی وجہ سے بالا مہینوں میں اتنا کام سیکھ گیا جتنا لوگوں نے سال بھر میں نہ سیکھا تھا۔ استاد ظفری کی سفارش پر اس کی اجرت میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا جس پر وہ بہت خوش تھا اور زیادہ محنت اور لگن سے کام کرتا لیکن اس معاملے میں وہ بالکل بے اختیار تھا کہ جب بھی کوئی بچہ اسکول یونیفارم میں وہاں سے گزرتا۔ بالا سب کچھ بھول کر خیالوں میں کھو جاتا اور دیر تک اسی سمت تکتا رہتا۔ استاد ظفری کبھی اس میں مداخلت نہ کرتا بس مسکرا کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔
سخت گرمی کے دن تھے۔ گیراج کے کاریگر سب مل کر کھانا کھاتے تھے۔ اب دسترخوان بچھائے استاد ظفری کا انتظار کر رہے تھے جو کہ کام سے فارغ ہو کر ہاتھ دھونے میں مصروف تھا۔
بالا کہاں ہے؟ استاد ظفری نے بالے کو وہاں موجود نہ پا کر پوچھا۔
استاد اسے ضرور کوئی اسکول کا بچہ دکھائی دیا ہو گا۔ ایک دوسرے بچے نے شرارت سے کہا۔ وہ ابھی اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ استاد ظفری کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
استاد میں دیکھتا ہوں بالے کو، تم کھانا شروع کرو۔ گیراج کے ایک کاریگر نے اٹھتے ہوئے کہا تو استاد ظفری نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بالے کو دیکھنے نکلا۔
بالا ایک گاڑی سے ٹیک لگائے کتاب کے پھٹے ہوئے صفحے کو ہاتھ میں پکڑے حسرت سے دیکھ رہا تھا اور اس پر بنی تصویروں پر انگلی پھیرتے ہوئے کچھ بڑبڑا بھی رہا تھا۔ سڑک کے دوسری پار قلفی کی ریڑھی پر دو بچے اپنے بستے کندھوں سے لٹکائے قلفیاں کھا رہے تھے اور آپس میں ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ بالے کو خبر ہی نہ ہوئی کہ استاد ظفری اس کے بالکل قریب کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔ پڑھنے کی خواہش میں بالے کی آنکھیں جذبات کے آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔
استاد ظفری کو اپنا بچپن یاد آ گیا اور ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے اس طرح سے آ گیا جیسے کل ہی کی بات ہو۔ وہ گیراج پر کام کے لیے وقت سے پہلے محض اس لیے نکلتا تھا کہ صبح سویرے ایک اسکول کے گیٹ میں کھڑا ہو کر اسکول کے احاطے میں ہونے والی اسمبلی کا منظر دیکھ سکے اور جب سب بچے مل کر کورس کی صورت دعا پڑھتے تو وہ بھی بے اختیار دعا میں شریک ہو جاتا۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
وہ آج بھی اسکول کے بوڑھے چوکیدار کا احسان مند تھا جو اس کے لیے اسکول گیٹ کھلا رکھتا تھا تاکہ وہ بھی بچوں کی دعا میں شریک ہو سکے۔ اسمبلی کے بعد بچے اپنے اپنے کلاس روم کی طرف بڑھ جاتے اور ظفر اس امید کے ساتھ گیراج کی طرف چل پرتا کہ ہو سکتا ہے کل طلوع ہونے والا سورج اسے بھی ان بچوں میں شامل کر دے۔۔۔ ۔ لیکن غربت اس کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ میں ایسی حائل ہوئی کہ وہ ظفر سے استاد ظفری بن گیا۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
گیراج کے کاریگر اور بچے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ استاد ظفری جو دنیا و مافیہا سے بے خبر لاشعوری طور پر یہی جملہ بار بار دہرائے جا رہا تھا۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
بالا بھی جو چند لمحے خود اسی کیفیت سے دوچار تھا۔ استاد ظفری کی طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک استاد ظفری کو احساس ہوا کہ گیراج کا سارا عملہ اس کے قریب جمع ہو چکا ہے تو اس نے قمیض کی آستینوں سے آنکھوں کو خشک کرنے کی کوشش کی جو آنسوؤں سے بے اختیار بھر چکی تھی۔
اقبال۔۔۔۔۔ اقبال۔۔۔۔۔ بالا حیرت سے استاد ظفری کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے تو کبھی اس کے ماں باپ نے بھی "اقبال" کہہ کر مخاطب نہ کیا تھا اور آج استاد ظفری اسے اقبال کہہ کر پکار رہا تھا۔
ہاں بیٹا، آج سے تم اقبال ہو۔۔۔ ۔۔ بالا نہیں۔۔ میں اس اقبال کو بالا ہر گز نہیں بننے دوں گا۔ جہاں استاد ظفری کے دو بچے اسکول پڑھ سکتے ہیں وہاں ایک اور سہی تم کل سے اسکول جاؤ گے اور تمہاری پڑھائی کا خرچ میں برداشت کروں گا۔۔۔ ۔۔۔ بالا استاد ظفری کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: فہیم اسلم۔ اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید